دریائے سوات کی بپھری لہروں سے ایک شخص کو زندہ بچانے والے محمد ہلال کون ہیں؟

image
’جب میں اس مقام پر پہنچا تو ایک شخص اور کتا وہاں ڈوبنے کے قریب تھے۔ پانی گردن تک آ چکا تھا۔ اس شخص نے مجھ دیکھ کر کہا یہ کوئی معجزہ تو نہیں؟‘ یہ کہنا ہے محمد ہلال کا جنہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت دریائے سوات میں ایک شخص اور کتے کو ڈوبنے سے بچایا۔

صوبہ خیبر پختونخوا کا سیاحتی مقام سوات اپنی قدرتی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ دریائے سوات کی بدولت بھی مشہور ہے، لیکن یہ خوبصورت دریا بعض اوقات اپنی تیزی اور طغیانی سے انسانی جانوں کے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔ گذشتہ روز 27 جون کو موسلادھار بارشوں کے بعد دریائے سوات میں طغیانی کے باعث 17 سیاح سیلابی ریلے کی نذر ہو گئے۔

ریسکیو سوات کے ترجمان کے مطابق ان میں سے 11 افراد کی لاشیں نکال لی گئیں ہیں۔ 11 افراد میں سے نو کا تعلق صوبہ پنجاب کے علاقے سیالکوٹ سے ہے جبکہ دو کا تعلق مردان سے ہے۔

ریسکیو کے مطابق مزید دو لاپتہ افراد کو نکالنے کے لیے سرچ آپریشن جاری ہے جبکہ چار افراد کو زندہ ریسکیو کیا جا چکا ہے۔

ریسکیو 1122 کے ڈائریکٹر جنرل شاہ فہد نے سنیچر کو ایک بیان میں کہا کہ ’سرچ آپریشن گذشتہ 24 گھنٹوں سے جاری ہے۔ سوات کے مختلف علاقوں خوازہ خیلہ، کبل بائی پاس اور بری کوٹ میں لاپتہ افراد کی تلاش کے لیے ہماری ٹیمیں مصروف عمل ہیں۔ 120 سے زائد اہلکار امدادی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں جن میں سوات، ملاکنڈ اور شانگلہ سے تعلق رکھنے والے رضاکار شامل ہیں۔‘

اس تباہ کن صورتحال کے دوران ریسکیو 1122 کی ٹیمیں اور مقامی رضاکار امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ اور انہی رضاکاروں میں سے ایک محمد ہلال ہیں جو اپنے خاندان کے ساتھ گذشتہ 35 برسوں سے دریا میں ڈوبنے والوں کی جانیں بچا رہے ہیں۔

محمد ہلال کو مقامی سطح پر ’دریائے سوات کا محافظ‘ مانا جاتا ہے۔ وہ علیگرام تحصیل کبل، سوات کے رہائشی ہیں۔ انہوں نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا ’گذشتہ 35 سال سے ہم دریا میں ڈوبنے والوں کی جانیں بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ کام ہمارے والد دل فروش نے فی سبیل اللہ شروع کیا تھا۔ ہم نہ صرف جانیں بچاتے ہیں بلکہ اگر کوئی خدانخواستہ ڈوب کر جان سے چلا جائے تو اس کے لیے کفن اور تابوت بھی فراہم کرتے ہیں۔‘

’والد نے کم عمری میں ہی پانی میں اتارا‘محمد ہلال کا کہنا تھا کہ وہ آٹھ بھائی ہیں اور سب اسی مشن کا حصہ ہیں۔ ہم سب نے پانی میں ریسکیو کا ہنر سیکھا ہے۔ ایمرجنسی میں جو بھائی بھی موجود ہوتا ہے فوراً پہنچ جاتا ہے۔ عموماً تین سے چار بھائی مل کر یہ کام بلا تعطل انجام دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’ان کا کوئی ادارہ یا تنظیم نہیں ہے، نہ ہی وہ کسی ریسکیو آپریشن کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ ہم صرف اپنی استطاعت کے مطابق یہ خدمت سرانجام دیتے ہیں۔ یہ ہمارا جذبہ ہے اور اسی جذبے کے تحت ہم کام کرتے ہیں۔‘

دریا میں لوگوں کو ریسکیو کرنے کے ہنر سے متعلق محمد ہلال نے کہا کہ انہوں نے یہ ہنر اپنے والد سے سیکھا ہے۔ ’جب میں 10 سے 12 برس کا تھا تو میرے والد نے مجھے پانی میں اتارا اور تب سے میں سیکھتا چلا آ رہا ہوں۔ یعنی کم عمری میں ہی یہ کام شروع کیا۔ پانی میں جانا اور ریسکیو کرنا مشکل ضرور ہے لیکن جب آپ پانی میں چھلانگ لگاتے ہیں تو بہادری خود بخود آ جاتی ہے۔‘

اپنے والد کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ وہ ایک حادثے کی وجہ سے بیمار ہیں اور اب فعال نہیں ہیں، لیکن ان کے مشن کو ان کے بیٹوں نے جاری رکھا ہوا ہے۔

محمد ہلال کے پاس ان کے آٹھ بھائیوں کے علاوہ کوئی ٹیم نہیں ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ کام خطرناک ہے اور وہ کسی اور کی جان خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے۔

