کون ہے؟ دروازے پر بیل ہوئی تو میں نے سوال کیا۔
“باجی میں ہوں اوبر ڈرائیور۔ آپ کا کچھ سامان گاڑی میں رہ گیا تھا“ آدمی نے اپنی پہچان بتاتے ہوئے کہا۔ میں نے ناسمجھی میں دروازہ کھول دیا اور اپنا موبائل اس کے پاتھ میں دیکھ کر چونک گئی۔
“باجی یہ آپ کی امانت میری گاڑی میں ہی رہ گئی تھی“ ڈرائیور نے موبائل مجھے دیتے ہوئے کہا
“تم اس موبائل کی قیمت جانتے ہو یہ ڈیڑھ لاکھ کا موائل ہے جو تم مجھے واپس کرنے آئے ہو“ میں نے اسے کچھ خوشی اور حیرانی کے ملے جلے الفاظ میں بتایا۔ یہ کہنے کا میرا مقصد تھا شاید موبائل کی اصلہ قیمت جان کر ڈرائیور کے چہرے پو کوئی پچھتاوا نظر آجائے لیکن اس نے مسکر کر کہا۔
“باجی میں جانتا ہوں اس فون کی قیمت لاکھ ڈیڑھ لاکھ تک ہوگی لیکن یہ چیزیں تو آنی جانی ہوتی ہیں۔ اس ڈیڑھ لاکھ کے فون کے لئے میں اپنی آخرت برباد نہیں کرسکتا“
ایمان مضبوط ہو تو برائی سے بچنا ممکن ہے
یہ ایک سچا واقعہ ہے جو سوشل میڈیا صارف حمنہ احسن کے ساتھ پیش آیا ہے۔ اس واقعے سے جہاں ہمیں ایک یہ سبق ملتا ہے کہ تمام نفسا نفسی کے باوجود دنیا آج بھی اتنی بری نہیں جتنا ہم نے سمجھ لیا ہے اور نہ یہ دنیا میں نیک انسان ختم ہوگئے ہیں بلکہ ابھی بھی کچھ ایسے لوگ باقی ہیں جو دنیاوی زندگی پر آخرت کو ترجیح دیتے ہوئے ایمانداری اپنائے رکھتے ہیں وہیں ایک سبق یہ بھی ہے کہ چاہے انسان کی جیب کتنی ہی کیوں نہ خالی ہو اگر اس کا ایمان مضوط ہے تو وہ بڑی سے بڑئی برائی اور نفس کے شر سے محفوظ رہ سکتا ہے۔