ایران میں قید صحافی کا جیل سے خط: ’جبری اعتراف ریکارڈ کرنے سے پہلے ادوایات تبدیل کر دی گئیں‘

ایران میں قید ایک صحافی ودا ربانی نے ملک کی جوڈیشری نیوز ایجنسی کے جواب میں ایک خط شائع کیا ہے، جس میں لکھا تھا کہ وہ ’نفسیاتی مسائل کی ادوایات لیتی رہی ہیں‘ اس خبر کے جواب میں انھوں نے لکھا ہے کہ انھیں کسی طبی مرکز میں نہیں رکھا گیا تھا۔
BBC
BBC

ایران میں قید ایک صحافی ودا ربانی نے ملک کی جوڈیشری نیوز ایجنسی کے جواب میں ایک خط شائع کیا ہے، جس میں لکھا تھا کہ وہ ’نفسیاتی مسائل کی ادوایات لیتی رہی ہیں‘ اس خبر کے جواب میں انھوں نے لکھا ہے کہ انھیں کسی طبی مرکز میں نہیں رکھا گیا تھا۔

ربانی ایک 34 سالہ فری لانس صحافی اور سیاسی کارکن ہیں جنھیں چار بار گرفتار کیا جا چکا ہے۔ اس وقت ان پر دو مقدمات ہیں اور وہ ایون جیل میں ہیں۔

اپنی نجی طبی معلومات افشا کرنے کی خبروں پر احتجاج کرتے ہوئے انھوں نے دماغی اور اعصابی امراض کو ’بے عزتی‘ قرار دے کر کارکنوں کے ’حوصلے پست‘ کرنے کی حکومتی کوشش کی طرف اشارہ کیا۔

انھوں نے لکھا: ’ہم نے دیکھا ہے کہ آپ لوگوں کو نیچا دکھانے کے لیے ان طریقوں کو کس طرح استعمال کرتے ہیں۔ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو ہم نے قید میں رکھا ہوا ہے وہ بالکل پاگل ہیں؟‘

’سکون آور ادوایات ٹافیوں کی طرح تقسیم کی گئیں‘

ودا ربانی کے خط کا ایک بڑا حصہ قیدیوں میں سکون آور ادویات کی تقسیم کے بارے میں ان کا بیان ہے۔

انھوں نےدعویٰ کیا کہ: ’قارچک جیل میں انھوں نے کہا کہ وارڈ 8 کے قیدیوں (مہسا امینی کی ہلاکت پر احتجاج کے بعد گرفتار کیا گیا) کو جتنی مرضی ادوایات دیں۔‘

وہ دعویٰ کرتی ہیں کہ وہاں کلونازپم، ٹرینکوپن اور پیوکسائیّڈ وغیرہ ٹافیوں کی طرح تقسیم کی گئیں ’پہلے تو مجھے یقین ہی نہیں آیا کہ جتنی ادوایات مانگو آپ کو مل جاتی ہیں۔ وہ سکون آور ادوایات کو خوشی کا سبب قرار دیتے۔۔۔ایک رات میں کچھ لڑکیوں کے بارے میں پریشان تھی، میں نے خود اسے آزمایا، میں نے قرچک میں نرس سے کہا، براہ کرم مجھے دو کلونازپم دیں اور انھوں نے ایسا ہی کیا۔ میں نے وہ گولی واپس کر دی اور اس صورتحال پر احتجاج کیا۔‘

getty
Getty Images

’خودکشی‘ اور رہائی کے کچھ عرصے بعد کئی قیدیوں کی موت کے الزامات

یلدا آغا فضلی، عرشیہ امام قلی زادہ، امیر حسین تروال ایمان، عاطفے نومی حالیہ مظاہروں کے بعد زیر حراست افراد میں شامل ہیں، ان کی رہائی کے چند روز بعد مشتبہ طور پر موت کا اعلان کیا گیا تھا۔

اس مسئلے نے گذشتہ سال گرفتاریوں کے عروج کے دوران جیلوں اور حراستی مراکز کے حالات کی طرف بہت زیادہ توجہ مبذول کرائی تھی۔ بہت سے لوگ ’قیدیوں کے انسانی وقار کا احترام کرنے میں ناکامی اور ان پروٹوکولز کی خلاف ورزی کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن پر اسلامی جمہوریہ کے قوانین میں زور دیا گیا ہے۔

