بڈنگ باکس پر نصب کیمرا، وسیع میڈیا کوریج اور مبارکبادیں: پی آئی اے کی فروخت کے عمل کے دوران کیا کچھ ہوتا رہا؟

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ایک نجی ہوٹل کے وسیع ہال میں منگل کی صبح پی آئی اے کی نجکاری کے لیے بولی کا عمل شروع ہوا تو ہال سرمایہ کاروں، اُن کے اہلخانہ، سرکاری حکام، وزرا اور میڈیا کے نمائندوں سے بھرا ہوا تھا۔
تصویر
BBC
پی آئی اے کی بولی کے عمل کے دوران وفاقی وزرا، سرکاری اہلکار اور میڈیا کے نمائندے بڑی تعداد میں ہال میں موجود تھے

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ایک نجی ہوٹل کے وسیع ہال میں منگل کی صبح پی آئی اے کی نجکاری کے لیے بولی کا عمل شروع ہوا تو ہال سرمایہ کاروں، اُن کے اہلخانہ، سرکاری حکام، وزرا اور میڈیا کے نمائندوں سے بھرا ہوا تھا۔

بولی کے عمل کے باقاعدہ آغاز کے بعد شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے بولیاں بند لفافوں میں وہاں نصب شیشے کے باکس، جس پر کیمرہ نصب تھا، میں ڈالی گئیں جبکہ اس موقع پر سکیورٹی اہلکار بھی ہال میں موجود تھے۔

یہ عمل براہِ راست پاکستان کے سرکاری میڈیا اور نجی ٹی وی چینلز پر دکھایا گیا اور اس تقریب کی بڑے پیمانے پر میڈیا کوریج یقینی بنائی۔

یہ پاکستان میں تقریباً دو دہائیوں بعد سرکاری سرپرستی میں چلنے والے کسی بڑے ادارے کی پہلی نجکاری تھی۔ اس سے قبل گذشتہ برس پی آئی آئی کی نیلامی ناکام رہی تھی اور صرف ایک کمپنی نے بولی دی تھی جو حکومت کی طے شدہ قیمت سے انتہائی کم تھی۔

بولیاں جمع کروانے کے بعد چند گھنٹوں کے وقفے کا اعلان کیا گیا اور سہ پہر ساڑھے چار بجے یہ بولیاں سب کے سامنے کھولی گئیں۔ سب سے پہلے لکی سیمنٹ کی بولی سامنے آئی جو 101.5 ارب روپے کی تھی، جس پر ہال میں خوب تالیاں بجیں۔ اس کے بعد عارف حبیب کی بولی سامنے آئی جو 115 ارب روپے تھی، جس پر دیر تک اس کنسورشیم کو داد دی جاتی رہی۔

ایئر بلیو کی بولی تقریباً 26 ارب روپے رہی اور وہ مقابلے سے باہر ہو گئی۔

حکومت نے پی آئی اے کی ’ریفرنس پرائس‘ 100 ارب روپے مقرر کر رکھی تھی۔ بڑی بولیاں جمع کروانے والی کمپنیوں کے درمیان اوپن بڈنگ کا اعلان ہوا اور وقفے کے بعد بولی لگانے کے عمل کا دوبارہ آغاز ہوا۔ وقفے کے دوران حکومتی نمائندے ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے رہے کہ پی آئی اے کی فروخت قریب ہے۔

بولی کا سلسلہ بڑھتا گیا۔ لکی سیمنٹ نے 125 ارب روپے کی پیشکش کی، لیکن عارف حبیب نے اس سے زیادہ بولی لگا دی۔ آخرکار جب بولی 135 ارب تک پہنچی تو لکی سیمنٹ نے اس عمل سے دستبرداری کا اعلان کیا اور عارف حبیب کو مبارکباد دی جس پر ہال میں موجود افراد نے بھی اُن کے لیے تالیاں بجائیں۔

تصویر
BBC
عارف حبیب کنسورشیم نے ابتدائی بولی 115 ارب روپے کی دی تھی

وزیر داخلہ محسن نقوی، وزیر مملکت طلال چوہدری اور وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے عارف حبیب کو مبارکباد دی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ خوشی کی بات یہ ہے کہ پی آئی اے کو پاکستان کے اندر سے ہی سرمایہ کار خرید رہے ہیں اور امید ہے کہ وہ ادارے کو آگے لے کر جائیں گے۔

نجکاری کمیشن کے سیکریٹری نے اس سارے عمل کی نگرانی کی جبکہ وزیراعظم کے مشیر برائے نجکاری محمد علی اور دیگر حکام بھی اس موقع پر موجود تھے۔ حکومت نے اعلان کیا کہ کامیاب بولی دینے والا کنسورشیم مزید دو سرمایہ کاروں کو ساتھ ملا سکتا ہے۔

آخرکار 135 ارب روپے کی بولی کے ساتھ عارف حبیب نے پی آئی اے کے 75 فیصد حصص جیت لیے اور اب اگلے مرحلے میں پی آئی اے کے باقی 25 فیصد حصص حاصل کرنے کے لیے انھیں پیشکش کی جائے گی۔

یہ حصص پی آئی اے کی سامنے آنے والی نئی ویلیو کے مطابق 12 فیصد پریمیئر پر حاصل کیے جا سکیں گے اور اس رقم کی ادائیگی کے لیے 12 ماہ کا وقت دیا جائے گا۔ اگر عارف حبیب کنسورشیم’گرین شو‘ کا آپشن حاصل کرتے ہیں اور وہ باقی 25 فیصد خرید لیتے ہیں تو وہ پی آئی اے کے 100 فیصد حصص کے مالک بن جائیں گے۔

معاہدے کے مطابق کنسورشیم کو اپنی بولی کا 67 فیصد تین سے چار ماہ میں ادا کرنا ہوگا جبکہ باقی رقم ایک سال بعد دی جائے گی۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق حکومت نے پی آئی اے کے زیادہ تر پرانے قرضے اپنے ذمے لے لیے ہیں اور حالیہ عرصے میں ادارے نے 20 سال بعد پہلی بار اپنا منافع ظاہر کیا ہے۔ برطانیہ اور یورپی یونین نے بھی پی آئی اے پر پانچ سالہ پابندی ختم کر دی ہے جس سے ایئرلائن کی قدر میں اضافہ ہوا ہے۔

نجکاری کمیشن کے مشیر محمد علی نے کہا کہ حکومت پی آئی اے کے سو فیصد حصص فروخت کرنے کے لیے تیار ہے، تاہم 75 فیصد سے زیادہ حصص خریدنے والوں کو اضافی قیمت ادا کرنا ہو گی۔ پی آئی اے کی کل مالیت 180 ارب روپے لگائی گئی ہے۔

یہ عمل حکومت کے وسیع نجکاری پروگرام کا حصہ ہے جس میں بینکوں، بجلی کے اداروں اور دیگر خسارے کے شکار سرکاری کمپنیوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

عارف حبیب: ’اب دنیا کو معلوم ہو گیا کہ پاکستانی سرمایہ کاروں میں بھی دم ہے‘

پی آئی اے کی نجکاری
BBC

کامیاب بولی دینے کے بعد پاکستانی کاروباری شخصیت عارف حبیب نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پی آئی اے کی نجکاری کے عمل میں سرمایہ کاروں کی دلچسپی غیر معمولی رہی ہے، اگرچہ 15 سے 20 ارب روپے کی اوور بڈنگ ہوئی۔

اُن کے مطابق اچھی بات یہ تھی کہ دونوں ہی گروپ، جو اس عمل میں شامل ہوئے، انھوں نے اچھا مقابلہ کیا اور اچھی بات یہ ہے کہ اب حکومت کو زیادہ پیسے جائیں گے۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ نجکاری کے عمل کا آغاز ہے اور اس سے باہر اچھا پیغام جائے گا کہ ملک کے اندر بھی ایسے کاروباری لوگ موجود ہیں کہ وہ پی آئی اے کو خرید سکتے ہیں اور اس سے باہر کے سرمایہ کار بھی پاکستان میں دلچسپی لیں گے۔ بولی سے ملنے والا زیادہ حصہ کمپنی کو ہی جائے گا اور اس سے پی آئی اے کو چلانے میں آسانی ہو گی۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ اس بڈنگ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ پاکستان میں ایسے کاروباری افراد موجود ہیں جو پی آئی اے کو حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

عارف حبیب کے مطابق ’اب دنیا کو معلوم ہو گیا ہے کہ پاکستانی سرمایہ کاروں میں بھی دم ہے‘۔

جب اُن سے پوچھا گیا کہ آپ کا ایوی ایشن (فضائی صنعت) کا تجربہ نہیں تو انھوں جواب دیا کہ پی آئی اے کو چلانا ملازمین ہی کا کام ہے اور انھیں اس عمل کا اہم حصہ بنانا ہو گا۔ ان کے مطابق ’یہی لوگ اس ادارے کو چلائیں گے۔‘

انھوں نے یاد دلایا کہ وہ ماضی میں بھی فرٹیلائزر اور رئیل سٹیٹ سمیت مختلف نجکاری منصوبوں کا حصہ رہے ہیں اور یہ کہ انھیں اِن شعبوں کا بھی تجربہ نہیں تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس اچھے پروفیشنلز موجود ہیں اور اگر انھیں اظہار رائے کی آزادی اور اعتماد دیا جائے تو وہ بہت کچھ کر سکتے ہیں۔

عارف حبیب کی رائے میں مزید سرمایہ کاروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی گنجائش بھی موجود ہے۔

پی آئی اے کے فلیٹ (فضائی بیڑا) کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ لگ بھگ مزید 26 طیارے اس میں شامل کیے جائیں گے اور یوں یہ تعداد بڑھ کر 64 تک پہنچ جائے گی۔

اُن کے مطابق آج کی بڈنگ کا کمپنی میں 92.5 فیصد سرمایہ واپس جائے گا۔

بعد ازاں نجی ٹی وی ’جی ٹی وی‘ سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اُن سے آرمی چیف نے ملاقات میں کہا تھا کہ پی آئی اے خریدنے میں غیر ملکی سرمایہ کار بھی دلچسپی رکھتے ہیں، لیکن خواہش یہ ہے کہ ادارہ پاکستانیوں کے پاس ہی رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عارف حبیب کنسورشیم پی آئی اے کے باقی حصص بھی خریدے گا اور یوں کمپنی کے سو فیصد شیئرز ان کے پاس ہوں گے۔

اُن کا کہنا تھا کہ پی آئی اے کا نام اور نعرہ ’گریٹ پیپلز ٹو فلائی ود‘ برقرار رکھا جائے گا اور اسے عالمی معیار کی ایئرلائن بنایا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ حج، عمرہ اور اوورسیز پاکستانیوں کی بڑی مارکیٹ موجود ہے جسے پی آئی اے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

پی آئی اے کی نجکاری
BBC

سوشل میڈیا پر ردعمل: ’صرف پاکستان میں ہی ایسا ممکن ہے، زیادہ بیچ کر کم حاصل کرنا‘

پی آئی اے کی نجکاری کے عمل پر سوشل میڈیا پر بھی بحث کا سلسلہ جاری ہے۔ تجزیہ کار مشرف زیدی نے ایکس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’آہنی عزم کتنا فرق ڈال سکتا ہے۔ 31 اکتوبر 2024 کو پی آئی اے کے لیے سب سے بڑی بولی 10 ارب روپے تھی جبکہ حکومت نے کم از کم معیار 85 ارب روپے مقرر کیا تھا۔‘

اُن کے اس بیان پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما حماد اظہر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ شاید مشرف زیدی کو اس ڈیل کی تفصیلات کا درست اندازہ نہیں۔ اُن کے مطابق حکومت پی آئی اے کی فروخت سے حاصل ہونے والی زیادہ تر رقم دوبارہ اسی ادارے میں لگائے گی، اس لیے خریداروں کو اپنی ادائیگی واپس مل جائے گی۔

حماد اظہر نے کہا کہ اصل نیٹ ادائیگی اب بھی 10 ارب روپے ہی ہے۔

تاہم انھوں نے کہا کہ وہ اس عمل کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ پاکستان کو پی آئی اے کو دوبارہ فضاؤں میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

صحافی اور تجزیہ کار خرم حسین نے کہا کہ حکومت نے پی آئی اے کو 10 ارب روپے میں فروخت کیا ہے، وہی قیمت جو گذشتہ سال بلیو ورلڈ نے 60 فیصد حصص کے لیے پیش کی تھی، جبکہ اس بار 75 فیصد حصص دیے گئے ہیں۔

اُن کے مطابق باقی 125 ارب روپے خریدار کی جانب سے آئندہ پانچ برسوں میں سرمایہ کاری کا وعدہ ہے تاکہ ایئرلائن کو بہتر بنایا جا سکے۔

صحافی سرل المیدہ نے اس پر طنزیہ تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’صرف پاکستان میں ہی ایسا ممکن ہے، زیادہ بیچ کر کم حاصل کرنا۔‘

خیبر پختونخوا کے سابق وزیر خزانہ اور پی ٹی آئی رہنما تیمور سلیم جھگڑا نے تبصرہ کیا کہ ’حکومت پی آئی اے کی نجکاری کو ایک بڑی کامیابی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرے گی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ عمل کئی برس تاخیر کا شکار رہا، غیر ملکی سرمایہ کاروں کی کوئی دلچسپی سامنے نہیں آئی، اور خریداری کی رقم دوبارہ پی آئی اے میں ہی لگائی جائے گی۔‘

اُن کے مطابق ’اس کا مطلب یہ ہے کہ 75 فیصد حصص صرف 10 ارب روپے میں فروخت ہوئے ہیں۔ باقی سرمایہ کاری تو ویسے بھی کسی بھی خریدار کو کرنی پڑتی۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US