’ہم آٹھ بھائی ہیں، ہمیں اپنی جان کی پرواہ نہیں ہوتی لیکن یہ کام خطرناک ہے اور ہم کسی اور کی جان خطرے میں ڈالنا نہیں چاہتے، اس لیے کوئی باقاعدہ ٹیم نہیں رکھی۔‘

یہ اس طرح رضاکارانہ ریسکیو آپریشنز کے اخراجات بھی خود برداشت کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ان کے پاس اپنی گاڑی ہے اور جب بھی ایسی صورت حال ہو تو یہ سفری اخراجات بھی خود برداشت کرتے ہیں۔

’ہمارے پاس اپنی گاڑی ہے اور سفر کا خرچہ بھی خود اٹھاتے ہیں۔ ہم کسی انعام یا نوکری کے طلبگار نہیں۔ نہ ہی ہم نے کبھی اس کام کے بدلے اپنے یا اپنے بچوں کے لیے کوئی سرکاری نوکری مانگی اور نہ مانگنا چاہتے ہیں۔‘

محمد ہلال نے ایک شخص اور کتے کی جان کیسے بچائی؟دریائے سوات میں حالیہ واقعے میں انہوں نے ریسکیو 1122 سوات کے ساتھ تعاون کیا اور لوگوں کی جان بچائی۔ اس حوالے سے ریسکیو 1122 سوات کے ترجمان وقار احمد نے محمد ہلال کی خدمات کو تسلیم کرتے ہوئے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہمارے ساتھ مقامی رضاکار عموماً رضاکارانہ طور پر تعاون کرتے ہیں جو کہ ایک خوش آئند عمل ہے۔ محمد ہلال نے بروقت ایک شخص کی جان بچائی جس کی ہم تصدیق کرتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’میں نے خود صبح سویرے ہلال کو بلایا تاکہ وہ اس آپریشن میں ہمارا ساتھ دے۔ ہم ایسے لوگوں کی قدر کرتے ہیں جو اس نیک کام میں حصہ ڈالتے ہیں۔‘

محمد ہلال نے اپنی مدد آپ کے تحت وسائل جمع کیے ہیں۔ انہوں نے خود جال بنائے ہیں اور ٹریکٹر کے ٹائروں سے ٹیوب نکال کر ان سے کشتیاں تیار کیں اور ہاتھ سے چپو بنائے۔ دریائے سوات میں لوگوں کی جان بچانے کے حوالے سے محمد ہلال بتاتے ہیں کہ ترجمان ریسکیو سوات وقار احمد ان کے پڑوس میں رہتے ہیں جنہوں نے صبح سویرے انہیں اطلاع دی۔

ان کے مطابق ’مجھے صبح سویرے وقار نے آواز دی، میں باہر آیا تو وقار نہیں تھا۔ اس وقت میں دریائے سوات سے آیا تھا لیکن حالات کی اس قدر شدت کا اندازہ نہیں تھا۔ میں اور میرا بھائی دریائے سوات کی طرف روانہ ہوئے۔ لیکن جب مینگورہ پل کے قریب پہنچے تو اطلاع ملی کہ لوگ ڈوب چکے ہیں۔‘

’ہم فوری وہاں پہنچے تو وہاں موجود لوگوں نے بتایا کہ سامنے ایک چھتر کے نیچے دو افراد ڈوب رہے ہیں۔ میں نے اپنے بھائی کے ساتھ مل کر فوراً کشتی پانی میں ڈالی اور وہاں پہنچا۔ اس چھتر کے نیچے ایک شخص اور کتا ڈوبنے کے قریب تھے۔ اس شخص نے مجھے دیکھ کر کہ میں تو موت کا انتظار کر رہا تھا کیا یہ کوئی معجزہ تو نہیں ہے؟‘

انہوں نے بتایا کہ ’دریا کا پانی ان کی گردن تک پہنچ چکا تھا، اور انہوں نے کتے اور اس شخص کو وہاں سے ریسکیو کرتے ہوئے کنارے پر پہنچایا۔ یہ وہ مقام تھا جہاں دریا کے بیچ ایک کرکٹ گراؤنڈ بنایا گیا تھا۔‘

’مجھے نہیں معلوم اس شخص کا تعلق کہاں سے تھا اور اس کا نام کیا تھا، کیونکہ ہم نے کبھی کسی سے نام، نسل یا قوم نہیں پوچھی۔ سنہ 2022 کے سیلاب میں ہم نے 24 لوگوں کو بچایا تھا۔ ہم یہ کام اس لیے نہیں کرتے کہ اس کی تشہیر کی جائے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ اس سانحے نے ایک بار پھر سیاحتی مقامات پر حفاظتی اقدامات کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔

محمد ہلال نے تجویز دی کہ ’دریا کے کنارے ہوٹلوں پر واضح طور پر لکھا جائے کہ پانی میں جانا ممنوع ہے۔ اس کے علاوہ سکیورٹی گارڈ یا پروفیشنل کی نگرانی میں لوگوں کو پانی میں جانے کی اجازت دی جانی چاہیے تاکہ حادثات سے بچا جا سکے۔

 


News Source   News Source Text

پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.