ودا ربانی نے یلدہ آغافضلی کے بارے میں لکھا: ’میں یلدہ آغاافضلی کے خوبصورت چہرے کو کبھی نہیں بھولی، اور اس کی موت کے بعد وارڈ آٹھ کی لڑکیوں کا خوف اور جوش اور یلدہ کی موت کی خبر کے بعد ایک اور قیدی کی ناکام خودکشی ناقابل فراموش ہے۔ تم نے یلدہ کو قتل کیا، یلدا آج زندہ ہوتی اگر وہ گرفتار نہ ہوتی، لیکن کیا اس سے تمہیں کوئی فرق پڑتا ہے؟ نہیں! لوگوں کی زندگی کی تمھارے نزدیک کوئی اہمیت نہیں۔‘

ذہنی بیماری کا لیبل

عدلیہ میں سیاسی قیدیوں کو نیورولوجی ڈیپارٹمنٹ اور امین آباد سائیکیٹرک اسائلم میں منتقل کرنے کی تاریخ موجود ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ کام قیدیوں کی توہین کے مقصد سے کیا جاتا ہے اور یہ معاشرے کے کچھ طبقوں میں ذہنی بیماری کے باعث بدنامی کے مترادف ہے۔

ربانی نے لکھا: ’مجھے یہ کہنے میں کوئی شرم نہیں کہ میری ذہنی صحت کو نقصان پہنچا ہے اور میں بے چینی اور ڈپریشن کی دوائیں لیتی ہوں، یہ شرمناک نہیں ہے۔ بلکہ اس نظام کو شرمسار ہونا چاہیے جو اپنے مخالفین کی نفسیات کو نقصان پہنچانے کے لیے بنایا گیا ہے، لیکن انھیں شرم نہیں آتی۔‘

وہ دعویٰ کرتی ہیں کہ ’حقیقت یہ ہے کہ آپ سیاسی قیدیوں کو بدنام کرنے کے لیے امین آباد بھیجتے ہیں، اس سے ان کی کوئی بدنامی نہیں ہوتی، لیکن آپ اپنا ہی سیکنڈل بنا رہے ہیں۔‘

AFP
AFP
کائلی مور گلبرٹ

سابق قیدیوں کا ردعمل

ایک ماہر نفسیات اور سماجی کارکن مونا موفی نے ودا ربانی کے خط کی اشاعت کے جواب میں لکھا: ’مجھے یہ کہنے میں کوئی شرم نہیں کہ چھماہ کی قید تنہائی کے بعد میں بے چینی اور ڈپریشن کا شکار ہو گئی تھی اور اب تک میں ذہنی دباؤ اور ڈپریشن کا شکار ہوں اور اب تک ادویات اور سائیکو تھراپی لے رہی ہوں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’جس سال مجھے حراست میں لیا گیا، اس دوران انھوں نے مجھے 17 گولیاں دیں جو مجھے نہیں معلوم کہ کیا تھیں، مجھے 6 ماہ کی قید تنہائی کے بعد رہا کیا گیا اور مجھے کافی عرصے تک دوائی نہ لینے کی وجہ سے پینک اٹیک ہوتے رہے۔ وہ سر درد کی دوا بھی نہیں دیتے تھے۔‘

زیر حراست طالبہ زہرہ کاشکاکی نے اس کہانی کی تصدیق کرتے ہوئے لکھا: ’رنگین گولیوں سے بھری ایک ڈبی تھی، وہ آپ کو گولیوں کا نام نہیں بتاتے، نہ ہی گولیوں کی خوراک کے بارے میں گائیڈ کرتے ہیں، نہ کوئی آپ کو دیکھنے آتا تھا، نہ کوئی ڈاکٹر کا نسخہ! وہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ آپ کو کیا مسئلہ ہے۔ کیا آپ خوش رہنا چاہتے ہیں؟کیا آپ سونا چاہتے ہیں؟ آپ کیا چاہتے ہیں؟ وہ آپ کو مٹھی بھر گولیاں دیں گے! قرچک ایک جہنم تھا۔‘

ایک اور صحافی نسیم سلطان بیگی نے جیل میں سکون آور گولیوں کے مسئلے پر بات کی اور لکھا: ’ڈو اے جیل میں اہلکاروں اور جیل کے محافظوں نے نیند یا بے چینی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ان ادوایات کے استعمال پر اصرار کیا۔ قیدی کے طور پر ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہوئے میں نے بلیک آؤٹ کا بہانہ کرتے اپنی آنکھیں بند کر لیں تاکہ جیل کے ڈاکٹر کے تجربے کا حصہ نہ بنوں۔ بعد میں جب میں اسی سیل میں تھی تو میں نے دیکھا کہ وہ کس طرح قیدیوں کو اسکون آور ادویات دیتے ہیں۔‘

