لیو ان ریلیشن شپ پر تنقید۔۔ نور مقدم کیس میں جج کے اختلافی نوٹ پر بحث کیوں چھڑ گئی؟

image

نور مقدم قتل کیس میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس علی باقر نجفی کے اختلافی نوٹ نے عوامی سطح پر ایک بھونچال پیدا کر دیا ہے۔ وہ عوام جو اس مقدمے کو برسوں سے دیکھ رہے ہیں، انصاف کی امید باندھے بیٹھے تھے اور ہر نیا موڑ ان کے لیے سوالوں کی نئی فہرست لے کر آتا ہے۔ اسی لیے جب جج صاحب نے اپنے اضافی نوٹ میں اس قتل کو ’لیو ان ریلیشن شپ‘ کا نتیجہ قرار دیا تو سب سے پہلے یہی سوال عوام کے ذہنوں میں ابھرا کہ کیا عدالت کا بنیادی کام قانون پر فیصلہ دینا ہے یا معاشرتی رویوں کی تشریح کرنا بھی فیصلے کا حصہ ہونا چاہیے؟

عوام کی ایک بڑی تعداد اس سوال کے ساتھ سامنے آئی کہ اگر ایک جج مقدمے کے اندر ایسے معاشرتی اسباب شامل کر دے جو عدالت میں بطور ثبوت ثابت ہی نہ ہوئے ہوں تو کیا یہ انصاف کے عمومی اصولوں سے ہٹ کر نہیں؟ عوام کے نزدیک عدالت ایک ایسا فورم ہے جہاں فیصلے جذبات، قیاس یا ذاتی تشریحات کے بجائے ثبوتوں اور قانونی اصولوں کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ چنانچہ لوگوں نے یہ پوچھا کہ کیا مقدمے کی کارروائی میں کہیں یہ بات حتمی طور پر ثابت ہوئی تھی کہ نور مقدم اور ظاہر جعفر ’لیو ان ریلیشن شپ‘ میں تھے؟ عوام کا مؤقف یہ ہے کہ اگر عدالت میں ایسا کوئی ناقابلِ تردید ثبوت پیش نہیں ہوا تو پھر فیصلے میں یہ بات شامل کرنا ایک حساس اور تکلیف دہ پہلو کو جنم دیتا ہے۔

عوام کے ایک بڑے طبقے نے اس نوٹ پر یہ بھی اعتراض اٹھایا کہ ایک مقتولہ، جو اپنی جان سے ہاتھ دھو چکی ہے اور اب اپنا دفاع بھی نہیں کر سکتی، اس کے کردار پر اشارہ کنایہ کرنا نہ صرف اخلاقی طور پر پریشان کن ہے بلکہ اسے وکٹم بلیمنگ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ ایک عام قاری کے نزدیک، یہ سوال بہت اہم ہے کہ جب مقتولہ اپنی بات کہنے کے لیے زندہ ہی نہیں، تو پھر اس پر تعلقات کا الزام کیسے لگایا جا سکتا ہے؟ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر کسی کی نجی زندگی کے بارے میں ایسا حساس دعویٰ کرنا ہو تو قانون اور شریعت دونوں چار گواہوں اور ناقابلِ تردید شہادت کا مطالبہ کرتے ہیں۔ تو کیا عدالت میں یہ گواہ پیش کیے گئے تھے؟

اسی تنازعے نے عوام میں ایک اور تشویش پیدا کی ہے کہ اگر عدالتیں اب مقدمات کے فیصلوں میں سماجی ’اسباب‘ بھی شامل کرنے لگیں گی تو کل کو ہر جرم کو کسی نہ کسی طرزِ زندگی یا اخلاقی برائی سے جوڑ کر فیصلے لکھے جائیں گے، اور اس سے انصاف کی بنیادیں کمزور پڑ سکتی ہیں۔ عوام میں یہ خوف موجود ہے کہ اس طرح فیصلہ قانون کے بجائے اندازوں اور تاثر پر منتقل ہو جائے گا، جس سے نہ صرف مجرم کے حقوق متاثر ہوں گے بلکہ متاثرہ فریقین کے لیے بھی بے چینی بڑھے گی۔

صارفین کی رائے یہ بھی سامنے آئی ہے کہ جج کے اختلافی نوٹ نے معاشرے میں لایعنی بحث چھیڑ دی ہے، جو اصل مسئلے یعنی قتل، اس کے شواہد، اور مجرم کی ذمہ داری سے عوام کی توجہ ہٹا سکتی ہے۔ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ جب سارا مقدمہ ثبوتوں پر استوار تھا تو معاشرتی تجزیہ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیا عدالت کا بنیادی کام صرف قانون لاگو کرنا نہیں تھا؟

اسی لیے عوام کی ایک بڑی تعداد کا مطالبہ ہے کہ پارلیمان میں اس نوٹ پر بحث ہونی چاہیے، تاکہ یہ طے ہو سکے کہ عدلیہ کے دائرۂ اختیار میں کہاں تک ایسے تبصرے مناسب سمجھے جاتے ہیں اور کہاں سے وہ متاثرہ فریقوں کے لیے تکلیف دہ یا عوام کے لیے گمراہ کن بن جاتے ہیں۔

نور مقدم کیس نے پہلے ہی عوام کے ذہنوں میں بے شمار سوالات چھوڑے تھے۔ اب اس اضافی نوٹ نے لوگوں کے اندر وہ بے چینی دوبارہ زندہ کر دی ہے کہ آیا ہمارے نظامِ انصاف میں فیصلوں کا دائرہ قانون تک محدود رہے گا یا جج صاحبان عوامی اخلاقیات پر بھی فیصلے لکھتے رہیں گے۔ عوام اس لیے فکر مند ہیں کہ انصاف جتنا صاف اور غیرجانبدار ہو گا، اتنا ہی مضبوط نظر آئے گا، مگر جب فیصلوں میں ذاتی تشریحات شامل ہوں گی تو عام شہری کے لیے فرق کرنا مشکل ہو جائے گا کہ کیا فیصلہ ثبوت پر ہوا یا قیاس پر۔


Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US