عمران خان کی گرفتاری کا سن کر کمرہ عدالت میں موجود فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے کمرہ عدالت کی کھڑکی کا شیشہ کھول کر باہر موجود وکلا سے کہا کہ وہ اس واقعہ پر احتجاج کریں تو اسی دوران ان کے بھائی فواد چوہدری ان کا ہاتھ پکڑ کر لے گئے اور کہا کہ ’عمران پھڑیا گیا ایہے چل آ جا‘ اور یہ کہہ کر وہ اپنی کرسی پر بیٹھ گئے۔
رینجرز اہلکار عمران خان کو اس گاڑی میں گرفتار کر کے لے گئےپاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کو منگل کے روز اسلام آباد ہائیکورٹ میں اداروں کے خلاف بیانات دینے اور پاکستان مسلم لیگ نون کے رکن قومی اسمبلی محسن شاہنواز رانجھا کو قتل کی دھمکیاں دینے کے مقدمے میں ضمانت میں توسیع کے لیے پیش ہونا تھا۔
مجھ سمیت سبھی رپورٹرز کمرہ عدالت میں موجود تھے اور یہی توقع کی جا رہی تھی کہ عمران خان جب عدالت میں آئیں گے تو عدالت اس مقدمات میں ان کی ضمانت میں توسیع کر دے گی۔
اس وقت کمرہ عدالت میں پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری اور ان کے بھائی فیصل چوہدری بھی موجود تھے اور ان سمیت دیگر رہنما بھی موجود تھے اور وہ کافی مطمئن تھے کہ چونکہ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے عمران خان کو سات مقدمات میں 23 مئی تک عبوری ضمانت دی ہے تو اسلام آباد ہائیکورٹ بھی ان دونوں مقدمات میں عبوری ضمانت میں توسیع کر دے گی۔
جب صحافیوں کو معلوم ہوا کہ عمران خان اس وقت بائیو میٹرک کروا رہے ہیں تو پھر کچھ شک سا گزرا کہ اب کس مقدمے میں انھوں نے ضمانت قبل از گرفتاری کروانی ہے کہ وہ بائیو میٹرک کروا رہے ہیں۔
ابھی چند ہی لمحے گزرے تھے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے کمرہ عدالت کے باہر موجود پولیس اہلکار نے بتایا کہ عدالت کی حدود میں واقع بائیو میٹرک کے دفتر کے باہر موجود پولیس اہلکاروں کو حملہ کر کے زخمی کر دیا گیا ہے۔
پہلے تو یہ بات ذہن میں آئی کہ ہو سکتا ہے کہ پی ٹی ائی کے کارکنوں نے حملہ کیا ہو لیکن یہ بات اسی پولیس اہلکار نے کلئیر کر دی کہ ان پولیس اہلکاروں کو کسی اور نے نہیں بلکہ رینجرز اہلکاروں نے تشدد کا نشانہ بنایا۔
پھر کچھ ہی دیر بعد یہ معلوم ہو گیا کہ رینجرز اہلکاروں نے سابق وزیر اعظم عمران خان کو گرفتار کر لیا ہے تاہم ان کی گرفتاری کے بارے میں فواد چوہدری کو بھی معلوم نہیں تھا کہ انھیں آخر کس مقدمے میں گرفتار کیا گیا ہے۔
عمران خان کی گرفتاری کے خلاف پی ٹی آئی کارکن مختلف شہروں میں احتجاج کر رہے ہیںبائیو میٹرک دفتر کے باہر موجود عدالتی عملے اور عینی شاہدین کے مطابق عمران خان کی گاڑی جب اسلام آباد ہائیکورٹ کے گیٹ پر پہنچی اور جونہی وہ گاڑی سے اترے تو انھیں ویل چیئر پر بیٹھا کر بائیو میٹرک کے دفتر تک پہنچایا گیا تاہم مذکورہ دفتر کے باہر عمران خان ویل چیئر سے اتر کر دفتر کے اندر گئے اور وہاں پر موجود عدالتی عملے نے اندر سے دروازہ بند کر دیا۔
ابھی ان کی بائیو میٹرک کا عمل مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ اسی دوران خاصی تعداد میں رینجرز اہلکار وہاں پہنچ گئے اور انھوں نے پہلے تو دورازہ کھٹکھٹایا اور جب دروازہ نہ کھولا گیا تو رینجرز اہلکاروں نے کھٹرکیوں کے شیشے توڑے اور پھر دفتر کا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہو گئے۔
عینی شاہدین اور عمران خان کے وکیل بیرسٹر گوہر کے مطابق جس وقت رینجرز اہلکار دفتر کے اندر داخل ہوئے تو انھوں نے پہلے آ کر سپرے کیا جس کی وجہ سے کمرے میں موجود افراد کی آنکھیں متاثر ہوئیں اور اسی دوران انھوں نے عمران خان کو گرفتار کرنے کی کوشش کی۔
انھوں نے کہا کہ عمران خان کی سکیورٹی پر موجود عملے نے کچھ مزاحمت کی جس پر رینجرز اہلکاروں نے انھیں تشدد کا نشانہ بنایا جس کے بعد رینجرز اہلکار عمران خان کو گرفتار کر کے لے گئے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ عمران خان کی سکیورٹی پر جتنے بھی لوگ تعینات تھے وہ فوج سے ریٹائرڈ کمانڈوزرہے ہیں۔
کچھ لوگ یہ باتیں بھی کر رہے تھے کہ دیکھیں عمران خان کتنی جلدی صحتیاب ہو گئے کہ ویل چیئر پر آئے اور اپنے پاؤں پر چل کر گئے۔
اس واقعے کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی عدالت کو اندر سے بند کر دیا گیا اور کسی کو اندر سے باہر اور باہر سے اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
عمران خان کی گرفتاری کا سن کر کمرہ عدالت میں موجود فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے کمرہ عدالت کی کھڑکی کا شیشہ کھول کر باہر موجود وکلا سے کہا کہ وہ اس واقعہ پر احتجاج کریں تو اسی دوران ان کے بھائی فواد چوہدری ان کا ہاتھ پکڑ کر لے گئے اور کہا کہ ’عمران پھڑیا گیا ایہے چل آ جا‘ اور یہ کہہ کر وہ اپنی کرسی پر بیٹھ گئے۔
اس واقعے کے بعد پولیس کی بجائے رینجرز نے اسلام آباد ہائیکورٹ کا چارج سنبھال لیا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے اس واقعے کا نوٹس لیا اور برہمی کا اظہار کیا اور انھوں نے اسلام آباد پولیس کے سربراہ کے علاوہ نیب کے حکام کو بھی طلب کیا ہوا ہے۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ عمران خان جب سات مقدمات میں ضمانت کے لیے جوڈیشل کمپلیکس پہنچے تھے تو وہاں پر سکیورٹی کے کوئی خاطر خوا انتظامات نہیں تھے تاہم وہاں پر عمران خان کے ساتھ آنے والے پی ٹی آئی کے کارکنوں کی تعداد کافی زیادہ تھی۔