میرے اصلی والدین مجھے کوڑے میں پھینک کر چلے گئے تھے، مگر آج میں کروڑ پتی ہوں ۔۔۔ جانیئے لاوارث لڑکے کی کروڑ پتی بننے کی کہانی

image

اولاد خُدا کی طرف سے نعمت ہے۔ چاہے سگی ہو یا گود لی ہوئی (لے پالک) ہو۔ کچھ لوگ زندگی بھر اولاد کے لئے ترستے رہ جاتے ہیں اور کچھ لوگ بچوں کو گود لے کر ان کی پرورش سگی اولاد سے بھی زیادہ کرتے ہیں جو کہ بعد میں ان کے لئے فخر کا باعث بنتی ہے۔ ایسی ہی ایک کہانی ہم آپ کو بتانے جا رہے ہیں جس کو جان کر شاید آپ کا دل بھی لاوارث بچوں کو دیکھ کر پگھل جائے گا۔

فریڈی فیگرز کی کہانی:

٭ فریڈی فیگرز امریکی ریاست فلوریڈا میں پیدا ہوئے جہاں ان کے حقیقی والدین کی جانب سے کچرے کے ڈھیر کے قریب چھوڑ دیا گیا اور یہ لاوارث بچہ کچرے کے ڈھیر کے پاس اکیلا تھا۔ مگر ایک شخص نیتھن جن کی عمر 74 سال اور ان کی خاتون بیٹی مے جن کی عمر 66 سال تھی، انہوں نے اس بچے کو روتا ہوا دیکھا تو رہا نہ گیا اور بچے کو گود لے لیا۔

٭ بی بی سی آؤٹ لُک کو انٹرویوی دیتے ہوئے فریڈی کہتے ہیں کہ: '' جب میں چھوٹا تھا، اسکول جایا کرتا تھا تو سب بچے میرا مزاق اُڑاتے، مجھے کچرے والا بچہ، کچرا دان، کچرے سے اٹھائی ہوئی گندگی جیسے کلمات سے پکارتے تھے، میں بہت روتا تھا، میرے لے پالک والد جو کہ میری جنت ہیں انہوں نے ہمیشہ مجھے کہا کہ بُرا نہ مانو، ہمیں تم سے محبت ہے اور تم ہماری اولاد ہو، اس سے بڑھ کر ہمارے لئے کچھ نہیں ہے۔ انسان خراب نہیں ہوتا، جس کے دل میں کچرا ہو ، بس اس کو سب کچھ کچرا لگتا ہے۔ اس لئے دل چھوٹا نہ کرو۔''

٭ میری والدہ کھیتوں میں کام کرتی تھیں، ان کے اپنے بچے بھی تھے لیکن مجھے بھی گود لے لیا تھا، والدین نے مجھے اتنی محبت اور محنت کے ساتھ پالا کہ میں آخری دم تک ان کا شکر گزار رہوں گا۔

٭ مجھے بچپن سے ہی مختلف مشینری کے کام کرنے میں مزہ آتا تھا اور اچھا لگتا تھا، ایک روز میرے والد نے میرے شوق کو دیکھتے ہوئے ایک پرانا کمپیوٹر خرید کر گھر لے آئے، اس روز سے مجھے بچوں کے تعنوں کی فکر نہ رہی اور میں بس اسکول میں یہ سوچتا تھا کہ گھر جا کر کمپیوٹر پر کھیلوں گا۔

٭ مگر کمپیوٹر چونکہ پرانا تھا اور خراب تھا جس کو میں نے خود اپنے والد کے سامان میں موجود چیزوں سے توڑ جوڑ کر صحیح کرلیا۔

٭ میں نے 50 مرتبہ اس کمپیوٹر کو صحیح کرنے کی کوشش کی مگر وہ ٹھیک نہ وہ سکا مگر پھر بھی میں نے ہمت نہ ہاری کیونکہ میرا دل کہتا تھا کہ جو کچھ ہے وہ یہ 24 ڈالر کا کمپیوٹر ہے اور مجھے خود کو ثابت کرنا ہے کہ میں کچرا نہیں ہوں۔

٭ مجھے بُرا لگتا تھا کہ مجھے سب لوگ کچرے کی پیداوار بولتے تھے، اور میرا کمپیوٹر بھی والد نے کچرے سے ہی خریدا تھا، تو مجھے اس بات پر زیادہ افسوس ہوتا تھا کہ لوگ کیا کہیں گے، کہ کچرے کا کمپیوٹر بھی کچرا ہے۔ اس لگن نے مجھے 50 مرتبہ ہارنے پر بھی کمزور نہ کیا اور پھر 51 مرتبہ جب میں نے کوشش کی تو کمپیوٹر بلکل صحیح ہوگیا۔

٭ اس کے بعد جب بھی اسکول کے کمپیوٹر بھی خراب ہوتے تو میں ہی ان کو صحیح کرتا اور یوں مجھے 11 سال کی عمر میں کمپیوٹر کوڈنگ خود بخود کرنی آگئی اور مجھے 12 سال کی عمر میں پہلی نوکری بھی مل گئی۔

* اس کے بعد کامیابیوں کا سلسلہ ایک کے بعد ایک میرا مقدر بناتا گیا۔ 21 سال کی عمر میں فریڈی کو ٹیلی کمیونیکیشن آپریٹر کا لائسنس مل چکا تھا۔ وہ سب سے کم عمر اور پہلے افریقی نژاد امریکی شہری تھے جسے یہ لائسنس ملا۔ فریڈی نے خود سے فائبر آپٹک کیبل لگانا شروع کی اور اپنے ٹیلی فون ٹاور بھی لگائے۔ ان کی کمپنی فیگرز کمیونیکیشن کی مالیت اب چھ کروڑ 20 لاکھ ڈالر ہے۔

٭ فریڈی کہتے ہیں کہ: '' میں نے ایک گلوکو میٹر بنایا جو تمام معلومات فون، ڈاکٹر، رشتہ دار اور انشورنس کمپنی تک پہنچاتا ہے۔ کسی غیر معمولی صورتحال میں یہ سب کو الرٹ بھیج دیتا ہے۔ تاکہ سب لوگ ایک دوسرے سے جُڑے رہیں۔

میری والدہ بیٹی مے اب بھی زندہ ہیں اور انہیں مجھ پر بہت فخر ہے حالانکہ وہ کبھی سمجھ نہیں پائیں کہ میں کمپیوٹرز کے ساتھ کیا کام کرتا ہوں۔۔۔ انھیں لگتا ہے کہ میں وی سی آر پر کام کرتا ہوں۔‘


About the Author:

عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts