جینی ایونز نے کیسے اپنے غصے کو صحافی بننے اور سچائی سے پردہ اٹھانے کی تربیت میں بدل دیا۔

انتباہ: اس خبر میں جنسی حملے اور ہراسانی سے متعلق پریشان کُن معلومات شامل ہیں۔
جینی ایونز کے لیے یہ ایک مشکل فیصلہ تھا کہ وہ ایک مشہور شخصیت کی جانب سے اُن پر کیے جانے والے جنسی حملے کی اطلاع پولیس کو دیں۔
سوچ و بچار کے بعد انھوں نے یہ مشکل فیصلہ لینے کا فیصلہ کیا اور پولیس کو تمام تر تفصیلات فراہم کر دیں، مگر اُس وقت اُن کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اُن کی جانب سے پولیس کو فراہم کی گئی خفیہ معلومات حرف با حرف ایک اخبار میں شائع ہو گئیں۔
جینی اُس وقت صرف 19 سال کی تھیں اور اخبار میں یہ خبر دیکھ کر اُن پر سکتہ طاری ہو گیا۔ اُن کے دماغ میں پہلی سوچ یہ آئی کہ شاید اُن کے کسی قریبی دوست نے، جو اس پورے واقعے کا علم رکھتا تھا، انھیں دھوکہ دیا ہے اور یہ معلومات پریس کو لیک کر دی ہیں یا پھر یہ کہ اُن کی جاسوسی کی جا رہی ہے۔
اس پورے معاملے پر غصہ یا بیزاری کا اظہار کرنے کے بجائے جینی نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک تربیت یافتہ صحافی بن کر خود سچ کو سامنے لائیں۔
اور بعد ازاں یہ جانے بغیر کہ اس پورے معاملے کے تانے بانے کسی بدعنوانی کے سکینڈل سے ملتے ہیں انھوں نے برطانوی پولیس اور پریس کے چند طاقتور افراد کو بے نقاب کر دیا۔
جینی برطانیہ میں مونماؤتھ شائر کے علاقے میں پلی بڑھیں اور انھوں نے ابتدا میں اداکاری کی تعلیم حاصل کی۔
18 سال کی عمر میں انھیں پہلی بار ایک کامیڈی فلم میں کاسٹ کیاگیا اور سنہ 1997 میں وہ لندن میں ایک پروڈکشن ٹیم کے ساتھ موجود تھیں۔
18 سال کی عمر میں جینی کو کامیڈی فلم میں کاسٹ کیا گیاجینی اب 40 سال کی ہیں اور ایک پوڈ کاسٹ میں انھوں نے بتایا کہ وہ ایک مشہور شخصیت کے ساتھ تھیں، جن کا تعلق فلم انڈسٹری سے نہیں تھا۔
رات میں وہ مشہور شخص اور کچھ دیگر دوست ایک ساتھ تھے۔ جینی نے ٹیکسی منگوانے کے لیے ان لوگوں سے فون مانگا لیکن انھوں نے منع کر دیا۔
وہ کہتی ہیں کہ اس موقع پر مشہور شخصیت نے ’اپنا ہاتھ میرے سینے پر رکھ دیا اور اِتنا زور دیا کہ میرے پیر لڑکھڑانے لگے اور پھر اُس کے دوست اور وہ خود میرے پر چھپٹا اور مجھ پر جنسی حملہ کیا گیا۔‘
یہ سب کرنے کے بعد اُس مشہور شخص کے دوست نے فون کر کے ٹیکسی بلوائی اور مجھے اس میں بٹھا دیا گیا۔
انھوں نے بتایا کہ جب وہ ٹیکسی میں بیٹھیں تو وہ کانپ رہی تھیں اور ٹیکسی کے ڈرائیور نے صورتحال بھانپتے ہوئے کہا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ تمھارا ریپ ہوا ہے، کیا میں تمھیں پولیس سٹیشن لے چلوؤں۔ مگر میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔‘
