’ایک دوسرے کو دیکھ کر خوشی ہوئی‘، افغان خواتین فٹ بال ٹیم کی عالمی میدان میں واپسی

image

چار سال قبل طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے موقع پر افغانستان سے فرار ہونے والی قومی فٹ بال ٹیم کی خواتین کھلاڑی ایک بار پھر اپنے ملک کی نمائندگی کر رہی ہیں تاہم اس بار وہ پناہ گزین ہیں۔

امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق یہ ٹورنامنٹ پہلی بار عالمی سطح پر ہونے والی وہ کوشش ہے جس میں خود کو ’افغان ویمن یونائیٹڈ‘ کہنے والی خواتین قومی ٹیم کے طور پر تسلیم کیے جانے کی خواہاں ہیں۔

اٹلی میں رہائش پذیر کپتان فاطمہ حیدری کا کہنا ہے کہ ’ایک دوسرے کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی، ہم نے جوش کے ساتھ ایک دوسرے کو گلے لگایا اور پھر ایک ساتھ کھیلے۔‘

انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’ایک کھلاڑی ہونے کے ناطے میں کہتی ہوں کہ آپ کی زندگی میں مشکلات آئیں گی جن پر آپ ہار نہ مان کر قابو پا سکتے ہیں۔‘

فیفا کی بین الاقوامی گورننگ باڈی مراکش میں ایک فرینڈلی ٹورنامنٹ کا اہتمام کرنے جا رہی ہے جس میں چاڈ، لیبیا اور تیونس کی ٹیمیں شامل ہیں۔

اتوار سے شروع ہونے والے ایونٹ کو فیفا یونائٹس ویمن سیریز 2025 کا نام دیا گیا ہے۔

ٹورنامنٹ میں میں چاڈ، لیبیا اور تیونس کی ٹیمیں شامل ہیں (فوٹو: اے پی)

اس ٹورنامنٹ کا انعقاد کھلاڑیوں کی برسوں کی لابنگ کے بعد ممکن ہوا ہے۔ اس میں سابق کپتان اور ایکٹیوسٹ خالدہ پوپل کے علاوہ انسانی حقوق کے گروپس کی کوششیں شامل رہیں اور ٹیم کو مقابلے میں واپس لانے کے لیے کردار ادا کیا۔

خالدہ پوپل کہتی ہیں کہ ’ہم نے تمام مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا کیا اور بالآخر چار سال اور چند ماہ کی کوششوں کے بعد اب یہ لڑکیاں افغان ٹیم کے طور پر فٹ بال کھیل رہی ہیں، تاہم ان کے پاس ٹائٹل نہیں ہے۔‘

ان کے مطابق ’اچھا لگ رہا ہے کہ لڑکیاں کھیل رہی ہیں مگر کیا صرف یہی کافی ہے، نہیں مگر اچھا آغاز ضرور ہے۔‘

افغانستان کی قومی فٹ بال ٹیم کی خواتین کھلاڑیوں نے اس وقت اپنے گھر اور سرزمین کو چھوڑا تھا جب چار سال قبل طالبان نے ملک کا کنٹرول سنبھالا تھا، تاہم کچھ افغان خواتین کھلاڑی اب بھی اپنے ملک کی نمائندگی کر رہی ہیں مگر پناہ گزین کے طور پر۔

افغانستان کی خواتین فٹ بال پلیئرز نے اپنا آخری میچ 2018 میں کھیلا تھا، تاہم 2021 میں طالبان کی آمد کے بعد خواتین کی کھیلوں کی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی گئی تھی۔

افغان خواتین کھلاڑی اس بار ’پناہ گزین کے طور پر‘ ملک کی نمائندگی کر رہی ہیں (فوٹو: اے پی)

تاہم اس سے قبل خواتین کے ساتھ نامناسب سلوک کے الزامات کے تحت افغان فٹ بال فیڈریشن کے خلاف تحقیقات ہو رہی تھیں اور فیڈریشن کے صدر پر فیفا نے تاحیات پابندی لگائی تھی۔

طالبان کے آتے ہی خواتین کھلاڑی سزاؤں کے خوف سے ملک سے نکل گئی تھیں۔ کچھ نے اس خوفناک وقت کے بارے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’اپنی شناخت چھپانے کے لیے کِٹس کو جلانا پڑا۔‘

فاطمہ حیدری کا کہنا ہے کہ ’ہم نے جن مشکلات اور مصائب کا سامنا کیا میں ان کو یاد بھی نہیں کرنا چاہتی کیونکہ وہ بہت تلخ ہیں کیونکہ اپنی سرزمین، خاندان اور دوستوں کو چھوڑنا پڑا۔ مجھے یہ بات اداس کرتی ہے کہ وہاں اب بھی ایسی کھلاڑی موجود ہیں جو نہیں کھیل رہیں مگر کھیلنا چاہتی ہیں، ہم ان کی آواز بننا چاہتے ہیں۔‘

 


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US