لائن آف کنٹرول: دنیا کی وہ خطرناک سرحد جہاں ہر کھڑکی میدان جنگ میں کھلتی ہے

بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایل او سی اس سرحد کی بہترین مثال ہے جو ’خون سے کھینچی گئی ہے۔‘ جیسا کہ انعم زکریا کہتی ہیں کہ یہ ایک ایسی لکیر ہے جسے ’انڈیا اور پاکستان نے بنایا اور کشمیریوں کو خاطر میں لائے بغیر، فوجوں اور ہتھیاروں سے لیس کیا گیا۔‘
 لائن آف کنٹرول
Getty Images

کشمیر کے دو حصوں کو انڈیا اور پاکستان میں تقسیم کرنے والی لکیر لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے ساتھ رہنا امن اور جنگ کے بیچ رہنے جیسا ہے۔

پہلگام حملے کے بعد حالیہ کشیدگی نے انڈیا اور پاکستان کو ایک بار پھر بڑی جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔

ایل او سی کے دونوں جانب گولے برسنے لگے جس سے گھر ملبے میں تبدیل ہو گئے اور زندگیاں اعداد میں بدل گئیں۔

اطلاعات کے مطابق انڈیا کی جانب کم از کم 16 افراد ہلاک ہوئے جبکہ پاکستان نے اپنے 40شہریوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ ان میں سے کتنے براہ راست گولہ باری کی وجہ سے مارے گئے۔

کینیڈا میں مقیم ایک پاکستانی مصنف انعم زکریا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ایل او سی پر رہنے والے خاندان انڈیا اور پاکستان کے اشتعال کا شکار ہوتے ہیں اور دونوں ملکوں کی کشیدگی کا تاوان انھیں ادا کرنا پڑتا ہے۔‘

انھوں نے کہا، ’جب بھی فائرنگ دوبارہ شروع ہوتی ہے تو بہت سے لوگوں بنکروں میں جانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ مویشی اور مال کا نقصان ہوتا ہے، گھروں، ہسپتالوں، سکولوں جیسے بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچتا ہے۔‘

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر ایک کتاب کی مصنفہ انعم زکریا نے کہا کہ ان لوگوں نے ’جن حالات اور اتار چڑھاؤ کا سامنا کیا اس کے ان کی روزمرہ زندگی پر سنگین اثرات مرتب ہوئے ہیں۔‘

انڈیا اور پاکستان کی بین الاقوامی سرحدتقریبا 2400 کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہے۔

ایل او سی کا آغاز 1949 میں پہلی انڈیا پاکستان جنگ کے بعد سیز فائر لائن کے طور پر ہوا تھا اور 1972 کے شملہ معاہدے کے تحت اس کا نام تبدیل کر دیا گیا تھا۔

کشمیر پر انڈیا اور پاکستان دونوں کا مکمل دعویٰ ہے تاہم دونوں کا اس کے کچھ حصوں پر انتظام ہے۔ یہاں سے گزرنے والی ایل او سی دنیا کی سب سے زیادہ عسکری تعیناتی والی سرحدوں میں سے ایک ہے۔

تنازع کبھی ختم نہیں ہوتا اور جنگ بندی محض اگلی کسی اشتعال انگیزی تک ہی پائیدار ہوتی ہے۔

دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں خارجہ پالیسی کے ماہر ہیپیمون جیکب کہتے ہیں کہ یہاں جنگ بندی کی خلاف ورزیاں 'فائرنگ سے لے کر بڑے پیمانے پر زمین پر قبضے اور سرجیکل سٹرائیک' تک ہو سکتی ہیں۔

زمین پر قبضہ کرنے میں پہاڑیوں کی چوٹیوں، چوکیوں، یا بفر زون جیسے اہم مقامات پر زبردستی قبضہ کرنا شامل ہوسکتا ہے۔

بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایل او سی اس سرحد کی بہترین مثال ہے جو ’خون سے کھینچی گئی ہے۔‘ جیسا کہ انعم زکریا کہتی ہیں کہ یہ ایک ایسی لکیر ہے جسے ’انڈیا اور پاکستان نے بنایا اور کشمیریوں کو خاطر میں لائے بغیر، فوجوں اور ہتھیاروں سے لیس کیا گیا۔‘

