حیدرآباد میں بچے کی ہلاکت :آوارہ کتوں کو تلف کردیں یا نہیں، انڈیا میں بحث

حیدرآباد میں دل دہلا دینے والے واقعے کے بعد آوارہ کتوں پر سوال

انڈیا کے شہر حیدرآباد میں ایک دردناک واقعہ میں چار سالہ بچے کو آوارہ کتوں نے کاٹ کر مار ڈالا۔ یہ واقعہ سی سی ٹی وی میں بھی ریکارڈ ہوگیا۔ بچے کے والد چوکیدار کی نوکری کرتے ہیں۔ وہ اپنے دونوں بچوں کو اپنے کام پر ساتھ لے گئے تھے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ ڈیوٹی کر رہے تھے اور ان کا بیٹا قریب ہی کھیل رہا تھا، جب انہوں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ وہ صرف پانچ منٹ میں واپس آتے ہیں۔

جب وہ واپس آئے، تو انہونی ہو چکی تھی۔ اتوار کی چھٹی کی وجہ سے آس پاس کوئی نہیں تھا۔ ماں گھر پر تھی۔ جب تک بچہ ہسپتال پہنچا، اس کی موت ہو چکی تھی۔ لواحقین نے اس واقعہ پر پولیس میں شکایت درج نہیں کرائی ہے۔

واقعے کی ویڈیو ایسی ہے کہ دیکھنے والے کو جھنجوڑ کر رکھ دے ۔ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے مطابق حیدرآباد میں تقریباً چھ لاکھ آوارہ کتے ہیں۔

اس سے قبل ریاست اتر پردیش کے سہارنپور سے بھی ایسی ہی خبریں آئی تھیں۔

انڈیا میں آوارہ کتوں کے حملوں کے واقعات دنیا میں سب سے زیادہ ہیں۔ ایک اعداد و شمار کے مطابق انڈیا میں چھ کروڑ سے زیادہ آوارہ کتے ہیں۔

انڈیا میں ہر سال تقریباً دو کروڑ لوگوں کو جانور کاٹتے ہیں ۔ ان میں سے 92 فیصد کیس کتے کے کاٹنے کے ہوتے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ڈبلیو ایچ او کے مطابق، دنیا میں ریبیز سے ہونے والی 36 فیصد اموات انڈیا میں ہوتی ہیں۔یعنی ہر سال 18,000 سے 20,000 لوگ ریبیز کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔

ہر سال ریبیز کے 30 سے 60 فیصد کیسز اور اموات میں 15 سال سے کم عمر کے بچے شامل ہوتے ہیں۔ویکسین کی مدد سے ریبیز کی وجہ سے ہونے والی موت سے بچا جا سکتا ہے۔ یہ ویکسین ہر جگہ دستیاب ہے۔ 2030 تک ریبیز سے اموات کا ہدف صفر ہے۔

دلی، بنگلور، میرٹھ، گروگرام، پنجاب، نوئیڈا، ممبئی، پونے، بجنور – جیسے شہروں کے ساتھ ساتھ ملک کے کونے کونے سے ایسی خبریں آرہی ہیں۔ گزشتہ سال بہار کے بیگوسرائے میں آوارہ کتوں نے ایک خاتون کو ہلاک کر دیا تھا۔

اطلاعات کے مطابق ان کے شوہر نے بیان دیا کہ میرا دیوی کھیت سے واپس آرہی تھیں کہ کتوں نے ان پر حملہ کردیا۔مقامی صحافی ماروتی نندن کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں کتوں کا ایک ٹولہ سرگرم تھا، جس کے حملے میں نو افراد ہلاک ہو گئے۔

بعد میں محکمہ جنگلات نے کتوں کے اس ٹولے کو تلف کردیا تھا۔

2001 کے ایک قانون کے تحت انڈیا میں کتوں کو مارنا ممنوع ہے اور ملک میں آوارہ کتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

آوارہ کتے کیوں حملہ کرتے ہیں؟

کتے عموماً ملنسار ہوتے ہیں لیکن آوارہ کتوں کی کہانی کچھ مختلف ہے۔ انہیں کھانے کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا پڑتا ہے اور کھانے کا یہ مقابلہ ان کی فطرت پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ ٹریفک کا شور، عام لوگوں کی سڑکوں پر کچرا پھینکنے کی عادت، تیز چمکتی روشنیاں جیسی وجوہات بھی ان کی فطرت کو متاثر کرتی ہیں۔

بعض اوقات یہ آوارہ کتے ایک گروپ میں رہتے ہیں اور یہ خطرناک ہو سکتے ہیں۔

کیرالہ ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز یونیورسٹی کے ڈاکٹر شیبو سائمن کے مطابق کتوں کے حملے کے ہر واقعے کی اپنی وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن جب یہ کتے کچا گوشت کھاتے ہیں تو اس کا ذائقہ ان کی زبان پر آجاتا ہے اور وہ اس سے لطف اندوز ہونے لگتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’کچھ لوگ کتوں کو دیکھ کر بھاگنے لگتے ہیں۔ کتوں کو پیچھا کرنے کی عادت ہوتی ہے۔ اگر کتا آپ کو مضبوط سمجھے تو وہ آپ پر حملہ نہیں کر سکتا۔ کتے بچے اور بوڑھے لوگوں کا پیچھا کر سکتے ہیں .اسی لیے وہ حملہ کر تے ہیں‘۔

ان کا کہنا ہے کہ ہر کتا اپنا علاقہ رکھتا ہے، اب ایک طرف انسانی آبادی بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف کتوں کی تعداد بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے، ایسے میں ان کا علاقہ کم ہوتا جا رہا ہے۔ اب جب ان کے لیے اس علاقے کی حفاظت کرنا مشکل ہو جاتا ہے تو پھر کتے خود کو غیر محفوظ محسوس کرنے لگتے ہیں، انہیں لگتا ہے کہ انسان ان کے علاقے میں داخل ہو رہا ہے، پھر ایسی حالت میں وہ جارحیت پر اتر آتے ہیں۔

احتیاط ضروری ہے

ڈاکٹر سائمن نے خبردار کیا ہے کہ لوگوں کو صبح کی سیر کے دوران بہت محتاط رہنا چاہیے کیونکہ اگر ایک آوارہ کتا حملہ کرتا ہے تو دوسرے بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں۔

وہ مشورہ دیتے ہیں کہ آپ کو کسی آوارہ کتے کو نہیں چھیڑنا چاہیے اور نہ ہی کوئی ایسا اشارہ دینا چاہیے کہ آپ خوفزدہ ہیں۔

ڈاکٹر سائمن کہتے ہیں، ’کتے انسانوں پر انحصار کرنے والے جانور ہیں۔ وہ انسانوں کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں، اور اگر انسان ان کے ساتھ رہیں تو وہ اچھے جانور ہو سکتے ہیں۔ اسی لیے انسان کتے پالتے ہیں‘۔

انڈیا میں کتوں کے کاٹنے کے واقعات اور اموات کیوں زیادہ ہیں اور ان واقعات کے ذمہ دار آوارہ کتوں سے کیسے نمٹا جائے؟

اس بارے میں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سڑکوں سے آوارہ کتوں کو ہٹایا جائے، انہیں مار دیا جائے، جب کہ دوسروں کا کہنا ہے کہ ان کی تعداد کم کرنے کے لیے انہیں مارنا درست حل نہیں ہے۔ معاملہ کئی بار عدالتوں تک پہنچ چکا ہے۔

بہت سے لوگ اس مسئلے کا ذمہ دار آوارہ کتوں کو کھانا کھلانے کو بھی قرار دیتے ہیں۔

حالانکہ اینیمل ویلفیئر بورڈ آف انڈیا کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے سے کوئی کسی کو نہیں روک سکتا۔

1960 میں پریوینشن آف کرولٹی ٹو اینیملز (پی سی اے) ایکٹ منظور کیا گیا جس کا مقصد جانوروں پر ظلم کو روکنا تھا۔

ہیومن فاؤنڈیشن فار پیپل اینڈ اینیملز کی میگھنا یونیال کے مطابق، پی سی اے اور ریاستی میونسپل قوانین کے تحت، شہریوں کی حفاظت کے لیے آوارہ کتوں کو عوامی مقامات سے ہٹایا جا سکتا ہے یا مارا جا سکتا ہے۔

لیکن 2001 میں آوارہ کتوں کی تعداد کو بتدریج کم کرنے کے لیے حکومت نے اینیمل برتھ کنٹرول رولز بنائےجس میں آوارہ کتوں کی نس بندی اور ویکسینیشن کی بات کی گئی۔

کتوں کی فلاح و بہبود کی ذمہ داری ، جانوروں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور مقامی حکومتی اہلکاروں کو دی گئی۔

لیکن ناقدین ان قوانین کو کتوں کے کاٹنے کی تعداد میں اضافے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔

ان قوانین میں ان کتوں کو مارنے کی بات کی گئی ہے جو اتنے بیمار ہیں یا ان کا علاج نہیں ہو سکتا یا وہ اتنے زخمی ہیں کہ ان کا علاج نہیں ہو سکتا۔لیکن کتوں کی نس بندی اور ٹیکے لگانے اور انہیں واپس چھوڑنے کی بات بھی ہوئی۔

مسئلہ کیا ہے؟

فلمساز ریان لوبو نے ایک آرٹیکل میں لکھا کہ نئے قوانین کے تحت اگر کوئی کتا جس کا کوئی مالک نہ ہو اور وہ کسی بچے کو کاٹ بھی لے تو اسے قتل نہیں کیا جاسکتا بلکہ اسے ویکسین لگا کر سڑک پر چھوڑنا ہوگا۔

لوبو کے مطابق، 2001 کے یہ قوانین انسانوں اور جانوروں کے حقوق کو برابری کی بنیاد پر رکھتے ہیں، جو درست نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں، ’میرے پاس بھی کتے ہیں۔ وہ میرے خاندان کے افراد کی طرح ہیں، لیکن وہ انسان نہیں ہیں اور کوئی بھی ملک کتوں کے حقوق کو انسانی حقوق کے برابر نہیں کر سکتا۔ انسان عوامی مقامات پر کتوں کی موجودگی کو کنٹرول کر سکتا ہے اور ایسا کرنے کی ضرورت ہے‘۔

ڈاکٹر شیبو سائمن کا یہ بھی ماننا ہے کہ اے بی سی پروگرام اتنے بڑے ملک کی ضروریات کے لیے کافی نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’کتے پکڑنے والے وہ کسی علاقے کے تمام کتوں کو نہیں پکڑ سکتے‘۔نیبر ہوڈ ووف تنظیم کی عائشہ کرسٹینا 2001 کے قوانین کی حامی ہیں۔

ان کے مطابق مسئلہ قواعد میں نہیں بلکہ اس کے نفاذ اور وسائل کی کمی کا ہے۔

وہ کہتی ہیں، ’اے بی سی کو صرف مقامی حکام یا اتھارٹی پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اس لیے دیگر سٹیک ہولڈرز کو اس میں حصہ لینے کے لیے آگے آنا ہو گا۔ این جی اوز کو آگے آنا ہو گا۔ ‘

دونوں فریقوں کے درمیان فاصلہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے، جہاں میگھنا اونیال کے مطابق، عدالت اے بی سی قوانین میں اصلاحات کی سماعت کر رہی ہے۔

ڈاکٹر شیبو سائمن کے مطابق عام لوگوں کو آوارہ کتوں کو پالنے کے لیے معاشی ترغیب دے کر حوصلہ افزائی کی جا سکتی ہے اور اس سے سڑکوں پر آوارہ کتوں کی تعداد کم ہو سکتی ہے۔

کوئی ایک کتے کو گود لے سکتا ہے، لیکن بڑے کتے کو گود لینے کے اپنے عملی چیلنجز ہیں۔ بڑی عمر میں کتے کے لیے نئی جگہ بسنا آسان نہیں ہوتا۔ ان تمام بحثوں کے درمیان ایسے واقعات کا سلسلہ جاری ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.