سارا خادم: شطرنج کی بہترین ایرانی کھلاڑی جسے سکارف سے انکار پرجلاوطن ہونا پڑا

وہ ایران واپس نہیں جا سکتیں اور اب وہ اپنے شوہر اور ایک سالہ بیٹے کے ساتھ سپین کے جنوبی علاقے میں ۔جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہیں
سارا خادم
Getty Images

جب دنیا میں شطرنج کے سب سے زیادہ ابھرتے ہوئی کھلاڑیوں میں سے ایک، 25 سالہ سارا خادم نے ایران میں احتجاج کرنے والی خواتین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے ایک بین اقوامی مقابلے میں سر ڈھکے بغیر کھیلنے کا فیصلہ کیا تو ان کا خیال تھا کہ اس بات پر زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ انھیں ایرانی حکومت کی جانب سے خبردار کر دیا جائے گا۔

لیکن ہوا اس کے برعکس۔ وہ ایران واپس نہیں جا سکتیں کیونکہ وہاں ان کی گرفتاری کا حکمنامہ جاری ہو چکا ہے اور اب وہ اپنے شوہر اور ایک سالہ بیٹے کے ساتھ سپین کے جنوبی علاقے میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہیں۔

سارا اور ان کے خاندان والوں نے بی بی سی سے درخواست کی کہ جنوبی سپین میں ان کا اصل پتہ نہ بتایا جائے کیونکہ انھیں خدشہ ہے کہ ایران سے ہزاروں میل دور رہنے کے باوجود بھی انھیں نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ایرانی خواتین کے لیے ضروری ہے کہ وہ عوامی مقامات پر سر ضرور ڈھانپیں، حتیٰ کہ تب بھی جب وہ ملک سے باہر ہوں۔ لیکن چند خواتین ستمبر 2022 میں پولیس کی حراست میں 22 سالہ مہسا امینی کی ہلاکت اور اس کے بعداحتجاج کرنے والی خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے، ان دنوں سکارف نہ لینے کا انتخاب کر رہی ہیں۔ کوہ پیما الناز رکیبا کا شمار بھی انہی خواتین میں ہوتا ہے۔ الناز کو سکارف لینے پر مجبور کر دیا گیا تھا اور ہمیں معلوم نہیں کہ ایران واپس آنے کے بعد اب وہ کس حال میں ہیں۔

سارا خادم کہتی ہیں کہ گزشتہ دسمبر میں انھوں نے قزاقستان میں شطرنج کے بین الاقوامی مقابلوں کے دوران سکارف نہ لینے کا فیصلہ اچانک نہیں کیا تھا، بلکہ یہ ایک ارتقائی عمل تھا جس میں انھیں وقت لگا۔ ان مقابلوں میں شامل ایرانی خواتین صرف کیمرے کے سامنے سر پر سکارف لیتی تھیں، اور سارا کے خیال میں یہ ایک منافقانہ فعل تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ایک ایسے وقت میں جب خواتین اور لڑکیاں ایران کی سڑکوں پر قربانیاں دے رہی ہیں اور کچھ تو اپنی جان خطرے میں ڈال رہی ہیں، اس وقت سارا اتنا تو کر سکتی تھیں کہ کیمرے کے سامنے سر پہ سکارف نہ لیتیں۔

سارا خادم
BBC

کیا کبھی انھوں نے بھی ایران میں ہونے والے مظاہروں میں شرکت کے بارے میں سوچا تھا؟

’جی، باکل۔‘

لیکن ان کا بیٹا، سام ان کی راہ میں حائل ہو گیا۔

سارا کہتی ہیں کہ ’ مجھ پر اپنے بیٹے کی ذمہ داریاں تھیں، اسی لیے میں نے سوچا کہ شاید میں اپنا اثر و رسوخ کسی اور انداز میں استعمال کر سکتی ہوں۔‘

سارا اس وقت سے شطرنج کے مقابلوں میں حصہ لے رہی ہیں جب ان کی عمر آٹھ برس کے لگ بھگ تھی، تاہم یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب انھیں اسلامی جمہوریۂ ایران کی سخت اخلاقیپابندیوں پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

