ابو اسپتال میں تھے اور میں باہر کھڑا کانپ رہا تھا۔ یہ الفاظ ہیں مشہور اینکر یاسر شامی جنہیں عوام ان کے مزاح سے بھرپور انٹرویوز کی وجہ سے جانتی ہے۔
اس وقت ان کا ایک انٹرویو کلپ بہت وائرل ہو رہا ہے جس میں انہوں نے اپنی کامیابی کے پیچھے چھپی ایک دردناک کہانی سنائی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ میں ایک شرارتی لڑکا تھا، جو ہمیشہ دوستوں کے ساتھ گھومتا پھرتا رہتا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ اچانک مجھے ایک دن معلوم ہوا کہ ابو کی طبعیت شدید خراب ہو گئی ہے۔ انہیں اسپتال لے جایا گیا جہاں میں بھی پریشانی کے عالم میں بھاگتا ہوا گیا۔ اس وقت معلوم ہوا کہ ابو جی کی دل کی 3 شریانیں بند ہیں ان کا بائے پاس ہوگا۔
ڈاکٹر انہیں لے گئے، بائے پاس ہو گیا مگر اس رات ہمیں اسپتال میں ہی رکھا گیا لیکن آدھی رات کو اٹھا کر ڈاکٹرز نے مجھ کو کہا کہ آپ کے والد کی ایک شریان ٹھیک سے جڑی نہیں تو ان کا دوبارہ آپریشن کرنا ہو گا تو آپ ان کاغذات پر سائن کر دیں۔
اس وقت میں کانپ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ ابو کو کچھ ہو گیا تو گھر والوں کو کیا کہوں گا؟
کیونکہ وہ سب بھی اسپتال میں سو رہے تھے مگر میں نے اللہ کا نام لے کر سائن کیے۔
کسی کو نہیں بتایا 2 دن تک بھوکا پیاسا رہا ، بس اللہ پاک سے دعائیں کرتا رہا یا میرے مالک ابو کو مکمل صحت مند کر دے۔ اس کے بعد مجھے میری زمے داریوں کا احساس ہو گیا کیونکہ والد صاحب بیمار تھے تو گھر کا خیال رکھنا وغیرہ وغیرہ۔
اس کے بعد میں نے ڈیلی پاکستان میں کام شروع کر دیا تو پھر کبھی پیچھے مڑ کے نہیں دیکھا ، آہستہ آہستہ دولت آتی گئی تو والدین کا ہر خواب پورا کیا، امی کو سونے کا شوق تھا تو زیور بنوا کر دیا۔ ابو بہت سادہ مزاج کے انسان ہیں مگر ان کیلئے نئے نئے کپڑے بنوا دیتا ہوں جبکہ وہ مجھے کہتے ہیں کہ تو خرچہ نہ کیا کر زیادہ۔
یہاں آپکو بتاتے چلیں کہ یاسر کے والد مشہور صحافی مجیب الرحمان شامی صاحب ہیں جبکہ ان کی جان سے پیاری والدہ کچھ ماہ پہلے انتقال کر گئیں تو یہ بالکل ٹوٹ گئے۔ گھر سے روتے روتے ہی قبرستان گئے اور کہا کہ اب میری کامیابیاں کون دیکھے گا؟کس کی گود میں سر رکھ کر سویا کروں گا۔ میرا تو سب کچھ ختم ہو گیا۔