چونکہ میں یہیں پر پلی بڑھی تھی اس لیے میں صرف چینی نہیں، پاکستانی بھی ہوں، مجھے لفظ کورونا وائرس سے پکارا جائے گا یہ میں نے۔۔۔

image

نسلی امتیاز ہمیشہ سے ہی مختلف قوموں میں دیکھا گیا ہے، ہم اگر اسے دماغی کمزوری کہیں تو بے شک یہ غلط نہ ہوگا۔

آج ہم آپ کو ایک ایسی خاتون کی کہانی بتائیں گے جن کی پیدائش پاکستان میں ہوئی، جنہوں نے تعلیم پاکستان میں حاصل کی لیکن چونکہ ان کے والدین کا تعلق چین سے تھا اِسی لئے انہیں بھی چینی ہی کہا جائے گا۔

بقول وکی ژوانگ یئن (چینی خاتون) کے، ان کے والدین نے 1980 کی دہائی میں بہتر زندگی کی تلاش میں پاکستان ہجرت کی۔

ان کا کہنا ہے کہ میں پاکستان میں پلی بڑھی، اس لیے فطری طور پر پاکستانی طرزِ زندگی سے آشنائی ہوگئی اور اس کے ساتھ ساتھ گھر پر میں اپنی چینی ثقافت سے بھی جڑی رہی۔ میں دونوں ثقافتوں کے لذیذ کھانوں سے محظوظ ہوئی، میں دونوں خطوں کی مقامی زبانیں بولتی اور سمجھتی ہوں اور میں دونوں ثقافتوں کے تہواروں کو بھی مناتی ہوں۔


چینی خاتون کا کہنا تھا کہ سچ یہ ہے کہ جب چین میں کورونا وائرس کی وبائی پھوٹ کی خبریں میڈیا میں عام ہونے لگیں تو میں اسی وقت سمجھ گئی تھی کہ اب نسلی امتیاز کے واقعات میری روزمرہ زندگی کا حصہ بن جائیں گے۔ جلد ہی میرے جیسے لوگوں کو بیان کرنے کے لیے ایک نیا تحقیر آمیز لفظ استعمال کیا جائے گا اور وہ ہوگا کورونا وائرس۔


انہوں نے بتایا ابھی کچھ دن قبل مقامی شاپنگ مال میں پاکستان میں ہی پیدا ہونے والی اپنی چینی دوست کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھی کہ ایک گروہ ہمارے پاس سے گزرا اور اتنی بلند بڑبڑاتی آواز میں کورونا کہا کہ ہمیں یہ لفظ صاف سنائی دیا۔ چند لمحوں بعد مردوں کا ایک گروہ ہمارے پاس سے گزرا جس میں سے کسی نے کہا کہ چینی کورونا وائرس لے آئے ہیں۔ تھوڑی ہی دیر گزری ہوگی کہ ایک تیسرا گروہ قریب سے گزرا جس نے ہماری طرف دیکھ کر تحقیر آمیز لہجے میں کورونا کا لفظ ادا کیا۔

اگرچہ اب میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا مگر چونکہ میں یہ جانتی تھی کہ میں ان لوگوں سے لڑ نہیں سکوں گی (میرا قد کاٹھ چھوٹا ہے بھئی) اس لیے جو میرے بس میں تھا میں نے کیا، مطلب یہ کہ میں نے زوردار چھینک ماردی۔

اسی طرح ایک دن جب میں اکیلی بینک کی طرف جا رہی تھی تب طلبہ کا ایک گروہ میری طرف متوجہ ہوا اور زوردار آواز میں چلّایا کورونا وائرس۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا لیکن مجھے یہ پتا نہ چل سکا کہ ان میں سے کون سا لڑکا چیخا تھا۔ اب آپ سوچیں گے کہ یہ تو بچے ہیں اور بچوں کا بھلا کیا بُرا ماننا، لیکن میں آپ کو بتادوں کہ ایسی باتیں تکلیف دیتی ہیں۔

میں اور میری چینی دوست ہم دونوں میں سے کوئی بھی حالیہ برسوں میں چین نہیں گیا ہے، بلکہ میں تو آخری بار اس وقت چین گئی تھی جب میری عمر 8 برس تھی، اور آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ یہ کتنا طویل وقت ہے۔

۔


اس دن مجھے اس بات کا اندازہ ہوا کہ لوگ چند قہقہوں کے لیے بے حسی کا رویہ اپنانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ مگر ہمیں ہر چیز میں ہنسی مذاق کا بہانہ نہیں ڈھونڈنا چاہیے۔ مجھے اس عالمی وبا کے ذریعے ہمدردی اور برداشت کے بارے میں بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے۔


About the Author:

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.