اعترافِ جرم حاصل کرنے کے لیے نیورو لیپٹکس کا غلط استعمال

ایک قیدی نے جیل میں پوچھ گچھ کے دوران بتایا کہ افسران کی طرف سے اس پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ یہ تسلیم کرے کہ وہ ’منشیات یا الکحل کے زیر اثر تھا۔‘

قیدی کا دعویٰ ہے کہ وہ پہلے سے ہی سکون آور ادوایات لے رہا تھا، چند دن پہلے جب اسے کیمرے کے سامنے اعتراف کرنے پر مجبور کیا گیا تو انھوں نے اس کی دوا بند کر دی اور اسے معمول کی گولی کی بجائے ایک مضبوط دوا دی۔

اس زیر حراست شخص کا دعویٰ ہے کہ جبری اعتراف کی ریکارڈنگ سے پہلے ’ایک اور گولی نہ دیے جانے کے بعد میں نے ایک دن ایسا گزارا جب میں خودکشی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔۔۔‘

رازداری کا حق

ودا ربانی کے شوہر حامد رضا امیری نے اپنی پروفائل پر لکھا: ’جیل میں کیے گئے اعلان کے مطابق ودا ربانی کو دوسرے مقدمے میں معاف کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آج میں پہلے مقدمے اور ودا کے علاج کے بارے میں تلاش کر رہا تھا لیکن مجھے ایون کی طرف سے کوئی خاص جواب نہیں ملا اور یہ دلچسپ بات ہے کہ میزان نیوز ایجنسی لوگوں کی نجی معلومات افشا کر رہی ہے۔‘

ڈاکٹر اور طبی عملے کی طرف سے مریض کی معلومات کا راز رکپا جانا، مریض کے حقوق میں شامل ہے۔ ایران اور دنیا کے بہت سے ممالک کے قوانین میں اس کی خلاف ورزی قابل سزا ہیں۔

Social Media
Social Media

جیل کا ڈاکٹر

سابق قیدی پہلے بھی جیل کے ڈاکٹر کے ساتھ اپنے تجربے کے بارے میں لکھ چکے ہیں۔ ایک گروپ نے ان میں سے کچھ ڈاکٹروں، جو علاج کے لیے قیدیوں کو طبی مراکز میں منتقل کرنے سے روکتے ہیں، پر غلط پریکٹس کا الزام عائد کیا ہے۔ تاہم، ایسی افواہیں بھی ہیں جن کے مطابق جیل کے ڈاکٹر کو بھی قید کر دیا گیا تھا۔

اس سے پہلے جیل کے طبی مرکز سے نرگس محمدی کی ویڈیو خاصے ردِعمل کا باعث بنی تھی۔

بروقت علاج نہ ہونے اور جیل حکام کی لاپرواہی کی وجہ سے کچھ قیدیوں کی صحت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ ان میں علیرضا راجائی (ایک قومی مذہبی کارکن) اور آرش صادقی (ایک طالب علم کارکن) بھی شامل ہیں۔

لیکن رامین پورندرجانی کے نام کا بہت ذکر کیا جاتا ہے، وہ ڈاکٹر جس نے کیہریزک کے مریضوں کا معائنہ کیا۔ سنہ 2008 میںوہ مشتبہ طور پر ہلاک ہو گئے تھے۔

چند سال قبل جیلوں کی تنظیم کے اس وقت کے سربراہ نے کہا تھا کہ ڈاکٹرز جیلوں میں کام نہیں کرنا چاہتے۔

تنہائی بطور اذیت

ربانی نے اپنے خط میں دعویٰ کیا کہ وزارت اطلاعات کے 209 حراستی مرکز میں قید تنہائی کے 40 دنوں کے دوران ان سے صرف تین گھنٹے تک پوچھ گچھ کی گئی اور جب تک انھوں نے بھوک ہڑتال نہیں کی، جیل حکام نے انھیں عام جیل منتقل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

انسانی حقوق کی کارکن نرگس محمدی، ایک آسٹریلوی محقق کائلی مور اور ایک امریکی کوہ پیما سارہ شیورڈ، جو طویل عرصے تک ایران میں قید تھیں، نے قید تنہائی کو قیدیوں پر تشدد سے تشبیہ دی ہے۔

سابق قیدیوں کا کہنا ہے کہ تفتیش کے دوران طویل قید تنہائی کے ذریعے قیدی کا انسانوں سے رابطہ ختم کر دیا جاتا ہے اور ایسا اسے ایک ’بھلا دیے گئے، بیکار اور سزا کے مستحق‘ شخص کا احساس دلانے کے لیے کیا جاتا ہے تاکہ اعترافی عمل میں تفتیش کار کو فائدہ پہنچے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.