پاکستان میں کرپٹو کونسل اور ورچوئل ایسٹ ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کے بعد ڈیجیٹل اثاثوں کے شعبے میں حکومت اور بائنانس کے درمیان ہونے والی مفاہمتی یاداشت کو وزیر خزانہ نے معاشی اصلاحات کے سفر میں ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔

پاکستان نے دنیا کے سب سے بڑے کرپٹو کرنسی پلیٹ فارم بائنانس کے ساتھ حال ہی میں ایک مفاہمتی یاداشت پر دستخط کیے ہیں جس کے ذریعے دو ارب ڈالر تک کے حکومتی مالیاتی اثاثوں کی ٹوکنائزیشن اور ان کی بلاک چین پر مبنی تقسیم پر کام کیا جائے گا۔
پاکستان کے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور بائنانس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر نے اس مفاہمتی یاداشت پر دستخط کیے ہیں جسے حکومت کی جانب سے ایک اہم پیشرفت قرار دیا گیا ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ یہ پاکستان کی معاشی اصلاحات کے سفر میں ایک اہم قدم ہے۔ ان کے مطابق حکومت اب اس منصوبے پر تیزی سے عملی پیشرفت چاہتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس مفاہمتی یاداشت پر دستخظ کے بعد اگلا مرحلہ اس پر عملدرآمد کا ہے۔
پاکستان میں کرپٹو کونسل اور ورچوئل ایسٹ ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کے بعد ڈیجیٹل اثاثوں کے شعبے میں حکومت اور بائنانس کمپنی کے درمیان ہونے والی مفاہمتی یاداشت اہم پیش رفت ہے۔
تازہ ترین پیش رفت میں حکومتی مالیاتی اثاثوں کی ٹوکنائزیشن کی بات کی گئی ہے۔
بی بی سی نے ڈیجیٹل ایسٹ کے شعبے کے ماہرین اور حکومت سے اس نئی پیش رفت پر بات کی کہ یہ کیسے ہوگا اور اس سے پاکستان کی معیشت کو کیسے فائدہ ہوسکتا ہے۔
حکومتی مالیاتی اثاثوں کی ٹوکنائزیشن اور ان کی بلاک چین پر مبنی تقسیم کیا ہے؟
حکومتی مالیاتی اثاثوں کی بات کی جائے تو اس میں حکومت کی جانب سے جاری کیے جانے والے بانڈز شامل ہوتے ہیں جس کے ذریعے حکومت مقامی اور غیر ملکی مالیاتی مارکیٹوں سے پیسے لیتی ہے۔
اسی طرح پاکستان کے اندر سٹیٹ بینک کی جانب سے ٹریژری بلز (یا ٹی بلز) کے ذریعے بھی حکومت کمرشل بینکوں سے پیسے ادھار پر حاصل کرتی ہے۔
سافٹ ویئر کمپنی آئیڈیوفیوژن کے چیف ایگزیکٹو علی زین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ٹوکنائزیشن کا مطلب ہے کہ کسی چیز کو ڈیجیٹل ٹوکن میں بدل دینا جو بلاک چین یا ڈیجیٹل نظام پر موجود ہوتا ہے۔
’جیسا کہ حکومت کا ایک بانڈ جو روایتی طریقے سے جاری ہوتا ہے تاہم اب اس کو ڈیجیٹل ٹوکن میں بدل دیا جائے گا اور یہ ٹوکن ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے ذریعے خریدے یا بیچے جا سکتے ہیں۔‘
علی زین نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ایک بڑے اثاثے کو چھوٹے چھوٹے ٹوکن میں تقسیم کر کے اسے فروخت کے لیے پیش کیا جائے گا جس کے لیے بلاک چین ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جاتا ہے۔

ڈیجیٹل ایسٹ شعبے کے ماہر ارسلان خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بلاک چین ٹیکنالوجی ایک آپریٹنگ سافٹ ویئر سسٹم ہے جو ٹوکن کو ایک جگہ سے دوسری جگہ ٹرانسفر کر سکتا ہے اور اس ٹوکن پر ایک ویلیو رکھی ہوتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ عموماً جو فنانشنل ٹرانزیکشن ہوتی ہیں اس پر لاگت آتی ہے اور وہ پانچ، چھ مرحلوں میں طے ہوتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ دنیا بھر میں فناننشل ٹرانزیکشن پر اٹھنے والی لاگت کا تخمینہ تین ٹریلین ڈالر(3000 ارب ڈالر) تک ہے۔
تاہم بلاک چین ٹیکنالوجی کے ذریعے ٹوکنائزڈ ڈیجیٹل ایسٹ کی ٹرانزیکشن سینکنڈوں میں ہو جاتی ہے اور دوسری طرف اس کی لاگت کچھ سو ملین ڈالر ہے۔
انھوں نے کہا کہ بلاک چین ٹیکنالوجی پر کسی ڈیجیٹل ایسٹ کا جو ٹوکن بنتا ہے اس کی منفرد شناخت ہوتی ہے جس کی بنیاد پر لین دین ہوتا ہے۔
پاکستان اور بائنانس کے درمیان مفاہمتی یادداشت کتنی اہم ہے؟
پاکستان اور بائنانس کمپنی کے درمیان ہونے والی مفاہمتی یاداشت کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ڈیجیٹل ایسٹ کے شعبے میں ایک اہم پیش رفت ہے جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ اگر پیش رفت کے بعد معاہدہ ہوتا ہے تو پاکستان میں ڈیجیٹل اثاثوں کے شعبے میں کام کرنے والوں کو ایک ریگولیٹری ماحول فراہم ہوجائے گا۔
اس کے ساتھ ملک میں اس کے ذریعے بیرونی سرمایہ کاری کو بھی لایا جا سکتا ہے جب کہ مقامی سرمایہ کار اس کے ذریعے عالمی مالیاتی اور کیپیٹل مارکیٹوں میں بھی باآسانی سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔
علی زین نے اس کے بارے میں بتایا کہ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد ڈیجیٹل کرنسیوں کے شعبے میں کام کرنے والے ایکسچینجز پر کام کر رہی ہے تاہم بائنانس وہ ڈیٹا یہاں فراہم نہیں کرتا۔
انھوں نے کہا کہ اگر معاہدہ ہو جاتا ہے تو وہ یہ ڈیٹا بھی فراہم کریں گے اور انھیں پھر ایک ریگولیٹڈ ماحول بھی مل جائے گا۔ اس کے ساتھ صارفین کو بھی سکیورٹی مل جائے گی کہ جو اس شعبے میں کام کریں گے۔
انھوں نے کہا اسی طرح بیرونی دنیا سے کسی منصوبے میں سرمایہ کاری لانے کے لیے بھی یہ ریگولیٹڈ ماحول بہت مدد فراہم کرے گا۔
انھوں نے کہا کہ کسی منصوبے میں سرمایہ کاری کے لیے درکار لاگت کو ٹوکنائز کر دیا جائے گا جس کی وجہ سے باآسانی یہ سرمایہ کاری آ سکتی ہے۔
انھوں نے کہا جیسے سٹاک مارکیٹ میں کسی کمپنی کے حصص کی فروخت کے لیے ابتدائی عوامی پیش کش (آئی پی او) کے لیے حصص کو فروخت کے لیے پیش کیا جا سکتا ہے تقریباً انھی خطوط پر یہ کام ہوتا ہے۔
ارسلان خان کے مطابق ایک ریگولیٹڈ نظام میں کام کرنے سے بہت زیادہ آسانی ہو گی۔
انھوں نے کہا سب سے پہلے یہ کام ادارہ جاتی ہو جائے گا جس سے کام کرنے والوں کو بھی سہولت ہوگی۔
انھوں نے کہا کہ بیرونی دنیا سے سرمایہ کاری کو لانے کے ساتھ مقامی سرمایہ کاروں کو گلوبل مارکیٹ تک بھی رسائی ہو جائے گی۔
پاکستان سے بیرونی مارکیٹ میں سرمایہ کاری سے ڈالر کے ملک سے باہر جانے کے خدشات کے بارے میں ارسلان نے بتایا کہ اس کا ملک میں ڈالر کے ذخائر پر کوئی اثر نہیں ہو گا۔
انھوں نے کہا جب بائنانس کمپنی پاکستان میں کام کر رہی ہو گی تو ٹوکنائزیشن کے لیے ڈالروں میں ادائیگی نہیں ہو گی بلکہ مقامی کرنسی میں یہاں پر بائنانس کمپنی کو ادائیگی کی جائے گی۔
انھوں نے ڈالر کے آؤٹ فلو کے خدشات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ اس نظام سے ایسا کچھ نہیں ہوتا۔
سوشل میڈیا پر اس مفاہمتی یاداشت پر تبصرے اور اسد عمر کا سوال
اس مفاہمتی یاداشت کے بعد سوشل میڈیا پر صارفین کی جانب سے اس پر تبصرے سامنے آئے ہیں جس میں کچھ اس کے بارے میں پُرامید ہیں تو کئی لوگوں نے اس پر سوال اٹھائے ہیں۔
ان میں سب سے نمایاں تحریک انصاف حکومت کے دور کے وزیر خزانہ اسد عمر کا ایکس پر پوسٹ کیا گیا پیغام ہے جس میں انھوں نے کہا کہ ’دو ارب ڈالر اثاثوں کی ٹوکنائزیشن کے لیے کیا راستہ اختیار کیا گیا ہےَ اور کیا اس میں شفافیت شامل ہے؟‘
اسد عمر کے مطابق بائنانس ایسٹ کی ٹوکنائزیشن کے لیے عالمی سطح پر بڑی تنظیم نہیں ہے اور نہ ہی اس ٹاسک کے لیے اس کی ساکھ ہے۔
انھوں نے سوال کیا کہ ’ایسٹ ٹوکنائزیشن کے لیے عالمی سطح کے معروف نام بلیک راک، یو بی ایس، گولڈمین سیکس، جی پے مورگن، ایچ ایس بی ایس کہاں ہیں؟‘

اس سے متعلق سوال پر وفاقی وزیر خزانہ کے مشیر خرم شہزاد نے بی بی سی کو بتایا کہ سب سے پہلے یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بائنانس کے ساتھ جس مفاہمت کی یادشت پر دستخظ ہوئے ہیں وہ ایک این او سی ہے کہ پاکستان میں ڈیجیٹل ایسٹ کی ایک ریگولیٹری اتھارٹی ہے اور ریگولیٹری رجیم کو کیسے فالو کرنا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’دیکھا جائے گا کہ بائنانس نے کس حد تک اس پر عملدرآمد کیا ہے اور اگر پوری طور وہ ایسا کرتی ہے تو اس کے بعد مزید پیشرفت ہو گی۔‘
خرم نے کہا کہ بائنانس کو ’کوئی لائسنس نہیں دیا گیا بلکہ مفاہمتی یاداشت کی صورت میں ایک این اوسی جاری کی گئی ہے۔‘
بائنانس کے بارے میں انھوں نے کہا کہ یہ دنیا کی بلاک چین کی ٹاپ ایکسچینج کمپنی ہے۔
ان کے مطابق پاکستانی پہلے سے اس پر کام کر رہے ہیں۔ ’اب حکومت چاہتی ہے کہ ایک ایسا ایکو سسسٹم بنایا جائے کہ جہاں پر انھیں ریگولیٹڈ ماحول میں انھیں پلیٹ فارم فراہم کیا جا سکے۔‘