لریسا کا تعلق برازیل کے شہر بیلو ہوریزونتے سے ہے اور وہ کبھی انڈیا نہیں گئی ہیں۔ اس لیے انھیں تمام معاملہ سمجھنے کے لیے گوگل کا سہارا لینا پڑا۔
انڈیا میں الیکشن فراڈ کے حوالے سے شہہ سرخیوں میں جب برازیل کی ایک ہیئر ڈریسر لریسا نیری کا نام آیا تو وہ سمجھیں کہ شاید کوئی غلطی ہے یا پھر کسی قسم کا کوئی مذاق ہے۔
لیکن جلد ہی سوشل میڈیا پر انھیں نوٹیفکیشن موصول ہونا شروعہو گئے اور لوگوں نے انھیں انسٹاگرام پر ٹیگ کرنا شروع کر دیا۔
لریسا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پہلے پہل تو ایسے ہی کچھ پیغامات موصول ہوئے۔ میں سمجھی کہ لوگ مجھے غلطی سے کوئی اور فرد سمجھ رہے ہیں۔‘
’پھر مجھے ایک ویڈیو موصول ہوئی جس میں ایک بڑی سکرین پر میرا چہرہ نمودار ہوا۔ میں سمجھی کہ شاید یہ کوئی مصنوعی ذہانت سے بنائی گئی چیز یا پھر کوئی مذاق ہے لیکن پھر بھی بہت سارے لوگوں نے مجھے میسجز کرنا شروع کر دیے اور مجھے تب سمجھ آیا کہ یہ حقیقت ہے۔‘
لریسا کا تعلق برازیل کے شہر بیلو ہوریزونتے سے ہے اور وہ کبھی انڈیا نہیں گئی ہیں۔ اس لیے انھیں تمام معاملہ سمجھنے کے لیے گوگل کا سہارا لینا پڑا۔
دراصل لریسا کا نام اور چہرہ انڈین نیوز چینلز پر اس وقت نمودار ہونا شروع ہوا تھا جب اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے ایک پریس کانفرنس میں وزیرِ اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور انڈیا کے الیکشن کمیشن پر گذشتہ برس ہریانہ کے انتخابات میں فراڈ کا الزام لگایا۔
بی جے پی نے ان تمام الزامات کی تردید کی۔
اس پریس کانفرنس کے چند ہی گھنٹوں بعد ہریانہ کے چیف الیکٹورل آفیسر نے ایکس پر ایک خط شیئر کیا جو انھوں نے اگست میں راہل گاندھی کو ارسال کیا تھا۔ اس میں راہل گاندھی سے حلفیہ طور پر ان ووٹرز کے نام دینے کو کہا گیا تھا جو ان کے مطابق ہریانہ میں انتخابات کے دوران ووٹ دینے کے اہل نہیں تھے۔
تاہم الیکشن کمیشن کی جانب سے لریسا کے حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔ بی بی سی نے ان کا مؤقف جاننے کے لیے رابطہ بھی کیا تھا۔
راہل گاندھی رواں برس اگست سے الیکشن کمیشن پر ’ووٹوں کی چوری‘ کا الزام لگا رہے ہیں۔
اپنے تازہ ترین الزامات میں راہل گاندھی نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے الیکشن کمیشن کی ووٹر لسٹ دیکھی اور دو کروڑ ووٹرز میں 25 لاکھ انٹریز یا تو ڈپلیکیٹ ہیں یا پھر ان ووٹرز کے پتے غلط دیے گئے ہیں۔
انھوں نے الزام عائد کیا کہ ہریانہ میں ان کی جماعت کو شکست ووٹر لسٹ میں مبینہ چھیڑ خانی کے سبب ہوئی۔
اپنے دعوؤں کو ثابت کرنے کے لیے راہل گاندھی نے بڑی سکرین پر کچھ سلائیڈز دکھائیں۔ ایک سلائیڈ میں راہل گاندھی کو لریسا کی ایک بڑی تصویر کے ساتھ کھڑا ہوا دکھایا گیا جبکہ دوسری سلائیڈ پر 22 ووٹرز کے نام اور ان کے مختلف پتے درج تھے لیکن ان سب کے ساتھ لریسا کی تصاویر تھیں۔
اس موقع پر راہل گاندھی نے سوال کیا کہ ’یہ خاتون کون ہیں؟ ان کی عمر کیا ہے؟ انھوں نے ہریانہ میں 22 مرتبہ ووٹ ڈالا۔‘
انھوں نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ برازیلین فوٹوگرافر میتھیس فریرو کی جانب سے لی گئی ایک تصویر متعدد ووٹرز کے لیے استعمال کی گئی۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ لریسا ایک ماڈل ہیں جن کا اندراج ووٹر لسٹ میں متعدد ناموں سے کیا گیا۔ ان ناموں میں سیما، سویٹی اور سرسوتی جیسی شناختیں بھی شامل ہیں۔
