روس افغانستان میں طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے اور اس اقدام پر طالبان کے مخالفین روس پر تنقید کر رہے ہیں۔ روس کی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ روسی حکومت افغانستان کے ساتھ ’انرجی، ٹرانسپورٹیشن، زراعت اور انفراسٹرکچر‘ کے شعبوں میں کام کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
روس افغانستان میں طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے اور اس اقدام پر طالبان کے مخالفین روس پر تنقید کر رہے ہیں۔
روس کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق پوتن نے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کی تجویز پر افغانستان کی اسلامی امارت کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا جس کے بعد ماسکو میں افغان سفارت خانے کے ملازمین عمارت کی بالکونی میں آئے اور امارت اسلامیہ افغانستان کا پرچم بلند کیا۔
طالبان نے تقریباً چار برس قبل امریکی سمیت غیر ملکی افواج کے انخلا کے دوران کابل پر قبضہ کیا تھا اور اقتدار سنبھالا تھا۔
أفغانستان کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کہتے ہیں کہ انھیں امید ہے کہ روس کا یہ اقدام دوسرے ممالک کے لیے بھِی ایک مثال بنے گا۔ یاد رہے کہ دیگر ممالک طالبان حکومت کو اس کے سخت شرعی قوانین اور خواتین کی تعلیم پر پابندی جیسے معاملات کے سبب تسلیم کرنے میں ہچکچا رہے ہیں۔
دیگر افراد نے روس کے اس اقدام پر تنقید کی ہے۔ سابق افغان سیاستدان فوزیہ کوفی کہتی ہیں کہ ’کسی بھِی ملک کی طرف سے طالبان کے ساتھ تعلقات نارمل کر لینے سے امن نہیں آئے گا بلکہ اس سے طالبان کی مزید حوصلہ افزائی ہوگی۔‘
فوزیہ کوفی نے خبردار کیا کہ ’ایسے اقدامات سے نہ صرف افغانستان کے عوام بلکہ عالمی سکیورٹی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔‘
سنہ 2021 میں روس ان ممالک میں سے ایک تھا جس نے طالبان کی حکومت بنتے وقت کابل میں اپنا سفارتخانہ بند نہیں کیا تھادوسری جانب افغان خواتین کے سیاسی حقوق کے لیے آواز اُٹھانے والی ایک تنظیم نے کہا ہے کہ ایسے اقدامات ’ایک آمرانہ، خواتین مخالف اور بنیادی حقوق سلب کرنے والی حکومت‘ کو قانونی حیثیت دینے کے مترادف ہیں۔
اس سے قبل طالبان کی حکومت کہہ چکی ہے کہ وہ افغانستان کے کلچر اور شرعی قوانین کے تحت خواتین کے حقوق کا احترام کرتی ہے۔
لیکن سنہ 2021 سے لے کر اب تک ملک میں 12 برس زیادہ عمر کی لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے اور خواتین کے ملازمت کرنے پر پابندیاں عائد ہیں۔ اس کے علاوہ خواتین کے اکیلے کسی مرد کے بغیر زیادہ دور تک سفر کرنے پر بھی پابندی عائد ہے۔
طالبان نے تقریباً چار برس قبل کابُل پر قبضہ کیا تھا اور اقتدار سنبھالا تھاافغانستان کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کہتے ہیں کہ روس کی جانب سے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے سے دونوں ممالک کے درمیان ’مثبت تعلقات، باہمی احترام اور تعمیری رابطوں کا ایک نیا دور شروع ہوگا۔‘
دوسری جانب روس کی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ روسی حکومت افغانستان کے ساتھ 'انرجی، ٹرانسپورٹیشن، زراعت اور انفراسٹرکچر' کے شعبوں میں کام کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور وہ دہشتگردی اور منشیات کی سمگلنگ کے خلاف جنگ میں کابل کی مدد جاری رکھے گی۔
سنہ 2021 میں روس ان ممالک میں سے ایک تھا جس نے طالبان کی حکومت بنتے وقت کابل میں اپنا سفارتخانہ بند نہیں کیا تھا۔
روس ہی وہ پہلا ملک تھا جس نے 2022 میں طالبان حکومت کے ساتھ اقتصادی معاہدہ کیا تھا اور افغانستان کو تیل، گیس اور گندم بھیجنے کی حامی بھری تھی۔
رواں برس اپریل میں روس نے اپنی دہشتگرد تنظیموں کی فہرست سے طالبان کا نام حذف کر دیا تھا۔
روسی صدر ولادیمیر پوتن نے گذشتہ برس جولائی میں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں طالبان کو اپنا ’اتحادی‘ قرار دیا تھا۔ طالبان کے نمائندے سنہ 2018 سے ماسکو کے دورے کر رہے ہیں۔
تاہم دونوں ممالک کے درمیان تعلقات ماضی میں پیچیدہ رہے ہیں۔ روس سویت یونین کا حصہ تھا جس نے 1979 میں افغانستان پر حملہ کیا تھا، جس کے بعد نو برسوں تک جاری جنگ میں 15 ہزار روسی ہلاک ہوئے تھے۔
سویت یونین نے کابل میں اپنی حمایت یافتہ حکومت قائم کرنے کی کوشش کی تھی جس کے سبب اسے دنیا بھر میں مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

افغان خواتین کے سیاسی حقوق کے لیے آواز اُٹھانے والی تنظیم نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ ’افغانستان کی تباہی میں روس کے کردار‘ کو نہیں بھولے ہیں۔
’آج بھی روس کی سیاسی مداخلت اور طالبان کے لیے حمایت اسی تباہی کے سلسلے کی ایک کڑی ہے اور یہ سب سفارتکاری کی چھتری تلے ہو رہا ہے۔‘
ماضی میں افغانستان مین بطور قومی سلامتی کے مشیر کام کرنے والے ڈاکٹر رنگین دادفر سپنتا نے روس کے فیصلے کو ’افسوسناک‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ: ’یہ صرف شروعات ہے، کسی بڑی مزاحمت کی عدم موجودگی میں دیگر ممالک بھِی روس جیسے اقدامات لیں گے۔‘
سنہ 2021 میں اقوامِ متحدہ نے افغانستان پر سخت پابندیاں عائد کی تھیں اور افغانستان کے نو ارب ڈالر کے اثاثے بھی منجمند کر دیے تھے۔
اقوام متحدہ نے کہا تھا کہ افغانستان میں خواتین پر عائد پابندیاں ’صنفی امتیاز‘ برتنے کی ایک مثال ہے اور ملک میں سابق سرکاری حکام کو کوڑے مارنے جیسے سزائیں دینے کی اطلاعات بھی سامنے آ رہی ہیں۔
دیگر ممالک نے طالبان کی حکومت کو تو تاحال تسلیم نہیں کیا ہے لیکن جرمنی کی وزارتِ داخلہ افغانستان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتی ہے تاکہ جرائم پیشہ افغان باشندوں کو ان کے ملک بھیجا جا سکے۔
اس سے قبل ابتدائی طور پر طالبان کی حکومت آنے کے بعد جرمنی نے افغان باشندوں کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ واپس لیا تھا۔
جمعے کو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق دفتر کی ترجمان نے ایک بیان میں کہا تھا کہ افغانستان میں ’انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی سلسلہ جاری ہے‘ اور ایسے میں لوگوں کو افغانستان بھیجنے کا فیصلہ ’غیرمناسب‘ ہے۔
خیال رہے کہ سنہ 2021 میں متعدد ممالک نے افغانستان میں اپنے سفارتخانے بند کر دیے تھے۔ تاہم چین، متحدہ عرب امارات، ازبکستان اور پاکستان کے سفیر افغانستان میں موجود ہیں۔