بعض اوقات ہم ایسی ایسی چیزیں دیکھتے ہیں جنہیں پہچاننے میں ہمیں وقت لگ جاتا ہے کہ آیا یہ اس طرح کی ہے جیسے ہمیں نظر آ رہی ہے یا کچھ گڑبڑ ہے۔ آج ہم آپ کو کچھ ایسی ہی تین تصاویر دکھانے جا رہے ہیں جن کے پیچھے کوئی نہ کوئی کہانی ضرور پوشیدہ ہے۔
6 دہائیوں سے معمہ بنی تصویر
یہ تصویر 1964 میں لی گئی تھی جو کئی سال بعد بھی معمہ بنی ہوئی ہے۔ برطانیہ کے علاقے کارلایل کے ایک فائرمین نے اپنی بیٹی کی تصویر سیر کے دوران کھینچی تھی جبکہ یہ دنیا بھر میں ایک معمہ بن گئی تھی جس کی وجہ یقیناً کافی حیران کن ہے۔ یہ تصویر جم ٹیمپلٹین نے کھینچی تھی، جسے اسے سولوے اسپیس مین مسٹری کا نام بھی دیا گیا۔
جم ٹیمپلٹین کا اس متعلق کہنا تھا کہ ہم معمول کی تفریح کے لیے باہر گئے تھے اور ایک مقام کا انتخاب کیا، ہم بیٹھ گئے اور پھر میں نے اپنی بیٹی سے کہا کہ اب میں تمہاری اس نئے لباس میں کچھ تصویریں لیتا ہوں جبکہ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایسا کچھ ہوسکتا ہے۔
دراصل یہ معمہ تصویر میں بچی کے سر کے اوپر ایک سفید لباس اور ہیلمٹ پہنے کسی شخص کا ہے جس کے بارے میں فوٹوگرافر کا ماننا ہے کہ انہوں نے ایک اسپیس مین کی تصویر کھینچی لی تھی۔ تاہم جس جگہ وہ گئے تھے وہاں ان کی بیوی اینی اور ایک گاڑی میں بیٹھے 2 معمر افراد کے سوا کوئی اور نہیں تھا اور جم ٹیمپلٹین نے ہمیشہ یہی کہا کہ انہوں نے اس دن اس جگہ پر کسی اور کو نہیں دیکھا تھا۔
تصویر کھیچنے کے بعد بھی انہیں وہاں کچھ نظر نہیں آیا تھا بلکہ اس پراسرار شخص کی موجودگی کا انکشاف اس وقت ہوا جب تصویر کے پرنٹ نکلوائے گئے اور وہاں موجود شخص نے اس سفید لباس کی جانب توجہ دلائی، جس کے بعد جم ٹیمپلٹین کو احساس ہوا کہ وہ کوئی شخص یا کچھ اور بھی موجود تھا۔
اپنا ہاتھ کاٹ کر خود کو بچانے والا شخص
جی ہاں! دنیا میں ایک ایسا شخص بھی موجود ہے جس نے اپنی جان بچانے کی خاطر اپنے ہاتھ ہی کاٹ ڈالے۔ ایسا امریکہ سے تعلق رکھنے والے ایرون رالسٹن نے اس وقت کیا جب ان کی زندگی لگ بھگ ختم ہونے کے قریب پہنچ گئی تھی۔ اپریل 2003 میں امریکی ریاست یوٹاہ کے کینن لینڈ نیشنل پارک میں پہاڑیوں پر چڑھنے کے دوران ایک حادثے میں ایرون کا دایاں ہاتھ بھاری پتھروں میں پھنس گیا تھا۔ اس وقت ان کے پاس چند چاکلیٹ کے ٹکڑے، تھوڑا سا کھانا اور محض ایک لیٹر پانی تھا۔
ساڑھے 3 سو کلو گرام سے زیادہ وزنی چٹان نے اِن کے دائیں ہاتھ کا تقریباً قیمہ کر دیا تھا جبکہ ایرون شاک کی کیفت میں چلے گئے۔ 45 منٹ تک وہ تکلیف اور غصے سے چیختے چلاتے رہے اور پر انہیں احساس ہوا کہ پانی ہی واحد چیز ہے جو ان کو زندہ رکھ سکتی ہے۔ تاہم کچھ گھنٹوں بعد وہاں ڈچ سیاح آئے جنہوں نے انہیں طبی امداد فراہم کی۔ تاہم انہیں اپنا ہاتھ گنوانا پڑا ورنہ ان کی جان بھی نہ بچ پاتی۔
آسیب زدہ ٹرین
سوئیڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم کے شہریوں کیلئے دہائیوں پرانا ایک معمہ ہے، جہاں سلور پائلین (سلور ایرو) نامی ٹرین نے برسوں سے مقامی افراد میں اپنی دہشت بٹھائی ہوئی ہے۔
جی ہاں واقعی اسٹاک ہوم کے باسیوں کے لیے یہ ٹرین 'آسیب زدہ' ہے اور 'کسی اور ہی جگہ ٹیلی پورٹ' کر دیتی ہے۔ اس ٹرین کے بارے میں مشہور تھا کہ جب کوئی سلور ایرو پر سوار ہوتا ہے تو پھر کبھی باہر نہیں آ پاتا، اس لیے نہیں کیونکہ وہ مرجاتا ہے بلکہ یہ ٹرین وقت کے کسی چکر میں پھنس جاتی ہے اور وہی گھومتی رہتی ہے۔
کئی جگہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ ٹرین سال میں صرف ایک بار رکتی ہے، اس وقت تک تمام زندہ مسافر مردہ بن چکے ہوتے ہیں۔ اس روایت کے بارے میں کافی کچھ حقیقی ہے، یعنی ایک حقیقی ٹرین اور کبھی مکمل نہ ہونے والا اسٹیشن ہے۔
خیال رہے اس ٹرین کی ایک بوگی کو آج بھی اسٹاک ہوم پولیس اکیڈمی میں دیکھا جاسکتا ہے، جس کو زیر تربیت اہلکاروں کو میٹرو ٹرینوں میں جرائم کی تحقیقات کی تربیت دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