بہت سے لوگ جو سونے کے زیورات خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے وہ اب آرٹیفیشل جیولری استمعال کر رہے ہیں۔ جیولری آرٹسٹ خدیجہ کا کہنا ہے کہ آرٹیفیشل زیورات کے کاروبار میں اس قدر اضافہ ’تین سال میں پہلی بار دیکھا ہے۔‘
جیولری آرٹسٹ خدیجہ کہتی ہیں کہ حالیہ دور میں آرٹیفیشل زیورات کا ٹرینڈ بڑھ رہا ہےاپنی شادی پر سونے کے زیورات پہننا اکثر خواتین کی خواہش ہوتی ہے مگر موجودہ حالات میں یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔
چاہے آپ مستقبل کی پلاننگ کی خاطر سونے کے بسکٹ خریدنا چاہیں یا شوق کے لیے زیورات بنوانا چاہیں، حقیقت یہی ہے کہ اب پاکستان میں سونا خریدنا اکثریت کی پہنچ سے بہت دور ہے۔
روپے کی قدر میں کمی اور معاشی بحران کے باعث گذشتہ ایک سال میں سونے کی فی تولہ قیمت میں ایک لاکھ روپے کا اضافہ ہوا اور یوں سونے کی فی تولہ قیمت دو لاکھ روپے سے تجاوز کر گئی۔
تو پھر اپنی شادی پر سونا کیسے خریدیں؟ مہوش شہزاد، جو پیشے کے لحاظ سے ٹیچر ہیں، بھی اسی مشکل سے گزری ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’پانچ سال سے پیسے جوڑ رہی تھی کہ شادی پر سونے کا سیٹ خریدوں گی اور اب جب شادی ہونے والی ہے تو جو پیسے جوڑے ہیں، اُس میں سیٹ بھی نہیں آ رہا۔‘
بی اے کے بعد ایک پرائیوٹ سکول میں پڑھانے والی مہوش مڈل کلاس گھرانوں کی ان لڑکیوں کی طرح ہیں جو اپنے والدین پر شادی کے زیورات کا بوجھ نہیں ڈالنا چاہتیں مگر سونے کی بڑھتی قمیت کے باعث اُن کا گولڈ جیولری کا خواب پورا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔

شادیوں کے علاوہ خوشی کے کسی موقع پر بھی سونے کے زیورات تحفے میں دینا ایشیائی کلچر میں عام سی بات ہوا کرتی تھی۔ کئی لوگ تو اپنے بچوں کی پیدائش کے وقت ہی اُن کی شادی میں سونے کے زیوارات دینے کے لیے پیسے جمع کرنے لگتے ہیں۔
مہوش کا کہنا ہے کہ اُن کے والد کی وفات اُن کے بچپن میں ہو گئی تھی اور اُن کی والدہ کو بس یہی پریشانی تھی کہ اُن کی شادی جس گھرانے میں طے ہوئی ہے اُن کو سونے کے زیورات اور جہیز اُسی معیار کا ملے۔
’میرا رشتہ جب طے ہوا تو والدہ نے پانچ سال کا وقت مانگا کیونکہ اُس وقت میں ایف ایس سی میں تھی اور امی کو بس یہی فکر تھی کہ وہ شادی کے زیور کے لیے پیسے کہاں سے لائیں گی۔‘
سونے کی بڑھتی قیمتوں کے باعث آرٹیفیشل یا مصنوعی جیولری کی مانگ میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔
بہت سے لوگ جو سونے کے زیورات خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے وہ اب آرٹیفیشل جیولری استمعال کر رہے ہیں۔ مہوش بھی پانچ سال پیسے جوڑنے کے باوجود منہگائی کی وجہ سے اب آرٹیفیشل جیولری شادی پر خریدنے کا سوچ رہی ہیں۔ اس ضمن میں وہ جیولری آرٹسٹ خدیجہ حسن سے بات کر رہی ہیں۔
آرٹیفیشل جیولری بنانے والی ماہر خدیجہ کا کہنا ہے کہ اُن کے پاس صرف جنوری میں برائیڈل جیولری کے پچاس سے زیادہ آرڈر آئے تاہم وہ کوالٹی اور وقت کی کمی کی وجہ سے صرف پچیس بنا سکیں۔ مہوش کا آرڈر بھی اُنھی میں سے ایک ہے۔
مہوش نے خدیجہ سے بات کرنے کے بعد سونے کا سیٹ بنانے کا خواب چھوڑ دیا کیونکہ اُن کو سمجھ آ گئی کہ شادی پر آرٹیفیشل جیولری پہننے میں کوئی حرج نہیں۔
’میں نے اپنی والدہ کو بتایا کہ سونا خریدنا اب میرے بس میں نہیں اور اگر سونا خریدا تو شادی کیسے کروں گی؟ اس لیے میں اب شادی پر آرٹیفیشل جیولری پہنوں گی۔‘
یہ بھی پڑھیے
پاکستان میں شادی کرنے کے لیے آپ کو کتنے پیسے چاہیے ہیں؟
حق مہر: ایک منفرد پاکستانی شادی جس میں دلہن نے رقم نہیں، ’ایک لاکھ روپے کی کتابیں‘ طلب کیں

سونے کی قیمتوں میں اضافے کے بعد کئی خواتین ایسی بھی ہیں جنھوں نے اپنے بیٹوں کی شادی پر لڑکی والوں کو دینے کے لیے آرٹیفیشل جیولری خریدنا شروع کر دی ہے۔
امتیاز نے بھی اپنے پہلے بیٹے کی شادی میں آرٹیفیشل جیولری بہو کو تحفے میں دی۔ امتیاز کے تین بیٹے ہیں، اُن کے شوہر سرکاری ملازم ہیں۔
امتیاز نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا ’جب بیٹے کی شادی کرتے ہیں تو لڑکی کو بھی تحفے میں سونے کے زیورات دینے پڑتے ہیں۔ آج کل جو حالاات چل رہے ہیں، اس میں سونے کے زیورات خریدنا مڈل کلاس سے تعلق رکھنےوالوں کے لیے بہت مشکل ہے۔‘
امتیاز کے مطابق رواں سال جب وہ شادی پر گئیں تو اُنھوں نے دیکھا کہ لڑکی نے سونے کی جگہ آرٹیفیشل جیولری پہنی ہوئی تھی تو اُن کو اندازہ ہوا کہ دلہنیں اب سونے کی جگہ آرٹیفیشل جیولری کا زیادہ استعمال کر رہی ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’میں نے دو سیٹ آرٹیفیشل جیولری کے بنوائے ہیں جس کے لیے میں نے ایک آن لائن جیولری آرٹسٹ سے رابطہ کیا۔‘
امتیاز کا ماننا ہے کہ موجودہ حالات میں گئے زمانے کی رسموں کو زندہ رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔
ایک طرف اگر سونے کی خریداری میں کمی آئی ہے تو ساتھ ہی آرٹیفیشل جیولری کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے جس سے آرٹیفیشل جیولری بنانے والے افراد کے کاروبار کو کافی وسعت ملی ہے۔

سوشل میڈیا پر آئے دن ایسے کئی پیجز سکرول کرتے ہوئے اکثر جیولری کے ایڈز نظر آتے ہیں اور نہ چاہتے ہوئے بھی خواتین اس کو کھول کر دیکھنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔
خدیجہ حسن نے بھی کورونا کی عالمی وبا کے دوران اپنا کاروبار شروع کیا اور تین سال بعد اُن کو اس کاروبار میں ایسی کامیابی ملی جس کا اُنھوں نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔
آغاز میں انھوں نے سوشل میڈیا پر اپنے پیج بنائے کیونکہ ’مجھے اندازہ تھا کہ لوگ باہر شاپنگ کے لیے نہیں جاتے۔
’مگر گذشتہ ایک برس سے جب سے سونے کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، میرا کام پہلے سے ڈبل ہو گیا۔‘
خدیجہ کا کہنا ہے کہ کندن جیولری کے کاروبار میں اس قدر اضافہ ’تین سال میں پہلی بار دیکھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کندن کے بنے ہوئے زیورات سونے کی مانند لگتے ہیں اور آج کل دلہنیں زیادہ اسی کو پہنتی ہیں۔‘
تو اگر کندن جیولری کی بات کی جائے تو اس کی قیمت بھی کافی زیادہ ہوتی ہے اور اس کو بنانے میں بھی کافی وقت درکار ہوتا ہے۔
خدیجہ کا کہنا ہے کہ کندن جیولری کے لیے خام مال آسانی سے دستیاب تو ہے مگر اُس کا معیار اچھا نہیں۔
’جب میرے پاس کوئی آرڈر آتا ہے تو اُن کی ڈیمانڈ ہوتی ہے کندن کا ایسا سیٹ چاہیے جس کا رنگ خراب نہ ہو۔ ایسے میں مجھے بہترین خام مال استعمال کرنا پڑتا ہے۔ میں آن لائن سیلرز سے امپورٹڈ چیزیں لیتی ہوں اس لیے کندن جیولری کی قیمت زیادہ ہوتی ہے۔‘
خدیجہ نے بتایا کہ اُن کے پاس اب اتنے زیادہ آرڈر آتے ہیں جنھیں سنبھالنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس لیے وہ صرف اتنے آرڈر قبول کرتی ہیں جتنے وقت پر بنا کر پہنچا سکیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’میں چاہوں تو لاکھوں روپے کما سکتی ہوں مگر میں صرف اُتنے آرڈر لیتی ہوں جس میں اپنے کام کا معیار قائم رکھتے ہوئے وقت پر دے سکوں۔‘
خدیجہ نے بتایا کہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ سونے کے سیٹ بنوا سکیں مگر ’میری کوشش ہوتی ہے کہ میں ان کو ہو بہو نقل بنا کر دے سکوں جو دیکھنے میں اچھا بھی لگے اور ان کے اوپر مالی بوجھ بھی نہ پڑے۔‘