سنہ 2020 میں تہران کے ہوائی اڈے سے روانہ ہونے والے ایک یوکرینی مسافر بردار طیارے کو تباہ کر دیا گیا تھا، جس کے بارے میں بعد میں معلوم ہوا کہ اسے پاسدارانِ انقلاب کے فوجیوں نے مار گرایا تھا اور طیارے میں سوار 176 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ایرانی حکام کو یہ تسلیم کرنے میں تین دن لگے کہ طیارہ ایرانی فوج نے غلطی سے تباہ کر دیا تھا۔ ان دنوں سوشل میڈیا پر سارا نے کہا تھا کہ وہ شطرنج کی قومی ٹیم کو چھوڑنے کے بارے میں سوچ رہی ہیں۔ اگرچہ انھوں نے اپنی پوسٹ میں یوکرینی طیارے کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا لیکن انھیں ایک حلف نامے پر دستخط کرنے پر مجبور کر دیا گیا جس پر لکھا تھا کہ ان کی پوسٹ کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

اس کے بعد جب وہ اگلی مرتبہ ایئر پورٹ پر پہنچیں تو ان کا پاسپورٹ ضبط کر لیا گیا۔ سارا کا خیال تھا کہ اب ان کا شطرنج کا کیریئر ختم ہو گیا ہے۔

اب جبکہ ان کی زندگی بالکل تبدیل ہو چکی ہے، کیا ان کو کوئی پچھتاوا بھی ہے؟

کسی بھی ہچکچاہٹ کے بغیر سارا نے اس سوال کا جواب نفی میں دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میں اپنے گھر والوں کو بہت یاد کرتی ہوں، لیکن میں یہ نہیں کہوں گی کہ مجھے اپنے فیصلے پر پچھتاوا ہے۔ میں اب بھی (شطرنج کے مقابلوں میں) ایران کی نمائندگی کرتی ہوں، میں ایرانی ہوں اور ایران کے لوگ اب بھی مجھے ایرانی ہی سمجھتے ہیں۔‘

اگرچہ سارا کے بقول ایران میں ہر چیز سیاسی سمجھی جاتی ہے، لیکن مجھے اس بات پر قدرے حیرت ہوئی کہ سارہ خود کو سیاسی نہیں سمجھتیں۔

’میں کوئی (سیاسی) کارکن یا علمبردار نہیں ہوں، اور جو لوگ اپنا اتنا کچھ داؤ پر لگا رہے ہیں، ان کے لیے میرے پاس کوئی پیغام نہیں ہے۔ جو لوگ ایران کی سڑکوں پر مظاہرے کر رہے ہیں، انھیں دیکھ کر نہ صرف مجھے بلکہ بہت سے دیگر لوگوں کو بھی جذبہ ملتا ہے۔‘

ایران خواتین احتجاج
Getty Images

سارا کے شوہر، اردشیر احمدی ایک ہدائتکار ہیں وہ انٹرنیٹ پر اپنا شو بھی پیش کرتے ہیںاور انھیں بھی ایرانی حکومت کے ہتھکنڈوں کا سامنا کرنا پڑ چکا ہے۔ انھوں نے ہِپ ہاپ میوزک کے بارے میں ایک دستاویزی فلم بنائی تھی جس کے نتیجے میں انھیں مارا پیٹا گیا اور تین ماہ قید بھی کاٹنا پڑی تھی۔ ایران سے نکل جانے کا فیصلہ سارا اور اردشیر کا مشترکہ فیصلہ تھا۔

سارہ کو سپین میں قیام کا موقع اس لیے مل گیا کیونکہ انھوں نے ’گولڈن ویزا‘ لے لیا تھا۔ سپین کے قانون کے مطابق اگر آپ وہاں پانچ لاکھ یورو تک کی جائداد خریدتے ہیں تو آپ کو سپین کی سکونت مل جاتی ہے۔

سپین کے وزیرِ اعظم پیڈرو سانچیز نے بھی سارا خادم کو ملاقات کی دعوت دی تھی۔ سارا بتاتی ہیں کہ وہ دن بھی کچھ کھٹا میٹھا رہا۔

’یہ وہی دن تھا جب میرے ملک میں میری گرفتاری کے احکامات جاری کیے گئے تھے۔ اسی لیے میرے جذبات ملے جلے تھے۔ میں سوچ رہی تھی کہ آج اِس ملک میں مجھے سراہا جا رہا ہے اور میرے اپنے ملک میں، جہاں آپ کو اتنی کامیابیاں ملیں، وہاں آپ کے گھر پہ وارنٹ بھیجے جا رہے ہیں۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.