پاکستان میں اس سال مجموعی طور پر چلغوزے کی ریکارڈ پیداوار بتائی گئی ہے لیکن اس کام سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ کہیں بارشیں نہ ہونے سے کم میوہ ملا تو کہیں چلغوزے کا سائز چھوٹا رہا۔
پاکستان میں اس سال مجموعی طور پر چلغوزے کی ریکارڈ پیداوار بتائی گئی ہے’یہ آسان کام نہیں، پہاڑوں میں اونچے درختوں سے چلغوزے کی کون اتارنا اور پھر ان سے چلغوزے نکالنا اور انھیں پکانا مشکل مرحلے ہوتے ہیں، اس سال ہمارے کوئی چھ لوگ ان جنگلوں میں مختلف اوقات میں زخمی ہوئے یا جان کی بازی ہار گئے۔‘
بلوچستان کے شہر ژوب کے ساتھ واقع ضلع شیرانی کے تاجروں نے بتایا کہ اس سال ان کی پیداوار بھی اچھی نہیں ہوئی اور جو ہوئی، اس میں چلغوزے کا سائز چھوٹا رہ گیا۔
کوہ سلیمان کے پہاڑوں میں کاروبار کرنے والے خیال گل نے بتایا کہ ان کا سارا سرمایہ ان پہاڑوں میں ہے اور وہ کوئی 28 سال سے یہ کام کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ اتنا مشکل کام ہوتا ہے کہ اس سال چلغوزے کی فصل سے پھل لانے کے دوران مختلف اوقات میں علاقے کے چھ افراد زخمی ہوئے یا ان کی جان چلی گئی تھی۔
انھوں نے کہا کہ صرف یہی نہیں بلکہ انھیں اس چلغوزے کا مناسب معاوضہ بھی نہیں مل رہا۔
’گزشتہ سال اچھا تھا کچھ معاوضہ مل گیا تھا لیکن اس سال تو موسم شروع ہوا تو چلغوزے کی قیمت انتہائی کم تھی۔‘
پاکستان میں اس سال مجموعی طور پر چلغوزے کی ریکارڈ پیداوار بتائی گئی ہے لیکن اس کام سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ کہیں بارشیں نہ ہونے سے کم میوہ ملا تو کہیں چلغوزے کا سائز چھوٹا رہا۔
لیکن پاکستان میں کچھ ایسے علاقے بھی ہیں جہاں چلغوزے کی پیداوار اچھی ہوئی اور میوے کا سائز بھی بڑا ہے مگر وہاں تاجروں کو عالمی منڈی میں رسائی کے مسائل درپیش ہیں۔
اس تحریر میں ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ اس سال منڈی میں چلغوزے کی قیمت کیا ہے اور شہروں میں پہنچ کر دکانوں میں یہ کس بھاؤ فروخت ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ یہ بھی جاننے کی کوشش کریں گے کہ آخر پاکستان کے ہمسائے اور دوست ملک چین میں اس میوے کی ڈیمانڈ اتنی زیادہ کیوں ہے؟
چلغوزے کا سائز اور پیداوار
محکمہ جنگلات میں تحقیق کے شعبے سے وابستہ افسران کا کہنا ہے کہ چلغوزے کے قدرتی جنگلات پاکستان کے مختلف علاقوں میں ہیں، جیسے سب سے زیادہ گھنے جنگلات شمالی وزیرستان کے علاقے شوال میں اور اسی طرح پھر جنوبی وزیرستان اور بلوچستان سے منسلک کوہ سلیمان اور خیبر پختونخوا کے سرحدی علاقوں جیسے ضلع شیرانی، ژوب اور درازندہ میں پائے جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ ضلع چترال، کوہستان اور دیر کے کچھ علاقوں میں بھی چلغوزے کے جنگلات ہیں جبکہ گلگت بلتستان میں دیامر کے مقام پر چلغوزے کے گھنے جنگلات ہیں۔
