میرے پاؤں میں چوٹ لگی تو میں ایک وقت کی روٹی سے بھی مجبور ہو گیا کیونکہ کماتا تو کھاتا نہ۔ یہ الفاظ ہیں ایک ایسی دیہاتی پاکستانی کے جو آج ارب پتی ہے۔ ہر غریب بچے کی طرح ذیشان نے بھی شاہانہ زندگی اور اچھی تعلیم کا خواب دیکھا، جسے پورا کرنے کیلئے یہ برطانیہ چلے گئے جہاں انہوں نے پڑھائی کے ساتھ ساتھ کام بھی کیا۔
مگر ایک دن فٹبال کھیلتے ہوئے ان کے پاؤں میں چوٹ لگ گئی اور یہ 1 سال کیلئے بستر پر آ گئے، ایسے میں انہوں نے آن لائن کام برطانیہ میں ڈھونڈنا شروع کیا، آتا کچھ نہ تھا تو خود ہی انٹرنیٹ پر مختلف ویڈیوز یا پھر کچھ ریسرچ کر لیا تو دیکھیں آج ان کی محنت رنگ لے آئی اور آج ان کا اپنے گاؤں میں ہی ایک انتہائی عالی شان محل نما گھر، 4 لگثرری گاڑیاں اور بہت کچھ ہیں۔
یہ کہتے ہیں کہ وقت بدل رہا ہے اور آہستہ آہستہ میں نے ان لوگوں کو بھی ڈالر کمانے پر لگا دیا ہے جو کبھی کھیتی باڑی کرتے تھے اور تو اور آج وہ لوگ بھی ڈالرز کی باتیں کرتے ہیں جو کبھی زکات لیا کرتے تھے اور آج حال یہ ہے کہ وہ زکات دیتے ہیں یہی نہیں ان کا کام انگلینڈ، آسٹریلیا اور دبئی جیسے بڑے شہروں میں ہے پھر بھی اپنے گاؤں کو نہ بھولے اور آج اس کا نقشہ ہی بدل دیا ہے، یہ بالکل شہر لگتا ہے۔
اس کے علاوہ ارب پتی ذیشان نے دوران انٹرویو یہ بھی بتایا کہ آن لائن کام ایس ہے کہ اس میں وقت بہت لگتا ہے اور آپ کو جلد بازی نہیں کرنی چاہیے کسی کام میں،بس تحمل مجازی کے ساتھ لگے رہنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ ایمازون، ڈیجیٹل مارکیٹنگ میں پاکستان کے بہت سے لڑکے لڑکیاں مجھے غیر ممالک میں کام کرتے نظر آتے ہیں۔
آخر میں آپکو یہ بھی بتاتے چلیں کہ انہوں نے اس راز پر سے بھی پردہ اٹھا دیا کہ ہماری قوم بہت ہی ذہین اور سمجھدار ہے اور اگر انہیں ٹریننگ ملے تو یہ کچھ ماہ یا پھر کچھ دنوں میں یہ کام سیکھ کر اپنی غربت کو ختم کر سکتے ہیں اور انہیں مجھ جتنا وقت سیکھنے میں نہیں لگے گا۔