جینی کہتی ہیں کہ وہ اس لمحے پولیس کے پاس جانے کا سُن کر ’بہت خوفزدہ اور حیران تھیں۔‘ یہ ایک ایسا احساس تھا جو طویل عرصے تک اُن کے ساتھ رہا۔
جینی نے اُس وقت اپنی والدہ اور بھائی کو اس واقعے کے بارے میں بتایا اور اپنی ایک دوست کو خط بھی لکھا۔
اس واقعے کے بعد انھوں نے ایک بار پھر کوشش کی کہ وہ ’اپنی زندگی دوبارہ جی سکیں۔‘
وہ سینٹرل سکول آف سپیچ اینڈ ڈرامہ میں زیر تعلیم تھیں اور ایک رات جب وہ دوستوں کے ساتھ ڈانس کر رہی تھیں تو اُن کا ایک دوست آیا اور اُس نے اخبار ’دی سن‘ کا شام کا ایڈیشن میز پر رکھ دیا۔
اخبار میں لکھا تھا کہ وہ مشہور شخص، جس نے اُن پر جنسی حملہ کیا تھا، کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اُس شخص کے خلاف دیگر خواتین نے بھی الزامات عائد کیے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ ’یہ وہ پہلا لمحہ تھا جب مجھے یہ محسوس ہوا کہ میں نے خود کو کسی مشکل صورتحال میں نہیں ڈالا۔‘
انھیں احساس ہوا کہ اخلاقی طور پر انھیں واقعے کے بارے میں پولیس اطلاع دینی چاہیے، لیکن زیادہ تر متاثرہ افراد اپنے استحصال کے بارے میں ’رپورٹ کرنا یا کبھی بات نہیں کرنا چاہتے۔‘
اس مشہور شخص کو رپورٹ کرنے کے بعد پولیس نے دو بار جینی کا انٹرویو کیا اور پھر، چار دن بعد، اُن کے بوائے فرینڈ نے ایک ٹیبلوئیڈ میں چھپی خبر پڑھتے ہوئے اُن کی طرف دیکھا، ایسے جیسا کہ وہ جانتا ہو کہ کچھ ہوا ہے۔
اخبار میں اگرچہ جینی کا نام نہیں دیا گیا تھا لیکن وہ خفیہ رپورٹ موجود تھی جو اب سے کچھ دن پہلے جینی کی طرف سے تھانے میں دی گئی تھی۔
جینی نے کہا کہ ’یہ بہت خوفناک تھا۔‘
جینی ایوینز کا کہنا ہے کہ اس بارے میں بات کرنے کا مقصد خواتین میں جنسی حملوں کے بارے میں آگاہ کرنا ہےجینی نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اُن کی خبر کس نے اخبار کو فروخت کی ہے۔
جینی نے پولیس کے تفتیشی آفسر کو اس معاملے کے بارے میں آگاہ کیا، تفتیشی افسر نے جینی کو کہا کہ میں آپ کو پتہ لگا کر بتاتا ہوں، لیکن اُس نے کچھ نہ کیا۔
اخبار میں اُن کا کیس چھپنے سے وہ ذہنی اضطراب کا شکار ہو گئیں۔ انھوں نے اپنے گھر میں ریکارڈنگ ڈیوائس تلاش کرنا شروع کر دیں، کھڑکیوں پر پردے ڈال دیے، خاندان اور دوستوں کے فونز بھی چیک کیے تاکہ یہ پتا چلایا جا سکے کہ کہیں ان کے اہلخانہ یا دوستوں نے تو اخبار کو یہ خبر لیک نہیں کی۔
اس کے بعد پولیس نے انھیں بتایا کہ اُن کی شکایت کو ثابت کرنے کے لیے پولیس کے پاس کافی ثبوت موجود ہیں جن کی بنیاد پر جنسی استحصال کا الزام ثابت ہو سکتا ہے۔
یہ وہ وقت تھا جب وہ مشہور شخص یہ دعوے کر رہا تھا کہ ’اُن پر الزام لگانے کا مقصد انھیں بدنام کرنا اور اُن سے پیسے لینا ہے۔‘
جینی نے اپنے اس تجربے پر ایک کتاب بھی لکھی ہےاس کیس میں عدالتی سماعت سے پہلے جینی کی دوست نے انھیں وہ خط لوٹایا جو جینی نے جنسی استحصال کے بعد انھیں لکھا تھا۔ اُن کا خیال تھا کہ جینی کے مقدمے میں یہ خط ایک ثبوت کے طور پر پیش ہو سکتا ہے۔
لیکن چونکہ جینی نے اپنے ساتھ ہونے والے جنسی تشدد کے متعدد واقعات کو تفصیل سے بیان کیا تھا، اس لیے پولیس نے سوچا کہ وہ اُن مشہور شخص کوبدنام کر رہی ہیں۔
جینی کے مطابق جنسی حملوں کا کوئی بھی مقدمہ جیتنا مشکل ہوتا ہے، اگر آپ الزامات تواتر سے لگاتے ہیں یا متعدد بار لگاتے ہیں تو وکیل دفاع یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’آپ کچھ مانگ رہے ہیں یا آپ نے کہانی بنائی ہے۔‘
وہ خط پر جرح نہیں کرنا چاہتی تھی، اس لیے اُن کے الزامات کو خارج کر دیا گیا۔
اسی دوران اخبار ’نیوز آف دی ورلڈ‘ نے کیس کی خفیہ تفصیلات کے ساتھ ایک اور مضمون شائع کیا۔ جینی نے کہا کہ اس بار اُن کا خوف غصے میں بدل گیا اور سچ جاننے کے لیے انھوں نے بطورِ صحافی کام کرنے کی ٹھانی۔
کئی سال گزر جانے کے بعد تحقیقاتی صحافی نک ڈیوس نے فون ہیکنگ کے معاملے پر ایک آرٹیکل شائع کیا اور بتایا کہ کسی کے وائس میل تک رسائی حاصل کرنا غیر قانونی ہے۔ اسی دوران سنہ 2007 میں ایک اخبار کے نامہ نگار کلائیو گڈمین اور ایک تفتیشی آفسر گلین مولکری کو فون ہیک کرنے کے الزام میں سزا ہوئی لیکن تحقیقاتی صحافی نک ڈیوس کا ماننا تھا کہ معاملہ اور زیادہ سنگین ہے۔
نیک نے جینی کو مشورہ دیا کہ وہ ماضی اور حال میں شائع ہونے والی ایسی خبروں کو تلاش کریں جس میں غیر اخلاقی ذرائع استعمال کر کے معلومات جمع کر کے خبریں شائع کی گئی ہوں۔
انھوں نے جینی سے کہا کہ وہ اُن لوگوں کو تلاش کریں جن کے فون ہیک ہوئے ہیں۔
اخبار ’دی نیوز آف دی ورلڈ‘ لوگوں کے فون ہیک کرنے میں ملوث تھا اور اس اخبار کو 2011 میں بند کر دیا گیا تھااسی تلاش کے دوران تفتیشی آفسر گلین کی ایک ڈائری میں جینی کو اپنا نام ملا مگر اس کے آگے جو فون نمبر درج تھا وہ غلط تھا۔ جس سے جینی کو پتہ چلا کہ اس طریقے سے اُن کی سٹوری لیک نہیں ہوئی ہے۔
اخبار ’دی نیوز آف دی ورلڈ‘ سنہ 2011 میں اس وقت بند ہوا جب یہ خبر سامنے آئی کہ جرائم کا سامنے کرنے والے افراد، مشہور شخصیات اور سیاست دانوں کے فون ہیک ہوئے ہیں۔
جینی نے کہا کہ ’میں بہت جذباتی محسوس کر رہی تھی۔‘
میٹ پولیس میں پائی جانی والی بے ضابطگیوں کی وجہ جینی کا کیس کبھی بھی حل نہیں ہوا، لیکن تصفیہ کے طور پر انھیں ہزاروں پاؤنڈ ہرجانہ ملا۔
میٹ پولیس سے اُن کا موقف جاننے کی کوشش کی گئی لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔
جینی کا کہنا ہے کہ اب وہ چاہتی ہے تمام افراد ’خاص طور پر خواتین‘ یہ جان لیں کہ جب آپ ’محروم اور بے اختیار محسوس کرتے ہیں، تو سوال پوچھنا سیکھنے میں حقیقی طاقت پوشیدہ ہے۔‘