محکمہ جنگلات میں ریسرچ کے شعبے سے وابستہ ڈائریکٹر حسنین رضا نے بی بی سی کو بتایا کہ گزشتہ سال خیبر پختونخوا سے چلغوزوں کوئی 2100 میٹرک ٹن سے زیادہ پیدوار حاصل ہوئی تھی، جس میں سب سے زیادہ شمالی اور جنوبی وزیرستان سے بتائی گئی تھی جو تقریباً 2000 میٹرک ٹن تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ اب تک کی اطلاعات کے مطابق اس سال پیداوار ماضی کی نسبت کوئی پانچ گنا زیادہ بتائی جا رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ برس چلغوزے سے پاکستان کو کوئی سات ارب روپے سے زیادہ آمدنی ہوئی تھی۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ گزشتہ برسوں میں چلغوزے کی عالمی سطح پر مانگ کی وجہ سے اس کی قیمتیں آسمان تک پہنچ گئی تھیں اور گذشتہ سال چلغوزہ پاکستان میں سات سے آٹھ ہزار روپے فی کلو کے حساب سے مارکیٹ میں فروخت ہو رہا تھا۔
چلغوزہ اگر کولڈ سٹوریج میں نہ رکھا جائے تو اس کا وزن کم ہوتا رہتا ہےاس کاروبار سے وابستہ جنوبی وزیرستان کے تاجر صاحب خان کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ پیدوار زیادہ ہوئی لیکن چلغوزے کا سائز چھوٹا رہ گیا، جس وجہ سے باہر ممالک میں اس کی مانگ کم ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ اس چھوٹے چلغوزے کی قیمت بھی گزشتہ سال کی نسبت کم ہو سکتی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اکتوبر میں جب چلغوزہ مارکیٹ میں آیا تو اس کی قیمت وانا بازار میں 2200 روپے سے 2500 روپے تک تھی لیکن اب جیسے سردی میں اضافہ ہو رہا ہے تو اس کی قیمت بڑھ رہی ہے اور وانا کی ہول سیل منڈی میں چلغوزے کی قیمت 2700 روپے تک ہے، جبکہ چلغوزے کو جب انگیٹھی میں پکا لیتے ہیں تو اس کا وزن کم ہو جاتا ہے اور قیمت بڑھ جاتی ہے۔
صاحب خان نے بتایا کہ عالمی سطح پر پاکستان اور افغانستان کے لیے بڑی منڈی چین ہے جہاں دونوں ممالک سے چلغوزہ جاتا ہے اور چین میں چلغوزے کی قیمت سائز پر ہوتی ہے۔
’مثال کے طور پر اگر ایک کلو میں 2200 سے 2300 چلغوزے ہوں تو اس کی قیمت اچھی ملتی ہے اور اگر ایک کلو میں 3300 یا 3500 چلغوزے کے دانے ہوں تو اس کی قیمت بھی کم ملتی ہے۔‘
ضلع شیرانی کے تاجر قطب دین نے بتایا کہ ہمارے لیے مشکل یہ ہے کہ چلغوزہ اگر کولڈ سٹوریج میں نہ رکھا جائے تو اس کا وزن کم ہوتا رہتا ہے اور ہمارے ہاں کولڈ سٹوریج نہیں اس کے لیے ہم لاہور کے کولڈ سٹوریج بھیجتے ہیں۔
ان کے مطابق لاہور میں گذشتہ سال چلغوزہ کولڈ سٹوریج سے متعلقہ ادارے کے لوگ لے گئے تھے جس سے تاجروں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا تھا۔
چلاس کا چلغوزہ بڑا کیوں؟
پاکستان میں چلغوزے کی ایک بڑی منڈی گلگت بلتستان میں دیامر میں بھی ہے، جہاں چلغوزے کے جنگلات پائے جاتے ہیں۔
مقامی صحافی فخر عالم چلاس کی مقامی مارکیٹ میں گئے اور انھوں نے بتایا کہ اس سال ایک تو پیدوار زیادہ ہوئی اور اس کے علاوہ یہاں چلغوزے کا سائز بھی بڑا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ زیادہ پیداور ہونے کی وجہ سے قیمت ایک جگہ مقرر نہیں ہو رہی اور کبھی کم اور کبھی زیادہ روزانہ کے اعتبار سے قیمتوں میں فرق آجاتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ دو تین ہفتے پہلے ایک کلو کچے چلغوزے کی قیمت 2700 روپے تک تھی اور اب 3700 روپے تک پہنچ گئی ہے۔
