میں موت کو نہیں مانتا ۔۔ دنیا کے مشہور بادشاہوں کی قبریں جب کھولی گئی تو کیا ہوا؟ موت کی حقیقت پر لوگ بھی افسردہ ہو گئے

image

دنیا میں ایسی کئی شخصیات گزری ہیں جو کہ اپنے اقدامات کی وجہ سے جانی جاتی ہیں لیکن ان کے مرنے کے بعد ان سے متعلق الگ ہی نظریہ سامنے آتا ہے۔

ہماری ویب ڈاٹ کام کی اس خبر میں آپ کو چند ایسے ہی مشہور بادشاہوں کے بارے میں بتائیں گے جو مانتے تھے کہ ہمیں موت نہیں آئے گی۔

طوطن خامن:

مصر کے ایک نامور اور شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے بادشاہ طوطن خامن اپنے دور کے طاقتور فرعون گزرے ہیں۔

اپنے والد اخیناتن کے بنائے ہوئے قوانین اور مذہب کو تبدیل کر کے طوطن خامن نے ایک بار پھر پرانے قوانین اور مذہب کو بحال کیا، اگرچہ طوطن خامن نے مقامی لوگوں کے لیے ایک ریلیف دیا مگر ان کی بات نہ ماننے والوں سے بھی طوطن خامن سخت طریقے سے نمٹتا تھا۔

طوطن خامن رہن سہن سے سفید رنگ کے کپڑے پہنتا تھا، جبکہ ایک ٹانگ بھی ٹیڑھی تھی، اس سب میں اہمت بات یہ بھی تھی کہ طوطن خامن مذہبی طور پر موت کو اس طرح نہیں دیتا تھا۔ فرعون کے انداز سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے اسے موت کا ڈر ہی نہ ہو، جب ہی اپنے احکامات کی پابندی پر سخت سے عمل کروایا جاتا تھا۔

لیکن اچانک 19 سال کی عمر میں ملیریا سے طوطن خامن موت کا شکار ہو گیا۔ آج بھی مصر کے اس فرعون کی ممی کی گردن میں وہی اکڑ موجود ہے۔ لیکن وہ خود اپنی مدد سے بھی آنکھیں نہیں کھول سکتا۔

باربرہ ریڈزی:

باربرہ ریڈزی پالینڈ کی ملکہ تھی، خوبصورتی میں اپنی مثال آپ، گورا رنگت، گہری نشیلی آنکھیں اور گھنے بالوں کی وجہ سے باربرہ ریاست میں تو مشہور تھیں ہی، لیکن ریاست میں بطور بہتیرن مشیر اور ریاست کے لیے کیے گئے کاموں کی وجہ سے بھی جانی جاتی ہیں۔

اس وقت کے بادشاہ سگسمنڈ کا حکم تھا کہ ملکہ کے ٹیبل کو پھولوں سے سجایا جائے، انہیں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے، وہ ایک ایسی زندگی گزر بسر کرنے لگیں جس میں ہر کام ایک حکم کی دوری پر ہوتے تھے۔

یہاں تک کے اب ان کی زندگی جنت بنتی جا رہی تھی مگر شاید وہ اس سب میں یہ بھول گئیں کہ ہر عروج ک زوال ہے، جب ہی وہ 1551 میں اپنے شوہر بادشاہ سگسمنڈ کی گود میں انتقال کر گئیں۔

لیکن جب 2011 میں قبر کشائی ہوئی تو سر پر تاج پہنے ملکہ لاش کو سب دیکھ کر حیران رہ گئے، سر پر تاج تو موجود تھا، مگر ملکہ کی خوبصورتی اور عیش و عشرت موجود نہیں تھا۔

میگوئیل ایگلیسیس:

شمالی امریکہ کی ریاست پیرو کا حکمران جو 1830 میں پیدا ہوا اور پھر 1909 میں اتنقال کر گیا، اپنے وقت کا جابر ترین حکمران سمجھا جانے والا یہ حکمران انسانیت سوز واقعات کی وجہ سے مشہور تھا۔

گھنی مونچھیں، تنی ہوئی گردن اور آنکھیں بے خوف، حکمرانی کے ساتھ ساتھ اپنے اصولوں پر قائم رہنے والے اس حکمران کی قبر جب کھولی گئی تو وہی جسم جو کبھی جھکتا نہیں تھا آج زنگ لگے بیچز میں پڑا تھا۔

کوفن میں موجود حکمران کا جسم یوں معلوم ہو رہا تھا جیسے کہ زنگ لگ گیا ہو، جسم کی ہڈیاں موجود تھیں، بیچ بھی تھا اور کپڑے بھی ختم ہو گئے تھے مگر جسم نہیں تھا۔

آخری مغل بادشاہ:

مغل سلطنت کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر تھے، جن کا یہ شعر "کتنا بد نصیب ہے ظفر دفن کے لیے،دو گز بھی زمین نہ ملی کوئے یار میں" کافی مشہور ہے۔ دراصل یہ صرف شعر نہیں ہے بلکہ آپ بیتی ہے جو انہوں نے شعر کی صورت میں سنائی ہے۔

بہادر شاہ ظفر کا شمار مغلیہ سلطنت کے ان بادشاہوں میں ہوتا تھا جو کہ ہندو مسلم تفریق سے بالاتر ہو کر باشاہت کر رہے تھے جس کی وجہ رعایا انہیں پسند کرتی تھی۔ جبکہ ایک ایسا طبقہ بھی تھا جو کہ ان پر تنقید کرتا تھا۔

بغاوت اور انگریز حکومت کے ظالمانہ رویے سے وہ اس حد تک تنہائی اور افسردگی کے عالم میں تھے کہ ان کی شاعری آج ابھی ان کی تکلیف کو بیان کرتی ہے۔ ایک طرح سے شکوہ بھی کرتے تھے کہ میں کس حد تک بدنصیب ہوںں جو میرے ہی شہر میں مجھے دو گز زمین بھی میسر نہ آئی۔

ان کے آخری لمحات میں بھی شاہی خاندان کے کچھ افراد موجود تھے۔ چونکہ وہ ایک ایسے مقام پر تھے جہاں ان کے چاہنے والے اور ہمدرد سوچ بھی نہیں سکتے تھے، یہی وجہ تھی کہ ان کی وفات کی خبر بھی ہندوستان میں دو ہفتے بعد آئی تھی۔

انگریز تیار تھے کہ کب ان کا انتقال ہو اور انہیں آخری آرام گاہ کی طرف لے جایا جائے۔ 7 نومبر 1887 کو جب آخری مغل بادشاہ کا انتقال ہوا تو انہیں برطانوی فوج نے اسی دن دفنا دیا تھا، یہاں تک کے قبر کا قتبہ یا نام تک نہیں لکھا گیا تھا کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ اس کی وجہ سے ان کے چاہنے والے بغاوت کر سکتے ہیں۔

میانمار کے شہر رنگون میں بہادر شاہ ظفر کو دفنایا گیا تھا، جہاں اچانک 1991 میں جب مزدور نالی کی کھدائی کر رہے تھے تب ہی انہیں ایک چبوترے کی اینٹیں دکھائی دیں۔

جسے دیکھ کر سب حیران رہ گئے۔ اس وقت انکشاف ہوا کہ یہ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا مقبرہ ہے۔


About the Author:

Khan is a creative content writer who loves writing about Entertainment, culture, and Politics. He holds a degree in Media Science from SMIU and has been writing engaging and informative content for entertainment, art and history blogs for over five years.

مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.