ٹک ٹاک کے شوقین افراد کے لیے بری خبر، ٹک ٹاک کے ساتھ کیا ہونے جارہا ہے؟

image

درخواست کے مطابق مبہم پرائیویسی پالیسیوں کے نتیجے میں یہ خدشہ ابھرتا ہے کہ ٹک ٹاک کو امریکا میں صارفین کو شناخت کرنے، پروفائل بنانے اور ٹریک کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے جبکہ کمپنی کو اس مبینہ سرگرمی سے اس لیے فائدہ ہوگا کیونکہ وہ ڈیٹا کو ٹارگٹڈ اشتہارات کے لیے فروخت کرسکے گی۔

مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ٹک ٹاک کی ہلکی پھلکی تفریح کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑسکتی ہے۔

یہ الزامات اس وقت سامنے آئے ہیں جب امریکا میں ٹک ٹاک کے حوالے سے کافی اقدامات کیے جارہے ہیں اور امریکی حکومت پہلے ہی اس ایپ کے حوالے سے جائزہ لے رہی ہے کہ یہ سیکیورٹی کے لیے خطرہ تو نہیں بن سکتی۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ مقدمہ کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والی ایک طالبہ نے دائر کیا ہے۔

مقدمے کے مطابق ٹک ٹاک ویڈیوز میں اکثر لوگوں کے چہرے بہت قریب سے دکھائے جاتے ہیں، جس سے کمپنی کو اپنے صارفین کے بایومیٹرک ڈیٹا کو جمع کرنے کا موقع ملتا ہے۔

مقدمے میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ایک بار جب صارف ایک ویڈیو بناکر نیکسٹ کا بٹن دباتا ہے، یہ ویڈیوز اس کے علم میں لائے بغیر متعدد ڈومین میں منتقل ہوجاتی ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب صارفین نے ویڈیو کو پوسٹ یا سیو بھی نہیں کیا ہوتا۔

درخواست کے مطابق اس طالبہ نے مارچ یا اپریل 2019 میں ٹک ٹاک کو ڈاﺅن لوڈ کیا تھا مگر اپنا اکاﺅنٹ نہیں بنایا تھا مگر کئی ماہ بعد انہوں نے دریافت کیا کہ ٹک ٹاک نے ان کا ایک اکاؤنٹ بنارکھا ہے۔

انہوں نے ٹک ٹاک میں 5 یا 6 ویڈیوز تیار کیں مگر انہیں سیو یا پوسٹ نہیں کیا لیکن پھر بھی ٹک ٹاک نے ان ویڈیوز اور طالبہ کا ڈیٹا معلومات میں لائے بغیر جمع کیا اور چین میں موجود سرورز میں بھج دیا۔

مقدے میں مزید کہا گیا کہ ٹک ٹاک کی جانب سے کئی طرح کا ڈیٹا اکٹھا کیا جاتا ہے جیسے فون اور سوشل نیٹ ورک کانٹیکٹس، ای میل ایڈریسز، آئی پی ایڈریس، لوکیشن اور دیگر معلومات یہاں تک کہ صارف کی جانب سے ایپ کو بند کیے جانے پر بھی ایپلی کیشن بدستور بایومیٹرک اور صارف ڈیٹا اکٹھا کرتی رہتی ہے۔


About the Author:

مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.