 لائن آف کنٹرول
Getty Images

جنگ کے وقت کی ایسی سرحدیں جنوبی ایشیا کے لیے منفرد نہیں ہیں۔

انڈیا کی کریا یونیورسٹی میں بین الاقوامی اور تقابلی سیاست کے پروفیسر اور 'کشمیر ایٹ دی کراس روڈز: انسائڈ اے ٹوئنٹی فرسٹ سنچری کانفلکٹ'کے مصنف سومنترا بوس کہتے ہیں کہ ایسی سب سے زیادہ مشہور سرحد 'گرین لائن' یعنی 1949 کی جنگ بندی لائن ہے جو اسرائیل اور مغربی کنارے کے درمیان عام طور پر تسلیم شدہ سرحد ہے۔'

اس میں حیرت کی بات نہیں ہے کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان 2021کے جنگ بندی معاہدے کے بعد سے ایل او سی پر جاری عارضی سکون حالکیہ تنازعے کے بعد باآسانی ختم ہو گیا۔

کارنیگی انڈیا سے تعلق رکھنے والے سوریہ ولیاپن کرشنا نے بی بی سی کو بتایا کہ 'ایل او سی اور بین الاقوامی سرحد پر اس وقت جاری کشیدگی اس لیے بھی اہم ہے کہ ایسا سرحد پر نسبتا امن کے چار سال کے عرصے کے بعد ہوا ہے۔'

سنہ 2003کی جنگ بندی سے قبل انڈیا نے 2001میں 4134اور 2002میں 5767خلاف ورزیاں کی تھیں۔ ابتدائی طور پر 2003 کی جنگ بندی کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں 2004سے 2007تک نہ ہونے کے برابر خلاف ورزیاں ہوئیں ، لیکن 2008 میں کشیدگی دوبارہ سامنے آئی اور 2013 تک تیزی سے بڑھ گئی۔

سنہ 2013اور 2021کے اوائل کے درمیان، ایل او سی اور بین الاقوامی سرحد میں مسلسل بڑے تنازعات دیکھے گئے۔

فروری 2021میں دوبارہ جنگ بندی کے نتیجے میں مارچ 2025 تک خلاف ورزیوں میں فوری اور مستقل کمی واقع ہوئی۔

کرشنا کا کہنا ہے کہ 'سرحد پار سے شدید فائرنگ کے دوران ہم نے دیکھا ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں سرحدی آبادی کئی ماہ تک بے گھر رہی ہے۔ ستمبر کے اواخر اور دسمبر 2016کے اوائل کے درمیان جنگ بندی کی خلاف ورزیوں اور سرحد پار سے فائرنگ کی وجہ سے 27 ہزار سے زائد افراد سرحدی علاقوں سے بے گھر ہوئے۔'

 لائن آف کنٹرول
Getty Images

پہلگام حملے کے بعد کشیدگی اس وقت بڑھ گئی جب انڈیانے دونوں ملکوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے اہم معاہدے کو معطل کر دیا جسے سندھ طاس معاہدہ کہا جاتا ہے۔

اس کے جواب میں پاکستان نے 1972 کے شملہ معاہدے سے نکلنے کی دھمکی دی جس نے ایل او سی کو باضابطہ شکل دی تھی۔

کرشنا کا کہنا ہے کہ 'یہ اس لیے اہم ہے کیونکہ شملہ معاہدہ موجودہ ایل او سی کی بنیاد ہے، جسے دونوں فریقوں نے اپنے سیاسی اختلافات کے باوجود یکطرفہ طور پر تبدیل نہ کرنے پر اتفاق کیا ہے۔'

جیکب کا کہنا ہے کہ کچھ 'عجیب وجوہات' کی بنا پر ایل او سی پر جنگ بندی کی خلاف ورزیاں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافے کے بارے میں بات چیت اور مباحثوں سے غائب رہی ہیں۔

جیکب نے اپنی کتاب لائن آن فائر: سیز فائر کی وائلیشنز اینڈ انڈیا ہاکستان ڈائنیمک میں لکھا ہے کہ 'یہ خود حیران کن ہے کہ کس طرح دو جوہری صلاحیت رکھنے والے ممالک کی جانب سے 105 ایم ایم مارٹر، 130 اور 155 ایم ایم آرٹلری گنز اور اینٹی ٹینک گائیڈڈ میزائلوں جیسے اعلیٰ صلاحیت کے ہتھیاروں کا باقاعدگی سے استعمال، جس کی وجہ سے سویلین اور فوجی ہلاکتیں ہوئی ہیں، علمی جانچ پڑتال اور پالیسی کی توجہ سے بچ گئے ہیں۔'

