ریاضی کے مشکل سوال بھی حل کرنے والی مصنوعی ذہانت جسے آپ کو اپنے ذہن کے متبادل کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہیے

یہ آپ کے لیے ریاضی کا ہوم ورک بھی کر دے گا، نوکری کے لیے انٹرویو میں پوچھے گئے سوالات کے بارے میں بھی جوابات دے دے گا۔ آپ کے تھیراپسٹ کا کام بھی کر دے گا۔ مصنوعی زہانت بظاہر آپ کے لیے چند ہی منٹوں میں سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہے۔
Sasha Luccioni holding a smartphone with a light blue top and her hair tied up.
BBC

یہ آپ کے لیے ریاضی کا ہوم ورک بھی کر دے گا، نوکری کے لیے انٹرویو میں پوچھے گئے سوالات کے بارے میں بھی جوابات دے دے گا۔ آپ کے تھیراپسٹ کا کام بھی کر دے گا۔ مصنوعی ذہانت بظاہر آپ کے لیے چند ہی منٹوں میں سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہے۔

ٹیکنالوجی بہت تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے اور متعدد آن لائن پلیٹ فارمز نئے اور جدید فیچرز کے ذریعے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

چیٹ جی پی ٹی تاریخ کی سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی ایپلیکیشن ہے۔ انٹرنیشنل اے آئی سیفٹی رپورٹ کے مطابق اس کے لانچ کے پانچ روز بعد 10 لاکھ افراد اسے استعمال کرنے لگے تھے، اور صرف دو ماہ میں یہ تعداد ایک کروڑ تک جا پہنچی تھی۔

مائیکروسافٹ جس نے سنہ 2023 میں اپنا اے آئی اسسٹنٹ ’کو پائلٹ‘ لانچ کیا تھا کا کہنا تھا کہ سنہ 2025 کے دوسرے کوارٹر تک مصنوعی ذہانت کے کاروبار سے ہونے والی آمدن 10 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائے گی۔ اس کا مزید کہنا تھا کہ اس نے اپنے ڈیٹا سینٹرز دنیا کے 60 ممالک اور خطوں تک پھیلا دیے ہیں۔

گوگل کی پیرنٹ کمپنی ایلفابیٹ کے چیف ایگزیکٹو سندر پچائی کے مطابق گوگل کے ’اے آئی اوورویوز‘ جو آپ کو اپنی کسی بھی گوگل سرچ کے بعد سکرین پر نظر آتے ہیں کو ہر ماہ 200 ممالک اور خطوں میں ایک اعشاریہ پانچ ارب صارفین استعمال کرتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ٹیکنالوجی میں ابھی مزید جدت بھی آنی ہے اور یہ ہماری زندگیوں کا ایک اہم حصہ بھی بننے والی ہے۔ اس لیے ہم نے مصنوعی ذہانت کے شعبے کی ایک ماہر سے پوچھا ہے کہ ہم اس سے کیسے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

کینیڈین کمپیوٹر سائنسدان ساشا لوسیونی ’ہگنگ فیس‘ نامی کمپنی سے منسلک ہیں جو اوپن سورس اے آئی ماڈلز کے ساتھ کام کر کے مصنوعی ذہانت کو عام لوگوں تک پہنچانا چاہتی ہے۔

انھوں نے بی بی سی 100 ویمن کو بتایا کہ ’میں منصوعی ذہانت کو انسانیت کی اچھائی اور برائی کو ابھارنے والے ایک ٹول کے طور پر دیکھتی ہوں لیکن ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہم کنٹرول میں رہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ یہ وہ چار سوال ہیں جو آپ کو مصنوعی ذہانت کو استعمال کرنے سے پہلے اپنے آپ سے پوچھنے چاہییں۔

Popular AI virtual assistant apps on a smartphone - ChatGPT, DeepSeek, Anthropic Claude, Perplexity, Google Gemini, Microsoft Copilot.
Getty Images

کیا یہ اس کام کے لیے بہترین اے آئی ٹول ہے؟

وہ کہتی ہیں کہ مختلف اے آئی سسٹمز کی صلاحیتیں مختلف ہوتی ہیں۔

ان کے مطابق ’کبھی کبھار ہم سب سے مشہور اے آئی ٹولز کا استعمال کرتے ہیں کیونکہ ہمیں ان کے بارے میں علم ہوتا ہے اور وہ بہت ساری چیزیں کر سکتے ہیں لیکن اکثر ایسے ٹولز موجود ہوتے ہیں جو مخصوص کام کرسکتے ہیں جیسے کسی سائنسی سوال کا جواب دینا وغیرہ، تو ایسے میں یہ آپ کے لیے بہتر کام کر سکتے ہیں۔‘

آئے روز زیادہ سے زیادہ ایپس لانچ ہو رہی ہوتی ہیں جو مختلف بڑی اور چھوٹی ضروریات کے مطابق بنائی جاتی ہیں۔

ایک ایسی ایپ بھی ہے جسے اگر آپ ریاضی کے سوال کی تصویر بھیجیں تو وہ آپ کو اسے حل کر دے گی۔ ایک اور ایپ آپ کی بریڈ کا تجزیہ کر کے اسے بہتر کرنے کا مشورہ دے گی اور ایک ایسی ایپ بھی ہے جو مختلف الہامی کتب سے آپ کے حساب سے دعائیں بتاتی ہے۔

سٹینفورڈ یونیورسٹی کی اے آئی انڈیکس رپورٹ 2025 کے مطابق امریکہ میں مقیم اداروں نے گذشتہ سال 40 معروف اے آئی ماڈلز متعارف کروائے، اس کے برعکس چین نے 15 اور یورپ نے ایسے تین ماڈل متعارف کروائے۔

اس لیے یہ معلوم کرنا اہم ہے کہ مارکیٹ میں کیا کچھ موجود ہے اور اپنی مرضی سے اسے چننا بھی اہم ہے۔

کیا آپ مصنوعی ذہانت کے جوابات پر اعتبار کر سکتے ہیں؟

لوسیونی کہتی ہیں کہ مصنوعی ذہانت آپ کو جواب دے گی لیکن یہ درست ہے یا نہیں یہ ضروری نہیں ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اے آئی ماڈلز ایسے حقائق گھڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں صرف اس لیے کیونکہ وہ بظاہر درست لگ رہے ہوں۔ اس سے کئی مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے جب آپ انھیں کام یا سکول میں استعمال کریں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ اس سے بچنے کے لیے مصنوعی ذہانت کی جانب سے دیے گئے جواب کی دوبارہ تصدیق ضروری ہے۔

’اسے تفصیل سے دوبارہ پڑھیں اور تنقیدی نظر سے سوچیں کے یہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا اس کے کوئی معنی ہیں یا نہیں۔ مصنوعی ذہانت بظاہر پراعتماد دکھائی دے سکتی ہے لیکن یہ اصل میں پھر بھی غلط ہو سکتی ہے۔

A young Asian woman speaks into her phone at nightime, with city lights behind her.
Getty Images

آپ اس سے کون سی معلومات شیئر کر رہے ہیں؟

لوسیونی کہتی ہیں کہ صارفین کو اس بات کا بھی دھیان رکھنا چاہیے کہ وہ اے آئی سے کون سی معلومات شیئر کر رہے ہیں اور ان کا دھیان صرف اس بات پر نہیں ہونا چاہیے کہ انھیں اے آئی سے کیا جواب مل رہا ہے۔

اے آئی سسٹمز دراصل بڑے پیمانے پر ڈیٹا کو اکٹھا کر کے اسے مختلف ماڈلز کو ٹرین کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اسے جو معلومات دیتے ہیں چاہے وہ کوئی تصویر ہو یا ٹیکسٹ اسے یہ سٹور کر کے مستقبل میں اپنے جوابات کو بہتر بنانے کی کوشش کر سکتا ہے۔

ہر پلیٹ فارم کی اپنی پرائیویسی پالیسی ہوتی ہے اس لیے اسے پڑھنا ضروری ہوتا ہے۔

لوسیونی کہتی ہیں کہ اگر یہ ذاتی، حساس یا شرمندگی کا باعث بننے والی معلومات ہوں تو انھیں اے آئی ماڈل کو نہ دیں کیونکہ یہ انٹرنیٹ پر آ سکتی ہیں۔

وہ میٹا اے آئی ایپ کی جانب اشارہ کرتی ہیں جہاں کچھ صارفین کو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ ان کی جانب سے دی جانے والی معلومات ’ڈسکور‘ نامی فیڈ پر شائع ہو رہی تھیں۔

بی بی سی کو ایسی مثالیں بھی ملیں جس میں لوگوں نے اپنے سکول اور یونیورسٹی کے امتحانات کے سوالات کی تصاویر اس پر اپ لوڈ کی ہوئی تھیں۔ اسی طرح کچھ افراد نے مصنوعی ذہانت سے جنسی تصاویر بھی مانگی اور اپنی جنسی شناخت کے بارے میں مشورے بھی۔

سنہ 2023 میں اٹلی وہ پہلا مغربی ملک بنا جس نے چیٹ جی پی ٹی کو پرائیوسی کے مسائل کے باعث بلاک کر دیا تھا۔

جنوبی کوریا، آسٹریلیا اور امریکہ نے چینی اے آئی ایپ ڈیپ سیک کے حوالے سے بھی خدشات کا اظہار کیا ہے۔

Image of a hand holding a pen writing on paper opposite a robotic hand typing on to a computer.
Getty Images

کیا مجھے واقعی مصنوعی ذہانت کی ضرورت ہے؟

لوسیونی کہتی ہیں کہ مصنوعی ذہانت کو اپنے دماغ کی متبادل کے طور پر استعمال نہ کریں۔

پہلے یہ سوچیں کہ کیا آپ یہ کام خود کر سکتے ہیں یا دیگر ذرائع سے کر سکتے ہیں جیسے ریاضی کا سوال کیلکولیٹر سے بھی حل ہو سکتا ہے۔

وہ یہ بھی مشورہ دیتی ہیں کہ ہمیں اپنے اردگرد موجود لوگوں کی مدد سے ذاتی سوالوں کو جواب حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مصنوعی ذہانت انسانی اقدار کی بنیاد پر یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح، اور کسی مخصوص صورتحال میں کیا کرنا بہتر ہے۔ اور ہمیں چاہیے کہ ہم اسے اپنے لیے وہ فیصلے نہ کرنے دیں۔‘

لوسیونی کہتی ہیں کہ ’مصنوعی ذہانت کے ٹولز کافی عرصے تک ہمارے ساتھ رہیں گے خاص طور پر اس لیے کیونکہ ہم سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر زیادہ سے زیادہ ایکٹو ہو رہے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہمیں اپنی زندگی میں ہر کام کے لیے مصنوعی ذہانت کے استعمال کی ضرورت ہے۔ جو چیزیں ہمیں انسان بناتی ہیں جیسے تخلیق کی لگن، رابطہ اور کمیونٹی، وہ ختم نہیں ہونی چاہیے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts