جنید جمشید 7 دسمبر 2016ء کو پی آئی اے کے طیارے میں سوار تھے جو چترال سے اسلام آباد آتے ہوئے حادثے کا شکار ہوگیا تھا، حادثے میں طیارے کے عملے سمیت 48 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ جنید جمشید کے انتقال کے وقت ان کے بچے چھوٹے تھے اور ابھی زمانہ علمی کے دور سے گزر رہے تھے۔ گھر کے اکیلے کفیل ان بچوں کے والد تھے جو دنیا سے چلے گئے تو بچوں اور گھر والوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
جنید جمشید کے دوسرے بیٹے بابر جنید ایک پوڈ کاسٹ میں اپنے والد کی موت کے بعد مشکلات کا بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ والد کے انتقال کے بعد ہم نے اپنا گھر بیچ دیا، ہمارے لیے اس مخصوص طرز زندگی کو برقرار رکھنا کافی مشکل ہو رہا تھا جوکہ ہمارے پاس اپنے والد کی زندگی میں تھا۔ بہت سے لوگوں کو ہمارا اپنے مالی معاملات کی بات کرنے پر لگتا ہے کہ ہم جھوٹ بول رہے ہیں لیکن ہمیں واقعی مالی مسائل سے گزرنا پڑا۔ انجان لوگ ہمارے گھر آنے لگے اور ہمارے والد کے قرض کے نام پر موٹی رقم کا مطالبہ کرنے لگے اور ہمیں ان لوگوں کے بارے میں کبھی علم ہی نہیں تھا تو ہم مطلوبہ رقم کیسے ادا کر سکتے تھے۔
بابر نے یہ بھی بتایا کہ ہمیں اپنے والد کے مالی معاملات، ان کے خیراتی اداروں اور ان کے دوسرے کاروبار کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا، بس ہمیں صرف ان کے ایک برانڈ کی دکان کے بارے میں علم تھا، باقی ہر چیز کے بارے میں بالکل لاعلم تھے۔ پھر میں نے 2019 میں اپنا یوٹیوب چینل بنایا اور دن رات محنت کی اور وہاں سے کمائی شروع کی۔
بابر نے بتایا کہ ابو کے بعد میں نے سوچا کہ تبلیغ میں شامل ہو جاؤں، میں نے اپنے والد کے دوستوں سے بات کی جن میں کرکٹر سعید انور بھی شامل تھے اُنہوں نے مجھ سے کہا کہ دین کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ جذبات میں آکر نہیں لیا جاتا بلکہ ہوش سے لیا جاتا ہے تو آپ پہلے میرے ساتھ تبلیغ کے چالیس دن کے دورے پر چلو اس کے بعد فیصلہ کرنا کہ آپ کو آگے زندگی میں کیا کرنا ہے۔