29 سالہ لریسا نے بی بی سی کو تصدیق کی ہے کہ راہل گاندھی کی طرف سے دکھائی گئی تصویر ان ہی کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جی، یہ میں ہی ہوں لیکن اس میں میں جوان ہوں۔ یہ تصویر میری ہی ہے۔‘
تاہم انھوں نے وضاحت کی کہ وہ کوئی ماڈل نہیں بلکہ ایک ہیر ڈریسر ہیں اور انڈیا میں دکھائی گئی تصویر مارچ 2017 میں ان کے گھر کے باہر ہی لی گئی تھی جب ان کی عمر 21 برس تھی۔
اب برسوں بعد ’انڈیا کے لوگوں اور صحافیوں‘ سے ملنے والی توجہ کے سبب وہ کچھ خوفزدہ ہیں۔
’میں ڈر گئی تھی۔ میں نہیں بتا سکتی کہ یہ میرے لیے خطرناک ہے یا نہیں، یا کہیں میرے اس حوالے سے بات کرنے سے کسی کو کوئی نقصان تو نہیں ہو گا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ کیا غلط ہے کیا صحیح کیونکہ میں فریقین کو نہیں جانتی۔‘
’مجھے اپنی پروفائل سے اپنے سیلون کا نام حذف کرنا پڑا کیونکہ لوگ مجھے تنگ کر رہے تھے۔ میرے باس نے بھی مجھ سے بات کی۔ کچھ لوگ بس اسے ایک میم سمجھتے ہیں لیکن اس سے میرا کام متاثر ہوا ۔‘
اسی طرح لریسا کی تصویر کھینچنے والے فوٹوگرافر میتھیس فریرو بھی اچانک اتنی توجہ ملنے کے سبب تھکے ہوئے نظر آتے ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انڈیا سے کچھ لوگوں نے ان سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ ان کی تصویر میں لڑکی کون ہے۔
میتھیس کہتے ہیں کہ ’میں نے کسی کو جواب نہیں دیا، میں کسی کا نام نہیں لوں گا۔ مجھے لگا جیسا کہ یہ کوئی فراڈ ہے، میں نے انھیں بلاک کر دیا۔‘
’لوگ مجھے انسٹاگرام اور فیس بُک پر کالز کر رہے تھے۔ میں نے اپنا انسٹاگرام اکاونٹ ڈی ایکٹویٹ کر دیا اور سمجھنے کی کوشش کی کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔‘
برازیلین فوٹوگرافر کا کہنا ہے کہ کچھ ویب سائٹس نے لریسا کی تصاویر کے ساتھ ان کی تصویر بھی بغیر اجازت کے شائع کی۔
’لوگ میمز بنا رہے تھے، اسے کوئی کھیل یا مذاق سمجھ رہے تھے۔‘
سنہ 2017 میں میتھیس نے بطور فوٹوگرافر کیریئر کا آغاز کیا تھا اور لریسا کا فوٹو شوٹ کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے لریسا کی تصاویر فیس بُک اور ان سپلیش پر ان کی مرضی سے شیئر کی تھیں۔
’اس تصویر پر 57 کروڑ ویوز آ چکے ہیں۔‘
اب انھوں نے ان سپلیس نامی ویب سائٹ سے یہ تصاویر ڈیلیٹ کر دی ہیں۔
برازیلین فوٹوگرافر کہتے ہیں کہ ’میں نے یہ تصاویر خوف کی وجہ سے ڈیلیٹ کی ہیں کیونکہ ان کا غلط استعمال کیا جا رہا تھا۔ میں یہ سوچ کر ڈر رہا تھا کہ جن دیگر لوگوں کی تصاویر میں نے لی ہیں کہیں ان کے ساتھ بھی کچھ ایسا نہ ہو جائے۔‘
میتھیس اور لریسا دونوں ہی آج تک انڈیا نہیں گئے اور سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ دنیا کے دوسرے کونے میں ہونے والے ایک واقعے سے کیسے ان کی زندگیاں پلٹ کر رہ گئی ہیں۔
ہم نے میتھیس سے پوچھا کہ ان تصاویر سے اگر کسی الیکشن فراڈ کا پردہ فاش ہوتا ہے تو کیا یہ ایک مثبت چیز ہو گی؟
انھوں نے جواب دیا کہ ’میرے خیال میں یہ ایک مثبت چیز ہو گی لیکن مجھے ایسی کسی تفصیل کا علم نہیں۔‘
لریسا جو کبھی اپنے ملک سے باہر نہیں گئیں، کہتی ہیں کہ ’میں تو برازیل کے انتخابات پر توجہ نہیں دیتی، کسی اور ملک کے انتخابات تو دور کی بات ہے۔‘