جیکب نے ان خلاف ورزیوں کے دو اہم محرکات کی نشاندہی کی ہے:'پاکستان اکثر انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں عسکریت پسندوں کی دراندازی کو آسان بنانے کے لیے کور فائر کا استعمال کرتا ہے، جہاں تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے انڈین حکمرانی کے خلاف مسلح بغاوت جاری ہے۔ اس کے جواب میں پاکستان نے انڈیا پر شہری علاقوں پر بلا اشتعال فائرنگ کا الزام عائد کیا ہے۔ '

ان کا کہنا ہے کہ پاکستان اور انڈیا کی سرحد پر جنگ بندی کی خلاف ورزیاں اعلیٰ سطحی سیاسی حکمت عملی کا نتیجہ نہیں بلکہ مقامی فوجی اقدامات کا نتیجہ زیادہ ہوتی ہیں۔

دشمنی اکثر فیلڈ کمانڈروں کی طرف سے شروع کی جاتی ہے۔ کبھی کبھی مرکزی منظوری کے ساتھ، لیکن اکثر بغیرہی۔ وہ اس خیال کو بھی چیلنج کرتے ہیں کہ صرف پاکستانی فوج ہی خلاف ورزیوں کی ذمہ دار ہے۔ ان کے بقول اطراف میں مقامی عسکری ضروریات اور دونوں اطراف کی سرحدی افواج کو دی گئی خود مختاری کا پیچیدہ مرکب اس کی وجہ ہے۔

کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ تقریبا دو دہائیاں قبل ترک کیے گئے اس خیال پر نظر ثانی کی جائے کہ ایل او سی کو باضابطہ اور بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ سرحد میں تبدیل کیا جائے۔ تاہم کچھ ماہرین کا اصرار ہے کہ یہ حل کبھی بھی حقیقت پسندانہ نہیں تھا اور نہ اب ہے۔

 لائن آف کنٹرول
Getty Images

سمترا بوس کہتی ہیں 'یہ خیال ہی مکمل طور پر ناقابل عمل ہے، جس کا کوئی اختتام نہیں کئی دہائیوں سے انڈیننقشوں میں جموں و کشمیر کے پورے علاقے کو انڈیا کا حصہ دکھایا گیا ہے۔'

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے ایل او سی کو بین الاقوامی سرحد کا حصہ بنانے کا مطلب یہ ہوگا کہ تنازع کشمیر کو انڈیا کی ترجیحی شرائط پر حل کیا جائے۔ گزشتہ سات دہائیوں میں ہر پاکستانی حکومت اور رہنما، سویلین یا فوجی، نے اسے مسترد کیا ہے۔'

پروفیسر بوس نے 2003 میں اپنی کتاب 'کشمیر: روٹس آف کنفلکٹ، پاتھز ٹو پیس' میں لکھا ہے: ’کشمیر کے تصفیے کے لیے ضروری ہے کہ ایل او سی کو خاردار تاروں، بنکروں، خندقوں اور دشمن فوجوں کے آہنی پردے سے بدل کر ایک لینن کے پردے میں تبدیل کیا جائے۔‘

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ مسئلہ کشمیر کے حل میں ’ایل او سی کی تبدیلی کو بطور ایک اہم ستون شامل ہونا چاہیے۔‘

سنہ2004 سے 2007کے درمیان ایل او سی کو عارضی سرحد میں تبدیل کرنا کشمیر پر پاکستان انڈیا امن عمل کا مرکز تھا۔

آج سرحد پر رہنے والوں کے لیے تشدد اور بے یقینی کا گھن چکر دوبارہ شروع ہو گیا ہے۔

'آپ نہیں جانتے کہ آگے کیا ہوگا۔‘ حالیہ کشیدگی کے بعد پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ایک ہوٹل کے ایک ملازم نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’آج رات کوئی بھی لائن آف کنٹرول کے سامنے سونا نہیں چاہتا۔‘

یہ ایک خاموش یاد دہانی تھی کہ جب آپ کی کھڑکی میدان جنگ میں کھلتی ہے تو امن کتنا نازک ہوتا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.