زلزلے کی زد میں آنے والے علاقوں میں متاثرین کے علاج میں مصروف شامی ڈاکٹر احمد المصری نے بی بی سی کو اپنے غیر معمولی تجربے کے بارے میں بتایا ہے۔
زلزلے میں متاثر ہونے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ میں نے اس بچے کی آنکھوں میں جو دیکھا، اس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا!‘
ڈاکٹر احمد المصری زلزلے سے متاثرہ شامی علاقے آفرین میں لوگوں کی جان بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انھوں نے کہا ’مجھے نہیں پتا کیوں، لیکن جیسے ہی اس نے میری طرف دیکھا میری آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہو گئے۔‘
پیر کو زلزلہ آنے کے بعد سے تیس گھنٹے مسلسل متاثرین کا علاج کرتے ہوئے وہ تھک چکے تھے۔ شمال مغربی شام کے شہر آفرین میں واقع ہسپتال میں درجنوں متاثرین کے علاج کے لیے ان کے ساتھ وہاں صرف ایک اور ڈاکٹر موجود تھے۔
اسی دوران وہاں سات سالہ محمد عقید کو لایا گیا۔ اسے اس کے گھر کے ملبے سے نکالا گیا تھا۔ امدادی کارکن جب اس تک پہنچے، وہ اپنے والد، والدہ اور بھائی بہنوں کی لاشوں کے پاس پڑا تھا۔ وہ سبھی زلزلے کے دوران دب کر ہلاک ہو چکے تھے۔
ڈاکٹری المصری نے بذریعہ زومبی بی سی کو بتایا ’جس نظر سے وہ بچہ ہماری طرف دیکھ رہا تھا، اس سے ایسا لگ رہا تھا جیسے اسے ہم پر مکمل یقین تھا، اسے معلوم تھا کہ وہ محفوظ ہاتھوں میں ہے۔‘
انھوں نے کہا ’لیکن مجھے یہ بھی لگا کہ وہ زخموں کی تکلیف کو بہت حد تک چھپانے کی کوشش کر رہا تھا۔ آخر وہ کیا بات ہوگی جس نے ایک سات سالہ بچے کو اتنا مضبوط بنایا اور اتنی برداشت سکھا دی؟‘
ڈاکٹر المصری آفرین کے الشفا ہسپتال میں سرجن ہیں جسے سیریئن امیریکن میڈیکل سوسائٹی (سیمس) نامی فلاحی ادارہ چلاتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ سانحے کے فوراً بعد ان کے ہسپتال میں کم از کم دو سو متاثرین لائے گئے۔
اسی طرح ان کے پاس لایا جانے والا ایک دوسرا بچہ محض اٹھارہ ماہ کا تھا۔
ڈاکٹر المصری نے اس کا طبی معائنہ کیا اور پایا کہ وہ ٹھیک ہے۔ لیکن تھوڑی ہی دیر میں انھیں احساس ہوا کہ بچے کے والدین اس کے ساتھ نہیں تھے۔
ڈاکٹر المصری کہتے ہیں ’اچانک، میں نے دیکھا اس کا باپ اس کی طرف دوڑتا ہوا آیا اور پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے اسے بانہوں میں بھر لیا۔‘
ڈاکٹر مصری بتاتے ہیں ’بچے کے والد نے مجھے بتایا کہ ان کے خاندان میں بس اب وہ بچہ ہی زندہ بچا ہے۔ خاندان کے دیگر افراد کی لاشیں ہسپتال کے برامدے میں رکھی ہوئی تھیں۔‘
ڈاکٹر المصری نے بتایا کہ اتنے کم وقت میں سینکڑوں متاثرین کوہسپتال لایا گیا کہ عملہ حیران و پریشان تھا۔ انھوں نے کہا ’میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ زلزلہ اس حد تک تباہی کر سکتا ہے، اتنی بڑی تعداد میں متاثرین ہوں گے۔‘
ڈاکٹر المصری کئی بڑے حادثات سے نمٹنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔
2013 میں وہ ایک عارضی ہسپتال میں کام کر رہے تھے جب دمشق کی متعدد علاقوں میں راکٹ داغے گئے جن میں نرو ایجنٹ ’سیرن‘ کا استعمال ہوا تھا۔ اس حملے میں سینکڑوں افراد ہلاک اور ہزاروں بری طرح زخمی ہوئے تھے۔
ڈاکٹر المصری نے بتایا ’اس وقت ہمیں اس قسم کے حملے کے لیے تیار کیا جا چکا تھا۔ ہم ایک منظم رد عمل کے لیے خود کو فوری طور پر تیار کر چکے تھے۔ لیکن ہم اس طرح کی صورت حال کے لیے تیار نہیں تھے۔ یہ حالات ماضی سے کہیں زیادہ بدتر ہیں۔‘
چھ فروری کو آنے والے زلزلے کے بعد سے آفرین میں ڈاکٹر المصری اور ان کے ساتھ کام کرنے والے طبی کارکنان پہلے تو ان مریضوں کو دیکھ رہے تھے جو کم زخمی تھے۔
انہوں نے بتایا ’ان کے زخم ایسے تھے جو اوپر سے دیکھنے میں تو معمولی لگتے تھے لیکن پھر کوئی مریض ایسا ہوتا تھا جس کی ٹانگ کاٹنا ضروری تھا۔ ہمارا ہسپتال اس قسم کی آفات کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا ’ایسے حالات میں ڈاکٹر ہونا سب سے بدتر ہے جب آپ کسی کی جان بچانے یا کسی کی تکلیف کم کر نے میں ناکام ہوں۔ یہ سب سے برا احساس ہوتا ہے۔‘
اس دوران جب وہ مریضوں کی مدد کر رہے تھے تو وہ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ ان کا اپنا خاندان زلزلے میں محفوظ رہا یا نہیں۔ متاثرہ علاقوں میں بجلی اور انٹرنیٹ دونوں منقطع ہو چکے تھے۔
ان کے والدین اور بھائی بہن ہسپتال سے کچھ ہی فاصلے پر رہتے ہیں، لیکن ان کی اہلیہ اور بچے سرحد پار جنوبی ترکی کے شہر غازی انتیپ میں رہتے ہیں۔ یہ علاقہ زلزلے کے مرکز سے نزدیک ہے اور یہ بھی زلزلے سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔
انھوں نے کہا ’ایسے حالات میں یہ پتا نہ ہونا کہ آپ کا اپنا خاندان اور وہ لوگ جن سے آپ محبت کرتے ہیں محفوظ ہیں یا نہیں، سب سے اذیت ناک ہوتا ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے:
ملبے تلے دبے بچے کو بوتل کے ڈھکن سے پانی پلانے کی ویڈیو وائرل
زلزلے سے تباہ شدہ عمارت کے ملبے میں پیدا ہونے والی بچی کو نکالا گیا
زلزلے کے بعد ملبے تلے دبے افراد کتنے وقت تک زندہ رہ سکتے ہیں؟
انھوں نے بتایا ’ہم اس وقت مریض کو ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے دیکھنے کے علاوہ یہ بھی دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ کہیں وہ ہمارے ہی خاندان کا کوئی فرد تو نہیں۔‘
ڈاکٹر المصری کو تب جا کر کچھ راحت ملی جب ان کے بھائی نے ہسپتال آ کر انہیں بتایا کہ ان کا پورا خاندان محفوظ ہے۔ پھر انہوں نے ہسپتال میں ہی تھوڑی دیر آرام کیا۔
انھوں نے بتایا ’اس وقت جب میری آنکھ لگی، تو جیسے میں بے ہوش ہی ہو گیا۔ کیوں کہ ایسے لمحات بھی آئے جب کام کرتے رہنے کے لیے مجھے ایسے کسی کی ضرورت پڑتی تھی جو مجھے پکڑ کر کھڑا رکھے۔‘
ڈاکٹر المصری نے بریک لیا اور اپنے خاندان کے ساتھ صبح ناشتہ کرنے گئے۔ وہ امید کرتے ہیں کہ جلد حالات بہتر ہوں اور وہ اپنی اہلیہ اور بچوں سے ملنے غازی انتیپ جا سکیں۔
انھوں نے بتایا کہ اگلے روز وہ محمد کے پاس دوبارہ گئے اور جاننے کی کوشش کی کہ کیا وہ انھیں پہچانتا ہے۔
محمد نے کہا ’ہاں، آپ وہی ڈاکٹر ہیں جس نے میری جان بچائی۔‘