عمران خان کے سیاسی کارکن سیاسی کم اور روحانی زیادہ ہیں۔ وہ اُن کے نظریے سے زیادہ اُن کی ذات سے پیار کرتے ہیں۔ عاشق لوگ خواب بہت زیادہ دیکھتے ہیں۔ محمد حنیف کی تحریر

عمران خان کے سیاسی کارکن سیاسی کم اور روحانی زیادہ ہیں۔ وہ اُن کے نظریے سے زیادہ اُن کی ذات سے پیار کرتے ہیں۔ عاشق لوگ خواب بہت زیادہ دیکھتے ہیں۔
پہلا خواب یہ تھا کہ ملک میں کوئی ایسا تھانیدار ہی پیدا نہیں ہوا جو عمران خان کو گرفتار کر سکے۔ تھانیداروں کا بھی تھانیدار پیدا ہوگیا۔ اُمید یہ تھی کہ فوج میں پھوٹ پر جائے گی۔ عمران خان کے مداح جنرل اُن کو واپس اقتدار میں لانے کی کوئی ترکیب کریں گے۔
اُن کے سب سے بڑے مداح جنرل کو ایک طویل کورٹ مارشل کا سامنا ہے۔ باقی جرنیلوں میں سے ایک فیلڈ مارشل ایسا نکلا ہے جس کے بارے میں آپ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں، یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ عمران خان کا مداح ہے۔
مزید خبروں کے لیے بی بی سی اردو کے واٹس ایپ چینل کا رُخ کریں!
پھر کچھ دیر کے لیے یہ خیال آیا کہ ہم ایک سیاسی جماعت ہیں، ہم احتجاج کریں گے۔ جب سر پر کفن باندھے عاشقان اسلام آباد کا رخ کریں گے تو اڈیالہ جیل کے دروازے کُھل جائیں گے۔
عاشقان ڈنڈے کھا کر بندوق دیکھ کر گھروں کو واپس چلے گئے اور فی الحال دوبارہ ڈنڈے کھانے کے موڈ میں نظر نہیں آتے۔ اگر کسی کو عدلیہ سے اُمید تھی تو وہ واقعی معصوم عاشق تھے۔
میڈیا عمران خان کو نہ قید کروا سکتا تھا، نہ چھڑوا سکتا ہے۔ جو باغی یوٹیوبر تھے انھوں نے یا تو توبہ کر لی یا پردیسں جا کر انقلاب کے خواب بیچنے شروع کر دیے۔
بیرونِ مُلک پاکستانیوں کو عمران خان اپنا اثاثہ سمجھتے تھے۔ انھوں نے پیچھے مُڑ کر دیکھنے کی بجائے سیدھا امریکی صدر ٹرمپ کے دروازے پر دستک دی۔ ٹرمپ نے عمران خان کو رہا کروانے کی بجائے سب تھانیداروں کے تھانیدار کو کھانے کی دعوت دی اور کہہ دیا کہ یہ جنرل تو بڑا زبردست آدمی ہے۔
'اب تیرے پیار میں رُسوا ہو کر جائیں کہاں دیوانے لوگ' والی کیفیت تھی تو ایک اور خواب دیکھا گیا ہے۔
ایک ڈراؤنا خواب وہ یہ کہ نواز شریف اڈیالہ جیل میں اُن سے ملاقات کریں گے۔ جس شخص کو نااہل کروا کر، جس کے خلاف دھرنے دے کر، جس کو 'چور چور' کہہ کر عمران خان وزیراعظم بنے، وہ اڈیالہ جیل کے اپنے سیل میں نواز شریف سے ملیں گے؟
ویسے تو نواز شریف کے بارے میں بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ ووٹ کو عزت دلوانے نکلے تھے لیکن اپنی سیاست سے فارغ ہو کر گھر بیٹھ گئے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انھوں نے گھاٹے کا سودا نہیں کیا۔ بھائی وزیر اعظم ہے، بیٹی پنجاب کی وزیر اعلیٰ ہے۔ خود کسی کی فاتحہ خوانی پر نظر آ جاتے ہیں، کبھی لندن اپنا میڈیکل چیک آپ کروانے چلے جاتے ہیں۔
وہ کئی دہائیوں تک گوالمنڈی کے شہزادے تھے۔ اب کبھی انھیں وہاں سے بھی پیار سمیٹتے نہیں دیکھا۔ انھیں نکلوانے والے سپہ سالار قمر جاوید باجوہ تھے۔ وہ بھی اپنے آبائی شہر کی گلیوں میں نہیں گھومتے۔
اگر عمران خان اپنے جیل کے سیل میں تنہا ہے تو اُس کو لانے والے، پھر نکالنے والے، اُس کو جیل میں ڈالنے والے اور بقول پی ٹی آئی کے اُن کا مینڈیٹ چُرانے والے، آزاد رہتے ہوئے بھی سیاسی تنہائی کا شکار ہیں۔
روایتی سوچ یہ ہے کہ اگرچہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ بہت طاقتور ہے لیکن اس کے پاس کسی عوامی لیڈر کو جیل میں طویل عرصے تک بند رکھنے کے صلاحیت نہیں ہے۔

عوامی لیڈر کو کُچھ عرصہ تک تو جیل میں رکھا جا سکتا ہے لیکن پھر اُسے یا تو صفحہ ہستی سے مٹانا پڑتا ہے یا جلاوطن کرنا پڑتا ہے اور اکثر پھر دوبارہ اقتدار میں لانا پڑتا ہے۔
نواز شریف دائرے کا یہ سفر تین مرتبہ کر چکے ہیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ عمران خان کو یہی بتا سکتے ہیں کہ آج جو تمہارے ساتھ ہو رہا ہے، میرے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔
عمران خان کا جواب تو عمران خان ہی جانتے ہیں لیکن اُن کے حامی پہلے سے ہی کہہ رہے ہیں کہ نہ ہمارے لیڈر کا بھائی جس کو وہ وزیراعظم بنوائے، نہ اُس کی کوئی بیٹی جو پنجاب پہ راج کرے گی۔
لیکن عاشقوں کو خواب دیکھنے سے کوئی نہیں روک سکتا، ایک خواب یہ بھی ہے کہ نواز شریف اڈیالہ جیل جائیں اور پھر عمران خان کا ہاتھ پکڑ کر جیل کے دروازے سے برآمد ہوں اور اعلان کر دیں کہ آج سے عمران خان ہی میرا لیڈر ہے، یا کُچھ ایسا ہو جائے کہ نواز شریف اڈیالہ جائیں تو اُسی سیل میں بند کر دیے جائیں جس میں قیدی نمبر 804 بند ہے اور قیدی رہا ہو جائے اور مُلک پر پھر راج کرے۔
خواب دیکھنے پر فی الحال اس مُلک میں کوئی پابندی نہیں لیکن وہ نظام جو اپنے آپ کو ہائبرڈ کہتا ہے اُس میں اب یہ صلاحیت موجود ہے کہ ایک عوامی لیڈر کو طویل عرصے تک جیل میں بند رکھ سکے۔
ایک کے بعد دوسرا مقدمہ جیل میں ہی چلے، کون قیدی سے مل سکے اور کون نہیں، اور یہ سب کُچھ اس اُمید میں کہ آہستہ آہستہ عاشق اپنے معشوق کو بھولتے جائیں۔
ہجر کی رات اتنی طویل کر دی جائے کہ کسی کو صبحِ نو کی اُمید بھی نہ رہے۔ عاشق سرد آہیں بھرتے رہیں اور غالب کو یاد کرتے رہیں۔
عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب
دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہوتے تک