’آئی ایم ایف وغیرہ بھی ہمارا کیا بگاڑ سکتے ہیں؟‘

یو این ڈی پی اور آئی ایم ایف کی رپورٹوں سے تصویر کچھ یوں بنتی ہے کہ وسائل و مراعات کی گیم میں کارپوریٹ سیکٹر، بڑے زمیندار، سیاسی طبقہ اور عسکری اقتصادیات کلیدی کھلاڑی ہیں۔

ہماری سرکار کسی کی سنے نہ سنے، آئی ایم ایف کی سننا ہی پڑتی ہے۔ آئی ایم ایف وہ ظالم سسر ہے جو نہ صرف گھر کے خرچ اور آمدن پر نگاہ رکھتا ہے بلکہ بچوں کے جیب خرچ کا بھی حساب رکھتا ہے۔

مگر بچے بھی غچہ دینے کے چیمپیئن ہیں۔ یہ آنکھ مچولی گذشتہ سڑسٹھ برس سے جاری ہے۔

ان چھ عشروں میں آس پڑوس اور دور دراز کے ملک کہیں سے کہیں نکل گئے مگر پاکستان وہ ستی ساوتری ہے جس کی ڈولی 1958 میں آئی ایم ایف کے گھر آئی تھی اور لگتا ہے کہ اس کا ڈولا ہی نکلے گا۔

وفا شعاری اپنی جگہ مگر پھوہڑپن اپنی جگہ برقرار۔ بلکہ اب تو ریاست نے تنگ آ کر ایک بورڈ پر بڑا بڑا لکھوا دیا ہے کہ ’براہِ کرم ہمیں ترقی کرنے پر بار بار مجبور کر کے سکون برباد نہ کیا جاوے۔ شکریہ۔‘

آئی ایم ایف کی تازہ ترین پاکستان رپورٹ بھی حسبِ معمول طعنوں، کوسنوں اور ڈانٹ ڈپٹ سے بھری ہوئی ہے۔

اس رپورٹ کا محور وفاقی احتسابی ادارے نیب کی دو برس کی کارکردگی ہے۔ نیب نے 2023-2024 کے دوران پانچ اعشاریہ تین کھرب روپے مالیت کے اثاثوں کی ریکوری کی۔

اس کارکردگی پر آئی ایم ایف نے خوش ہونے کے بجائے یہ تبصرہ کیا کہ کرپشن اوپر سے نیچے انفرادی سے اجتماعی سطح تک اس قدر سرایت کر چکی ہے کہ پاکستان اگر اس سے نجات کے لیے واقعی سنجیدہ ہو جائے تو پانچ برس میں اس کی قومی آمدنی میں سالانہ پانچ تا ساڑھے چھ فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔

آئی ایم ایف نے اپنی رپورٹ میں صرف وفاقی اداروں کی گورننس پر فوکس کیا ہے۔ عسکری اور صوبائی سطح پر مالیاتی مینجمنٹ کا احوال رپورٹ کے دائرے سے باہر ہے۔

آئی ایم ایف رپورٹ میںکم و بیش وہی کچھ ہے جو اپریل 2021 میں اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی فنڈ (یو این ڈی پی) کی کنٹری رپورٹ میں تھا۔ یعنی پچھلے چار برس میں حکومتیں بدلیں، آئین مسخ ہوا مگر خراب گورننس اور کرپشن کے چہرے کی بشاشت ماند نہیں پڑی۔

بلکہ یو این ڈی پی کی پچھلی رپورٹ میں کھول کھول کے بتایا گیا کہ پاکستان کی اصل بیماری خراب گورننس کا وہ نظام ہے جو بہت ذہانت سے تیار کیا گیا اور اس پر اسی فطانت سے عمل کیا جا رہا ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق تقریباً 50 فیصد قومی آمدنی سے 20 فیصد آبادی فیضیاب ہو رہی ہے (اس میں سے بھی نو فیصد قومی آمدنی پر ایک فیصد اشرافیہ کا قبضہ ہے)۔

جبکہ نچلی 20 فیصد آبادی کی رسائی صرف سات فیصد قومی آمدنی تک ہے۔ آس پاس کے ممالک میں متوسط طبقہ تیزی سے بڑھا ہے جبکہ پاکستان میں مڈل کلاس 42 فیصد سے کم ہو کر 36 فیصد تک آ گئی ہے۔ غربت کا تناسب 39 فیصد سے بڑھ کے لگ بھگ 45 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔

یو این ڈی پی اور آئی ایم ایف کی رپورٹوں سے تصویر کچھ یوں بنتی ہے کہ وسائل و مراعات کی گیم میں کارپوریٹ سیکٹر، بڑے زمیندار، سیاسی طبقہ اور عسکری اقتصادیات کلیدی کھلاڑی ہیں۔

سیاسی جماعتوں پر بھی انہی طبقات کا تسلط ہے، پارلیمنٹ میں بھی ان کی یا ان کے حواریوں کی اکثریت ہے۔ چنانچہقانون سازی بھی انہی کے ہاتھ میں ہے اور اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ عدلیہ پر بھی ان کے گہرے لمبے سائے ہیں۔

ان کھلاڑیوں نے ایک غیر اعلانیہ اشرافی کارٹیل بنائی ہوئی ہے۔ اس کارٹیل کو ٹیکس چھوٹ، سرمائے تک آسان رسائی، زمین اور سروسز کے شعبے میں ترجیحی مراعاتی پالیسیوں کی شکل میں سالانہ ساڑھے سترہ ارب ڈالر تک کا فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔

آسان زبان میں اگر صرف یہ مراعاتی جال ہی ٹوٹ جائے تو پاکستان کی کل قومی آمدنی میں سالانہ چھ فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ 25 کروڑ میں سے ساڑھے 24 کروڑکی قسمت نہ بھی بدلے تو بھی تعلیم، صحت اور روزگار کی حالت تو تھوڑی بہت سدھر ہی سکتی ہے۔

آئی ایم ایف
Getty Images
’ہماری سرکار کسی کی سنے نہ سنے، آئی ایم ایف کی سننا ہی پڑتی ہے‘

مگر آئی ایم ایف کا بھول پن ملاحظہ فرمائیں کہ جس اشرافیہ نے گورنننس اور مراعات کا یہ ’مثالی سسٹم‘ بنایا ہے اسی اشرافیہ سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اس نظام کے ثمرات میں دیگر کروڑوں محروموں کو شریک کرنے کے لیے سنجیدگی سے قانونی، انتظامی اور معاشی اصلاحات کرے۔

اگر شیر کے منھ سے ہڈی کھینچنا اور ہاتھی سے گنے چھیننا ممکن ہے تو پاکستان میں اشرافیہ کو مراعات کے بٹوارے پر آمادہکرنا بھی ممکن ہے۔

ایسی چکنی عالمی و مقامی انگریزی رپورٹوں سے ہماری سرکاری الماریاں بھری پڑی ہیں۔ انگریزی ویسے بھی ڈیڑھ فیصد سے زائد آبادی پڑھ نہیں سکتی۔ پڑھ لے تو سمجھ نہیں سکتی۔

قومی ناخواندگی بھلے ہمارے آپ کے نزدیک عیب ہو مگر اشرافی مافیا کے نزدیک یہ ایک بڑی نعمت ہے۔ یہ ایسی افیون ہے جس سے قوم کو تھپک تھپک کے سلایا جا سکتا ہے۔

پھر بھی سول سوسائٹی ٹائپ جن جن کے پیٹ میں یہ حالت دیکھ دیکھ کے مروڑ اٹھ رہے ہیں اور وہ خوش نصیب اشرافیہ سے حسد میں مرے جا رہے ہیں۔ ان کے سامنے دو ہی راستے ہیں۔ یا تو اشرافی مافیا کے چھوٹے بن کے چند چھوڑے ہوئے ٹکڑے میز پر سے اٹھا لیں یا پھر قانونی و غیر قانونی غیض و غضب کا سامنا کرتے پھریں۔

رہی جنتا! تو اصل مسئلے سے اس کی توجہ ہٹانے کے لیے جھنجھنے اور غبارے بہت۔۔۔

مذہبی تنازعات، وسائل کی تقسیم کے مباحث، جمہوریت کا سراب، معدنیاتی من و سلوی کے خواب، ترقیاتی گیم چینجر، ڈیجیٹل پاکستان، کامیاب خارجہ پالیسی، آئین میں یہ ترمیم وہ ترمیم، سیسہ پلائی دفاعی دیوار وغیرہ وغیرہ۔

آپ کو ان میں سے جو بھی جھنجھنا پسند ہے اٹھائیں اور زور زور سے چھنکاتے ہوئے ٹائم پاس کریں اور تھک ہار کے آج ہی کی طرح کے ایک اور دن کے انتظار میں بستر پر گر جائیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US