ہم نے اپنا بچہ نہیں مارا، ہمیں ماں کیوں نہیں سمجھا جاتا؟ پیدائش کے نزدیک اولاد کھو دینے والی اذیت سے گزرتی خواتین کی دردناک باتیں جو آپ کو بھی رُلا دیں

image

خواتین کے دل میں قدرتی طور پر بچوں کے لئے زیادہ محبت اور زیادہ خیال ہوتا ہے شاید یہ ایک فطری محبت ہے کیونکہ جب کسی عورت کی اپنی اولاد ہوتی ہے تو وہ لمحات اس کے لئے زندگی بھر کے سب سے زیادہ انمول وقت ہوتا ہے اور جب پہلی مرتبہ اولاد کو گود میں لیں تو یہ جذبات ایک ماں سے بڑھ کر کوئی نہیں جان سکتا۔ صحت مند بچہ دیکھ کر ماں کو جتنی خوشی ہوتی ہے اتنا ہی دکھ ایک ماں کو اس وقت ہوتا ہے جب پیدائش کے بعد بچہ مر جائے جسمانی طور پر کمزور ماں اس وقت مجبور ہو جاتی ہے اپنے نصیب کے آگے اور پھر اس دوران ارد گرد کے لوگ کی باتیں جیتے جی ماں کو ختم کر دیتی ہیں۔

جن خواتین کے بچے پیدائش کے بعد مر جاتے ہیں ان کو دنیا قبول کیوں نہیں کرتی آخر کیوں ان ماؤں کو ماں نہیں سمجھا جاتا اور ان کو گھر کی کی تقریب میں شامل نہیں کیا جاتا، کیوں کسی کی گود بھرائی میں اس ماں کو شامل نہیں کیا جاتا جس کا بچہ قدرت کی طرف سے واپس لے لیا جاتا ہے کیا یہ سب مائیں اپنے لئے خود کرتی ہیں؟ کون سی ماں ایسی ہے جو اپنا بچہ خود مارے گی؟

بی بی سی کی ایک ویڈیو میں ایک مسلمان ماں اور ایک ہندو ماں سے اس حوالے سے بات کی گئی تو دونوں کے ملے جلے تاثرات تھے ان ماؤں نے یہی شکوہ کیا کہ کیوں اس وقت گھر والے ماں کو دلاسہ نہیں دیتے ان کو ماں کا درجہ کیوں نہیں دیتے کیوں ان کو یہ کہتے ہیں کہ بیٹا تم سے نہ ہوا پیدا اب بیٹی کی کوشش کرو، کیوں شوہر اس وقت میں بیوی کو ہمت نہیں دیتا؟

خاتون کہتی ہیں کہ میں اپنا بچہ کھونے کے 8 سال بعد کھل کر روئی کہ بس اب مجھے مت دو طعنے مت کہو باتیں میں بھی ایک ماں ہوں میں نے اپنے بچے کو خود سے جدا نہیں کیا وہیں ہندو ماں کہتی نظر آئی کہ میرے 2 جڑواں بچے ہوئے تھے وہ مجھ سے جدا ہوگئے کسی نے مجھے یہ نہیں کہا کہ تمہارا بڑا نقصان ہوا ہے، بلکہ مجھے کہا گیا کہ تم اس قابل نہیں تھی کہ اولاد ہو، یہ سب باتیں پاکستانی و ہندوستانی معاشرے میں کب تک عورتوں کی ماؤں کی تذلیل کی جائے گی؟ آخر ہم کب اتنے شعور والے ہو جائیں گے کہ اولاد کھو دینے والی ماؤں کو بھی ماں کہا جائے ان کے درد کا احساس کیا جائے۔


About the Author:

Humaira Aslam is dedicated content writer for news and featured content especially women related topics. She has strong academic background in Mass Communication from University of Karachi. She is imaginative, diligent, and well-versed in social topics and research.

سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts