روس کا افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا فیصلہ پاکستان سمیت خطے کے لیے کیا معنی رکھتا ہے؟

خیال رہے کہ سنہ 2021 میں متعدد ممالک نے افغانستان میں اپنے سفارتخانے بند کر دیے تھے۔ تاہم چین، متحدہ عرب امارات، ازبکستان اور پاکستان کے سفیر افغانستان میں موجود ہیں۔

روس افغانستان میں طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے تاہم اس اقدام کے بعد روس پر یہ تنقید بھی کی جا رہی ہے کہ جس گروہ نے سویت یونین سے جنگ کی، اب ماسکو نے ان کے ورثا سے ہی ہاتھ ملا لیا ہے۔

روس کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق صدر پوتن نے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کی تجویز پر افغانستان کی اسلامی امارت کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا جس کے بعد ماسکو میں افغان سفارت خانے کے ملازمین عمارت کی بالکونی میں آئے اور امارت اسلامیہ افغانستان کا پرچم بلند کیا۔

افغانستان میں طالبان نے تقریباً چار برس قبل امریکہ سمیت غیر ملکی افواج کے انخلا کے دوران کابل پر قبضہ کیا تھا اور اقتدار سنبھالا تھا۔

افغانستان کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کہتے ہیں کہ انھیں امید ہے کہ روس کا یہ اقدام دوسرے ممالک کے لیے بھِی ایک مثال بنے گا۔

خیال رہے کہ سنہ 2021 میں متعدد ممالک نے افغانستان میں اپنے سفارتخانے بند کر دیے تھے۔ تاہم چین، متحدہ عرب امارات، ازبکستان اور پاکستان کے سفیر افغانستان میں موجود ہیں۔

ماسکو
Getty Images
ماسکو میں افغان سفارت خانے کے ملازمین عمارت کی بالکونی میں آئے اور امارت اسلامیہ افغانستان کا پرچم بلند کیا

یاد رہے کہ دیگر ممالک طالبان حکومت کو اس کے سخت شرعی قوانین اور خواتین کی تعلیم پر پابندی جیسے معاملات کے سبب تسلیم کرنے میں ہچکچا رہے ہیں۔

ماسکو اور کابل کے تعلقات کی تاریخ

روس وہ پہلا ملک تھا جس نے 2022 میں طالبان حکومت کے ساتھ اقتصادی معاہدہ کیا تھا اور افغانستان کو تیل، گیس اور گندم بھیجنے کی حامی بھری تھی۔

رواں برس اپریل میں روس نے دہشتگرد تنظیموں کی فہرست سے طالبان کا نام حذف کر دیا تھا۔

روسی صدر ولادیمیر پوتن نے گذشتہ برس جولائی میں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں طالبان کو اپنا ’اتحادی‘ قرار دیا تھا۔ طالبان کے نمائندے سنہ 2018 سے ماسکو کے دورے کر رہے ہیں۔

تاہم دونوں ممالک کے درمیان تعلقات ماضی میں پیچیدہ رہے ہیں۔ سویت یونین نے 1979 میں افغانستان پر حملہ کیا تھا، جس کے بعد نو برس تک جاری جنگ میں 15 ہزار روسی ہلاک ہوئے تھے۔

سویت یونین نے کابل میں اپنی حمایت یافتہ حکومت قائم کرنے کی کوشش کی تھی جس کے سبب اسے دنیا بھر میں مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

روس کے اس فیصلے سے پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟

آصف درانی
BBC
افغانستان کے لیے پاکستان کے سابق نمائندہ خصوصی آصف درانی نے بی بی سی کو بتایا کہ روس کا کابل میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں

افغانستان کے لیے پاکستان کے سابق نمائندہ خصوصی آصف درانی نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ روس کا کابل میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ ان کے مطابق ’اگر نام نہاد دولت اسلامیہ سے وابستہ شام کا سربراہ بن سکتا ہے تو پھر طالبان کی تو ایسی تاریخ بھی نہیں ہے۔‘

آصف درانی کا کہنا ہے کہ پاکستان اور چین نے بھی کابل میں سفیر تعینات کر کے اس طالبان حکومت کو تسلیم کر رکھا ہے۔

واضح رہے کہ بیجنگ میں سہ ملکی مذاکرات کے بعد پاکستان نے کابل میں اپنے ناظم الامور کو سفیر کا درجہ دے دیا اور جواب میں کابل نے بھی اسلام آباد میں اپنے سفیر کا اعلان کر دیا۔

سید ابرار حسین کابل میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ روس کی طرف سے طالبان کی حکومت کو باقاعدہ تسلیم کرنے سے ایک ’ٹرینڈ‘ سیٹ ہوگا اور دیگر ممالک بالخصوص مشرق وسطیٰ کے ممالک اب کابل سے تعلقات معمول پر لے کر آئیں گے۔

ان کی رائے میں اس خطے کے ممالک کا مل کر چیلنجز کا حل تلاش کرنا اہمیت کا حامل ہے۔

ابرار حسین کے مطابق خطے کے ممالک کو افغانستان سے دو طرح کے مسائل کا سامنا ہے: ’ایک دہشتگردی اور دوسرا منشیات کی سمگلنگ۔‘

ان کی رائے میں ’اب پاکستان اور چین خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر طالبان حکومت کو قائل کرنے کی کوشش کریں گے کہ وہ دہشتگردی کے خلاف ٹھوس اقدامات اٹھائے تاکہ خطے میں امن کی فضا قائم ہو سکے۔‘

ان کی رائے میں ’اگر طالبان حکومت کی استعداد بڑھانی ہوگی یہ ممالک اس میں کابلکی مدد بھی کر سکتے ہیں جیسے انٹیلیجنس شیئرنگ وغیرہ۔‘

تاہم انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ اس وقت اقوام متحدہ کی طالبان رہنماؤں پر پابندیوں کے ہوتے ہوئے کوئی ملک طالبان کی مالی اور فوجی مدد فراہم نہیں کر سکتا۔ ان کی رائے میں ’مغرب کو طالبان سے انسانی حقوق، خواتین کی تعلیم، ملازمت اور اور نمائندہ حکومت سازی نہ کرنے جیسے شکوے ہیں۔‘

اسلام آباد اور کابل کے درمیان دہشتگردی جیسے مسائل پر آصف نے تبصرہ کیا کہ ’اب اس طرح کے معاملات کا حل تلاش کرنے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے کیونکہ یہ کوئی بجلی کا بٹن نہیں ہے کہ فوراً ہی سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘

جمعرات کو پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے کہا تھا کہ سکیورٹی فورسز نے شمالی وزیرستان کے علاقے میں افغانستان کی سرحد سے پاکستان میں دراندازی کرنے کی کوشش کرنے والے 30 شدت پسندوں کو ہلاک کر دیا ہے۔

اس ضمن میں جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ ’دو اور تین جولائی کی درمیانی شب شدت پسندوں کے ایک بڑے گروہ کی افغانستان، پاکستان سرحد پر نقل و حرکت نوٹس کی گئی، یہ شدت پسند پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔‘

اس کارروائی کے بعد پاکستانی فوج نے أفغانستان کی عبوری حکومت پر زور دیا کہ وہ ’پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے ’غیر ملکی پراکسیز‘ کے ذریعے افغان سرزمین کے استعمال کو روکیں۔‘

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’پاکستان کی سکیورٹی فورسز ملک کی سرحدوں کے دفاع اور ’پاکستان سے انڈین سپانسرڈ دہشت گردی کو ختم کرنے کے اپنے عزم میں غیر متزلزل ہیں۔‘ افغانستان یا انڈیا نے فی الحال اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

Kabul, Pakistan
Getty Images
سکیورٹی امور کے تجزیہ کار عامر رانا کے مطابق ’اگر چین اور پاکستان مل کر طالبان کو القاعدہ اور ٹی ٹی پی جیسے گروہوں سے دوری اختیار کرنے پر راضی نہیں کر سکے تو اب روس ایسا کیا کر لے گا کہ طالبان یہ بات مان جائیں‘

’روس نے مسلسل سفارتی ناکامیوں کے بعد یہ اقدام اٹھایا ہے‘

سکیورٹی امور کے ماہر عامر رانا نے بی بی سی کو بتایا کہ روس نے یوکرین، ایران اور شام م میں پے درپے سفارتی ناکامیوں کے بعد یہ اقدام اٹھایا ہے۔

ان کی رائے میں ان عالمی واقعات اور جنگوں کی وجہ سے خود روس کی اپنی سفارتکاری بہت متاثر ہوئی ہے اور ’انھیں اب لگا کہ طالبان حکومت کو تسلیم کر کے مغربی اثرو رسوخ کو کم کرتے ہیں اور معاشی تعاون کی راہیں بھی کھولتے ہیں۔‘

تاہم عامر رانا کے مطابق ’روس کے اس فیصلے سے خطے پر کوئی زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔‘

ان کے مطابق ’اگر چین اور پاکستان مل کر طالبان کو القاعدہ اور ٹی ٹی پی جیسے گروہوں سے دوری اختیار کرنے پر راضی نہیں کر سکے تو اب روس ایسا کیا کر لے گا کہ طالبان یہ بات مان جائیں۔‘

وہ اس رائے سے متفق ہیں کہ ’اب یہ ممکن ہے کہ روس کے بعد مشرق وسطیٰ کے چند ممالک اور چین بھی طالبان حکومت کو باقاعدہ تسلیم کر لے۔‘

خطے کے دیگر ممالک سے متعلق بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ایران اس وقت کچھ افغان باشندوں کو جاسوسی کے الزامات میں گرفتار کر رہا ہے جس سے روس اور ایران میں اس وقت اس معاملے پر ہم آہنگی ممکن نہیں ہو سکے گی۔ تاہم خود طالبان نے اس بار اقتدار میں آ کر بہت حقیقت پسندانہ سفارتکاری کی ہے اور خطے میں انڈیا سے بھی اچھے تعلقات قائم کیے ہیں۔‘

عامر رانا کے مطابق ’طالبان اور شام کی نئی حکومت کی قابل ذکر خصوصیات میں عملی سفارت کاری، نظریاتی ابہام، اور بدلتے ہوئے جغرافیائی سیاسی منظر نامے میں خود کو تبدیل کرنے کی خواہش ہے۔‘

انکی رائے میں حزب التحریر شام کے برعکس طالبان نے اپنے آپ کو ان عسکریت پسند گروپوں سے دور نہیں کیا جو کبھی نیٹو افواج کے خلاف ان کے شانہ بشانہ لڑتے تھے۔

’بلکہ وہ ان گروپوں کو منظم کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، انھیں پاکستان کے خلاف چُن چُن کر استعمال کرتے ہیں۔ شاید طالبان کی قیادت پراکسی کی پائیدار افادیت سے آگاہ ہے کہ کیسے ایسے واقعات میں کسی کردار کو تسلیم کیے بغیر مخالفین پر دباؤ ڈال کر مطالبات تسلیم کرائے جا سکتے ہیں۔‘

ان کے مطابق ’پاکستان اور ایران کسی بھی دوسرے ملک یا گروہ سے زیادہ اس طرح کے انتظامات کے خطرات کو سمجھتے ہیں۔ پراکسی گروہ صرف ایک نقطہ تک سٹریٹجک مقاصد کی تکمیل کر سکتی ہیں مگر اس کے بعد پھر وہ اپنے ایجنڈے پر چل پڑتے ہیں۔‘

آصف درانی کے مطابق ’پاکستان کی تمام تر کوششوں کے باوجود بھی اگر بات چیت اور مذاکرات سے بھی اس طرح کے مسائل حل نہ ہوئے تو پھر ’کابل میں ہلچل ہونے میں کون سی دیر لگتی ہے؟‘


News Source

مزید خبریں

BBC
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts