ملازمہ پر مبینہ تشدد، جوڑا گرفتار: ’گھر دنیا میں سب سے زیادہ خطرناک کام کی جگہ ہو سکتی ہے‘

انڈین پولیس اور سماجی کارکنوں نے گذشتہ ہفتے دہلی کے ایک مضافاتی علاقے میں ایک گھر سے گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرنے والی ایک 14 سالہ لڑکی کو بازیاب کیا جس کے جسم پر کئی زخم تھے۔

انڈین پولیس اور سماجی کارکنوں نے گذشتہ ہفتے دہلی کے ایک مضافاتی علاقے میں ایک گھر سے گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرنے والی ایک 14 سالہ لڑکی کو بازیاب کیا جس کے جسم پر کئی زخم تھے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے ملازمین کو قانون تحفظ فراہم نہیں کرتا اس وجہ سے ان کا استحصال ہوتا ہے۔

متعدد زخموں کے ساتھ ہسپتال لائی جانے والی نوجوان لڑکی نے پولیس کو بتایا کہ اسے اس کے آجروں نے پانچ ماہ کے دوران تشدد کا نشانہ بنایا۔

صحافی اور دستاویزی فلم ساز دیپیکا نارائن بھردواج نے کہا ’وہ انتہائی قابل رحم حالت میں تھی‘۔

انھوں نے اپنی ایک دوست سے لڑکی کے بارے میں سننے کے بعد بچوں کے تحفظ کے ادارے کو بتایا۔

دیپیکا بھردواج کاکہنا تھا ’ایک دوست نے مجھے فون کیا اور بتایا کہ گڑگاؤں میں اپنے رشتہ داروں سے ملنے جاتے ہوئے، انھوں نے اس لڑکی کو اس وقت دیکھا جب وہ کچرا اٹھا رہی تھی، اس کا چہرہ خون آلود اور زخموں سے ڈھکا ہوا تھا‘

جب دیپیکا بھردواج ہسپتال میں اس نوجوان لڑکی سے ملیں، تو اس نے اپنے ساتھ ہونے والے خوفناک سلوک کے بارے میں بتایا۔

’اس نے مجھے بتایا کہ اسے ہر روز، درحقیقت دن میں کئی بار، وقت پر کام مکمل نہ کرنے کی وجہ سے مارا پیٹا جاتا تھا۔‘

پولیس نے لڑکی کے آجر منیش کھٹر اور اس کی بیوی کمل جیت کور کو گرفتار کر لیا ہے اور ان پر قانون کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ لڑکی کے زخم تشدد سے مطابقت رکھتے ہیں۔

ایک پولیس اہلکار نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ ’جوڑے نے مبینہ طور پر مناسب طریقے سے کام نہ کرنے پر اسے بے رحمی سے مارا پیٹا تھا۔ اسے کئی کٹ اور جلنے کے زخم آئے ہیں، جس کا شبہ ہے کہ اسے بلیڈ یا گرم چمٹے سے مارا گیا ہے۔‘

انھوں نے کہا ’لڑکی کے جسم کے کئی حصوں چہرے، بازوؤں، ہاتھ اور پاؤں پر چوٹیں تھیں۔ اس کے ایک بازو پر، اس کی جلد جل گئی تھی۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’اس کا طبی معائنہ کرایا گیا ہے اور قانونی کارروائی کی جائے گی۔‘

بی بی سی نے لڑکی کے زخموں کی جو تصاویر دیکھی ہیں ان میں اس کے چہرے اور جسم پر کٹے اور جلے کے نشان دکھائی دیتے ہیں۔ یہ تکلیف دہ تصاویر ہیں اس لیے انھیں اس خبر میں شائع نہیں کیا جاسکتا۔

پولیس کو دیے گئے اپنے بیان میں، لڑکی نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ اس کے آجروں نے اسے ’کپڑے دھونے اور دیگر کام کے دوران اپنے کپڑے اتارنے پر مجبور کیا اور اسے بغیر کپڑوں کے فرش پر سلایا گیا۔‘

اس سے جوڑے پر جنسی جرائم سے بچوں کے تحفظ (پوکسو) ایکٹ کے تحت جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام بھی لگایا جا سکتا ہے۔ جوڑا پولیس کی حراست میں ہے اور ابھی تک ان الزامات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ بی بی سی نے اس جوڑے کے قانونی نمائندوں سے رابطے کی کوشش کی لیکن کوئی جواب نہیں مل سکا۔

پولیس نے بتایا کہ منیش کھٹر ایک مشہور لائف انشورنس کمپنی میں ڈپٹی مینیجر کے طور پر کام کرتے تھے اور ان کی بیوی ایک پبلک ریلیشن فرم میں کام کرتی تھی۔ جب سے یہ الزامات سامنے آئے ہیں، اس جوڑے کو ان کی کمپنیوں نے ملازمت سے برخاست کر دیا ہے۔

انسداد سمگلنگ این جی او شکتی واہنی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نشی کانت کا کہنا تھا کہ ’وہ اس کے ساتھ ایک غلام جیسا سلوک کر رہے تھے، اسے مناسب مقدار میں کھانا نہیں دیا گیا تھا اور وہ کوڑے دان سے کھانے پر مجبور تھی۔‘

انھوں نے کہا، ’ہم یہ بھی جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ کون چچا ہے جو اسے گڑگاؤں لے کر آیا، کون سی پلیسمنٹ ایجنسی ہے جس نے اسے نوکری دی اور اس کے معاوضے کا کیا ہوا کیونکہ اسے کبھی تنخواہ نہیں ملی۔‘

لڑکی کو جس بربریت کا سامنا کرنا پڑا اس نے انڈیا کو چونکا دیا ہے لیکن انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ گھریلو ملازموں کے ساتھ بدسلوکی اور استحصال کے دعوے ایسے ملک میں نئی چیز یا کم یاب نہیں جہاں غریب خاندانوں سے تعلق رکھنے والی لاکھوں خواتین اور بچے، لڑکے اور لڑکیاں کام کرتے ہیں۔

سنہ 2013 میں، دہلی میں پولیس نے ایک 50 سالہ خاتون کو اپنی 15 سالہ ملازمہ پر حملہ اور تشدد کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ لڑکی کے سر پر شدید چوٹ اور جسم پر کاٹنے کے نشانات تھے۔

پچھلے سال شہر کے ایک ڈاکٹر جوڑے کو اپنے 13 سالہ گھریلو ملازمہ کو بند کرکے تھائی لینڈ میں چھٹیاں گزارنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ بالکونی سے لڑکی کے رونے اور مدد کے لیے چیخنے کی آواز کے بعد پڑوسیوں نے پولیس اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو آگاہ کیا تھا۔

تینوں واقعات میں ایک چیز جو مشترک تھی وہ یہ ہے کہ متاثرین کا تعلق جھارکھنڈ سے تھا جو کہ انڈیاکی غریب ترین ریاستوں میں سے ایک ہے۔

شکتی واہنی کے ترجمان رشی کانت کا کہنا ہے کہ ’انتہائی غربت کی وجہ سے، لڑکیاں بلوغت کو پہنچنے پر سکول چھوڑ دیتی ہیں۔ پھر ایسی ایجنسیاں انھیں دہلی اور دوسرے شہروں میں نوکریوں کا لالچ دیتی ہیں جو کہ رجسٹرڈ نہیں ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں ’شہر میں، انھیں لوگوں کے گھروں میں رکھا جاتا ہے جہاں اکثر ان کا استحصال ہوتا ہے۔ بہت سے لوگوں پر حملہ کیا جاتا ہے، انھیں بہت کم آزادی ملتی ہے۔‘

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق انڈیا ساڑھے 47 لاکھ گھریلو ملازم ہیں جن میں 30 لاکھ خواتین ہیں۔ لیکن انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کا تخمینہ ہے کہ حقیقی تعداد دو کروڑ سے آٹھ کروڑ کے درمیان ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ انڈیا میں گھر کے کاموں میں بہت زیادہ وزن اٹھانا پڑتا ہے۔ چونکہ کچھ گھر ڈش واشر، ویکیوم کلینر یا واشنگ مشینوں سے لیس ہوتے ہیں، اس لیے تقریباً تمام متوسط اور متمول خاندان جھاڑو دینے، برتنوں کی صفائی، لانڈری، کھانا پکانے اور بچوں کی دیکھ بھال کے لیے ملازمین کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ قانون کہتا ہے کہ 14 سال سے زیادہ عمر کے بچوں سے بھی کام لیا جا سکتا ہے کیونکہ گھر کے کام کو خطرناک نہیں سمجھا جاتا۔

یہ ان لوگوں کے لیے معاش کا ایک اہم ذریعہ ہے جن کی تعلیم کم ہے لیکن میناکشی گپتا جین کا، جو ہیلپر 4 یو چلاتی ہیں، ایک آن لائن پورٹل جو کارکنوں کو آجروں سے جوڑتا ہے، کہنا ہے کہ یہ انھیں ہر طرح کے استحصال کے لیے بھی ہدف بنا دیتا ہے۔

’جس چیز کیوجہ سے گھریلو ملازمین استحصال کا نشانہ بنتے ہیں وہ یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی قانونی معاہدہ نہیں ہے، کوئی کم از کم ضمانت شدہ اجرت نہیں ہے، جنسی ہراسانی کی روک تھام کا ایکٹ جو خواتین کو کام کی جگہوں پر تحفظ فراہم کرتا ہے، ان پر لاگو نہیں ہوتا ہے، اور بہت سے اپنے گھروں سے دور ہیں۔ کوئی سپورٹ سسٹم نہیں۔‘

وہ کہتی ہیں، ’اگر وہ مارے بھی جائیں، تو ان کے پاس مدد کے لیے رجوع کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ اس طرح کے واقعات اس وقت تک ہوتے رہیں گے جب تک کہ ہم سخت سزاؤں کے ساتھ سخت قانون سازی، ایجنسیوں اور آجروں کے خلاف کارروائی نہیں کرتے۔‘

میناکشی کہتی ہیں کہ بچے خاص طور پر کمزور ہیں اور اگرچہ ’حکومت کا کہنا ہے کہ بچے گھر پر کام کر سکتے ہیں کیونکہ گھر خطرناک نہیں ہے، بند دروازوں کے پیچھے گھر دنیا میں سب سے زیادہ خطرناک کام کی جگہ ہو سکتی ہے۔‘

لیکن گھریلو ملازمین کی حالت زار کے بارے میں انڈیا میں شاذ و نادر ہی بات کی جاتی ہے، جب تک کہ کوئی خاص طور پر وحشیانہ کیس سرخیوں میں نہ آئے۔

میناکشی کہتی ہیں کہ انڈینز کو یہ بتانا چاہیے کہ گھریلو عملے کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ضروری ہے۔

’ہم ہر طرح کی چیزوں کے بارے میں ہائپ پیدا کر رہے ہیں، تو کیوں نہ اس بارے میں ہائپ پیدا کریں کہ ہمیں گھریلو ملازمہ کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہیے؟‘

رشی کانت کا کہنا ہے کہ اگر اس مسئلے کو حل کرنا ہے تو انسداد سمگلنگ کے اس بل کو منظور کرنا ہوگا جو برسوں سے پارلیمنٹ میں زیر التوا ہے۔

’کمزور طبقے کی لڑکیوں کو لانا اور انھیں ایسے حالات میں ڈالنا جہاں ان کا استحصال ہو، والوں کو نشانہ بنانے اور سزا دینے کی ضرورت ہے۔‘

موجودہ قوانین کے تحت، کانت کا کہنا ہے کہ اپنی نوکرانی پر حملہ کرنے والے جوڑے کو سزا دینا آسان نہیں ہوگا۔

’ہمارے آگے ایک سخت جنگ ہے۔ اسی طرح کے بہت سے کیسز ہوتے ہیں، لیکن زیادہ تر کا نتیجہ کچھ نہیں ہوتا۔ اکثر، متاثرہ کے خاندان والے پیسے لے کر عدالت سے باہر معاملہ طے کر لیتے ہیں۔‘

سنہ 2013 کے کیس میں، وہ بتاتے ہیں کہ 50 سالہ خاتون کو ایک ماہ بعد ضمانت ملی تھی۔ عدالت کو اسے مجرم قرار دینے میں چار سال لگے، اور آخر کار اسے صرف ایک ہزار انڈین روپے کے جرمانے کے ساتھ چھوڑ دیا گیا۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.