تاجروں کا کہنا ہے کہ چلغوزہ وقت کے ساتھ وزن کم کرتا ہے اور یہ چند ماہ میں خراب ہونا شروع ہو جاتا ہے، اس لیے اسے کولڈ سٹوریج میں رکھنا ضروری ہوتا ہے اور پھر اسے وقت پر منڈیوں میں پہنچانا ضروری ہوتا ہے۔
فخر عالم نے بتایا کہ دیامر اور چلاس میں چلغوزے کا سائز بڑا ہے لیکن اب تک قیمت مستحکم نہیں ہو رہی۔
ان کا کہنا تھا کہ مارکیٹ میں جائزہ لیا تو اندازہ ہوا کہ اس سال کم قیمتوں کی وجہ سے جو محنت کش پہاڑوں سے چلغوزہ اتار کر منڈی پہنچاتے ہیں وہی طبقہ زد میں آیا ہے۔
’گاؤں سے چلغوزہ منڈی لانے والے محنت کش جب منڈی پہنچتے ہیں تو بڑے مایوس ہوتے ہیں کیونکہ گذشتہ سال قیمتیں پانچ سے چھ ہزار تھیں۔ امسال 2800 سے تین ہزار ہیں تو محنت کش طبقہ بڑا مایوس ہے۔ ان کو توقعات کے مطابق ریٹ نہیں مل رہا۔‘
فخر عالم نے منڈی میں تاجروں سے بات چیت کی اور بتایا کہ تاجروں کے لیے مشکلات اس لیے آئی ہیں کیونکہ چین تک پہنچنے میں مشکلات زیادہ ہیں۔
اس کی برآمدی فیس افغانستان میں زیادہ ہے اور اس کے علاوہ گذشتہ سال لاہور کے کولڈ سٹوریج میں رکھا گیا چلغوزہ چھاپہ مارنے پر تحویل میں لے لیا گیا تھا اور اس وجہ سے اب تاجر لاہور چلغوزہ نہیں بھیج رہے۔
بڑے شہروں میں چلغوزے کے بھاؤ کیا ہیں؟
اب تک تو ہم ان منڈیوں کا ذکر کر رہے تھے جہاں چلغوزہ پیدا ہوتا ہے اور وہاں کی منڈیوں میں قیمتیں بھی اس تناسب سے ہوتی ہیں لیکن جب یہ چلغوزہ پک کر بڑے شہروں کی مارکیٹوں میں آتا ہے تو اس کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں۔
صاحب خان کا کہنا ہے کہ جب کچے چلغوزے کو انگیٹھی میں پکایا جاتا ہے تو اس کا وزن ایک کلو میں 250 گرام کم ہو جاتا ہے اس لیے پھر اس کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔
’مثال کے طور پر اگر کچا چلغوزہ 3000 روپے کلو مل جاتا ہے تو پھر یا تو اس کی مقدار کم ہوجاتی ہے اور 1000 گرام کی جگہ 700 یا 750 گرام ملتے ہیں تو پھر اس کی قیمت بڑھا دی جاتی ہے۔‘
پشاور کی پیپل منڈی میں ان دنوں قدرے کم کوالٹی کا چلغوزہ 5000 روپے کلو جبکہ اچھی کوالٹی کا چلغوزہ 6000 سے 8000 روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔ اسی طرح تاجروں نے چھلے ہوئے چلغوزے یعنی چلغوزے کا مغز بھی فروخت کے لیے رکھا ہے اور اس کی قیمت 10000 سے 12000 روپے بتائی جاتی ہے۔
تاجروں کے مطابق یہ قیمتیں روزانہ کے حوالے سے کم اور زیادہ ہوتی رہتی ہیں اور یہ قیمتیں موسم کی تبدیلی کے علاوہ ڈیمانڈ اور سپلائی کے اصولوں پر بھی انحصار کرتی ہیں۔
چلاس میں محکمہ جنگلات کے افسر محمود الطاف نے بتایا کہ اس مرتبہ اگرچہ پیداوار میں اضافہ ہوا، اس کے لیے کمیونٹی کی اصلاح کے لیے کام کیا اور انھیں تربیت دی تھی تاکہ چلغوزے کو بہتر کیا جا سکے اور حکومت نے چلغوزے کی ٹرانسپورٹیشن پر بھی کام کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ چلغوزے کی قیمت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
اسی طرح خیبر پختونخوا کے محکمہ جنگلات کے ریسرچ ونگ کے ڈائریکٹر حسنین رضا نے بتایا کہ چلغوزے کی پیداوار کے علاقوں میں نرسریز بنائی گئی ہیں اور چلغوزے کی پیداوار اور اس کے سائز میں اضافے کے لیے کام جاری ہے اور اس سے مقامی لوگوں کو فائدہ ہو گا۔