پی ایس ایل 2023: پاکستان اعظم خان کی دستک سن پائے گا؟

اگر اعظم خان کی کلائیوں میں وہ لچک موجود ہے جو ڈیڑھ سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے آتی گیند کو ایک جادوئی جھٹکے سے لانگ آن کی باؤنڈری سے پرے خلاؤں میں گم کر دے تو کسی کو ان کے وزن سے کیا دقت ہونی چاہیے؟
 اعظم خان
Getty Images

اگر اعظم خان کی کلائیوں میں وہ لچک موجود ہے جو ڈیڑھ سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے آتی گیند کو ایک جادوئی جھٹکے سے لانگ آن کی باؤنڈری سے پرے خلاؤں میں گم کر دے تو کسی کو ان کے وزن سے کیا دقت ہونی چاہیے؟

کچھ عرصہ پہلے جب معین خان ایک روز اعظم خان کے کمرے میں داخل ہوئے تو وہ کمرے کی دیوار دیکھ کر دم بخود رہ گئے جہاں اعظم نے وہ تمام ہتک آمیز القابات چپکا رکھے تھے جن سے انھیں پکارا جاتا رہا ہے۔ جب معین نے ان سے اس انتہائی اقدام کی وجہ جاننا چاہی تو اعظم نے جواب دیا کہ وہ ان تمام طعنوں سے نئی ہمت بٹورتے ہیں۔

کرک انفو کو دیے گئے اسی انٹرویو میں فاسٹ بولر سساندا مگالہ نے بھی بتلایا کہ جنوبی افریقی کرکٹ کلچر میں بھی فٹنس محض تیز دوڑنے سے ہی تعبیر کی جاتی ہے۔ اگر قومی ٹیم کے لیے انتخاب کا معاملہ محض برق رفتاری اور ایک مخصوص طرز کے جسمانی ڈھانچے سے مشروط کر دیا جائے تو کوئی بھلا اپنی ساخت کیسے بدل سکتا ہے۔

اگرچہ وراٹ کوہلی کی فٹنس روٹین اور فیٹ لیول دنیا بھر کے ایتھلیٹس کے لیے مشعلِ راہ ہونے چاہیں مگر یہ بھی ملحوظِ نظر رہنا چاہیے کہ ہر ایتھلیٹ اپنے جینیاتی رجحانات کے تحت ایک الگ ساخت رکھتا ہے اور بسا اوقات بہترین ڈائٹ پلاننگ بھی جینیاتی رجحانات کے سامنے ڈھیر ہو جاتی ہے۔ کیا ایسے میں کرکٹ کو نسلی اور صنفی امتیاز سے نکلنے کے بعد جسمانی امتیاز کی طرف دھکیل دینا مناسب ہو گا؟

کرکٹ نے ہر دور میں ابتداً تبدیلی کے سامنے مزاحمت کی ہے اور نئے تصورات و اختراعات کو قبول کرنے میں فراخ دلی سے کام نہیں لیا تاوقتیکہ تبدیلی کھیل کی ضرورت نہ بن جائے۔ اعظم خان، سساندا مگالہ، راحکیم کورنوال اور لزیل لی بھی نئے عہد کی کرکٹ میں طے شدہ فٹنس معیارات پہ سنجیدہ سوال اٹھا رہے ہیں۔

فٹنس ٹرینرز بجا طور پہ یہ دلیل لا سکتے ہیں کہ اگر انہی کرکٹنگ صلاحیتوں کے ہمراہ اعظم خان کے ڈھانچے پہ عضلات کا بوجھ کچھ کلو کم ہو تو وہ بیالیس گیندوں پہ ستانوے کی بجائے ایک سو چالیس رنز بنا سکتے تھے لیکن کیا پاکستان کرکٹ کو گذشتہ تین سال سے پانچویں نمبر پہ اسی سٹرائیک ریٹ کی تلاش نہیں جو کل کی اننگز میں اعظم خان کا رہا۔

اعظم خان
Getty Images

ایک وقت تک تکنیک کے علاوہ سٹائل بھی سلیکشن کے لیے ایک اہم پیرایہ تصور کیا جاتا تھا لیکن پھر سٹیو سمتھ نے سٹائل کی بحث کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا۔ پیٹر ہینڈزکمب جیسے بلے بازوں کو موقع دے کر طے یہ پایا گیا کہ اگر کوئی کھلاڑی شائقین کی آنکھوں کو رونق بخشے بغیر بھی رنز کے انبار لگا سکتا ہے تو پھر سٹائل کا اچار ڈالنے کی کیا ضرورت ہے؟

پاکستان مگر پھر بھی اسی بحث میں پھنسا رہا اور حقیقت قبول کرتے کرتے ایک دہائی بیت گئی جب بالآخر مصباح الحق نے فواد عالم کو پاکستان کے لیے دوبارہ کھیلنے کا موقع دیا۔ حالانکہ یہ حقیقت اگر مصباح کی ریٹائرمنٹ پہ ہی تسلیم کر لی جاتی تو سبکدوش ہوتے وقت چیف سلیکٹر انضمام الحق کو اپنی نیک نیتی کی توجیہات نہ لانا پڑتی۔

جب ہر سمت سے اعظم خان پہ طعنہ زنی کے نشتر برسنے لگے اور عاقب جاوید جیسے چچاؤں نے بھی ان کی جسمانی ساخت کو کرکٹ کی مبادیات کے منافی قرار دے ڈالا تو انھوں نے اپنی کارکردگی سے ناقدین کو تشفی بخش جواب دینے کی کوشش کی۔ اور یہ کوشش شاندار رہی۔

کرکٹ کسی کی میراث نہیں ہے لیکن اگر یہ کسی کے خون میں ہو اور وہ اس کے بھرپور اظہار پہ بھی مہارت رکھتا ہو تو اس کی خاندانی شناخت اور جسمانی ساخت کو بیچ میں لانا کسی سرخ فیتے کی کاریگری تو ہو سکتی ہے، کھیل اور کھلاڑی سے انصاف نہیں ہو سکتا۔

اگر اعظم خان کی وکٹوں کے پیچھے درستی اور بلے بازی کی مہارت بین الاقوامی مسابقتی معیارات سے کم تر نہیں ہے تو سلیکشن میں بھی انھیں یکساں مواقع ملنا ضروری ہے۔ اگر یویوٹیسٹ اور فیٹ لیول ہی سلیکشن کے معیارات رہیں گے تو پاکستان کرکٹ ایک بار پھر دنیا سے پیچھے رہ جائے گی کیونکہ یو یو ٹیسٹ میں تو روہت شرما بھی کامیاب نہیں ہو پاتے۔

اوڈین سمتھ، محمد حسنین، نسیم شاہ اور محمد نواز جیسے بولرز کو یوں آسانی سے آڑے ہاتھوں لینا اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ بھانت بھانت کے طعنوں کو اب اعظم خان اپنی طاقت بنا چکے ہیں اور ایک بار پھر پاکستان کرکٹ کے دروازے پہ تبدیلی کی دستک دے رہے ہیں۔

کیا پی سی بی اس بار یہ دستک بروقت سن پائے گا؟


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.