اردگان کیلئے لوگ ٹینکوں کے سامنے کیوں لیٹ گئے تھے، مقبولیت کی وجہ کیا؟

image

استنبول میں امن تھا نہ ترقی، پانی اور بجلی کا بحران تھا، جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر نظر آتے تھے، عوام بنیادی سہولیات سے محروم تھے، مارچ 1994 کو رجب طیب اردگان کا دور شروع ہوا تو استنبول شہر کی تقدیر بدل گئی۔

1994 سے 98 ء تک اردگان نے استنبول کو مسائل کی دلدل سے نکال کر ترقی کی ایسی راہ پر ڈال دیا کہ پورا ترکیہ ان کی سیاسی بصیرت اور قابلیت کا قائل ہوگیا۔ترکیہ کے صدارتی انتخاب کے حتمی مرحلے میں کامیابی حاصل کرکے مسلسل تیسری بار صدر منتخب ہونے والے اردگان گورنر، میئر اور وزیراعظم بھی رہے ہیں ۔ 2014 سے اب تک مسلسل صدر کے عہدے پر براجمان ہیں جبکہ ترک قوم نے انہیں ایک بار پھر صدر مملکت منتخب کرلیا ہے۔

ناصرف ترکیہ بلکہ پاکستان میں بے بیحد مقبول رجب طیب اردگان کی کامیابی اور مقبولیت کے حوالے سے کچھ اہم اقدامات کا جائزہ لیتے ہیں، طیب اردگان کے بارے میں جاننے سے پہلے ہمیں ان کی پہلی کامیابی کی طرف جانا ہوگا۔

کراچی کے ہم پلہ استنبول شہر کا حال بھی 1994میں شہر قائد سے زیادہ مختلف نہیں تھا۔یہاں امن و امان نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ پانی اور بجلی کی سہولیات کا فقدان تھا۔۔ جگہ جگہ کچرے کے ڈھیرے نظر آتے تھے لیکن طیب اردگان نے 4 سال میں استنبول کا نقشہ ہی بدل دیا اور مسائل کا گڑھ سمجھے جانے والے استنبول کو جدید اور ترقی یافتہ شہر بنانے کی بنیاد رکھی جس کے بعد اردگان ترک قوم کی اولین پسند بن گئے اور مسلسل تیسری بار صدر بن گئے ہیں۔

آیئے آپ کو بتاتے ہیں کہ وہ کونسی وجوہات تھیں جن کی وجہ سے ترک عوام اردگان کی حکومت بچانے کیلئے فوجی ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے تھے۔یہ تو آپ جانتے ہیں کہ گزشتہ کئی برسوں میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ صدر اردگان کو الیکشن میں بہت مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہے اور مقابلے کا فیصلہ رن ڈاؤن میں ہوا تاہم اردگان کی کامیابی اور مقبولیت کی چند وجوہات بتاتے ہیں۔

طیب اردگان کو ترکیہ کے قدامت پسند مذہبی طبقے میں سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہے۔ یہ طبقہ تقریباً ایک صدی سے ترکیہ میں رائج سیکولر نظام کے مقابلے میں مذہبی اقدار کو فروغ دینا چاہتا ہے۔اردگان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے حکومتی ذرائع کا استعمال کرکے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کی۔

اردگان نے عالمی سطح پر ترکیہ کے مضبوط امیج اور جارحانہ سفارت کاری کے ذریعے بھی ترکوں کے بڑے طبقے کو اپنا حامی بنایا۔ موجودہ حالات میں ترکیہ کے عوام اس بحران سے نکالنے کے لیے اپوزیشن کی صلاحیتوں پر مکمل اعتماد نہیں رکھتے۔ ترک عوام یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کو استحکام کی ضرورت ہے اس لئے اردگان کی موجودگی زیادہ بہتر ہوگی۔

ترکیہ نیٹو کا اہم رکن ہے اور اس اتحاد میں شامل ممالک میں ترکیہ کی فوج دوسرے نمبر پر آتی ہے۔اردگان کے دورِ اقتدار میں ترکیہ نے نیٹو میں کئی بار اپنی اہمیت منوائی ۔سوئیڈن کی نیٹو میں شمولت کو ویٹو کیا ۔اردگان نے پناہ گزینوں کے معاملے کو یورپ کیخلاف سفارتی حربے کے طور پر استعمال کیا۔

شام میں فعال ترکیہ مخالف کرد گروپوں کے خلاف کارروائیاں کرکے خطے میں ترکیہ کا دائرہ اثر وسیع کیا۔ کرد گروپس کے خلاف کارروائیوں کی وجہ سے اردگان کوترک قوم پرست گروپس میں بھی مقبولیت حاصل ہوئی۔گزشتہ دو دہائیوں میں اردگان نے دفاعی پیداوار میں کئی گنا اضافہ کیا۔

صدر اردگان نے اسلامی تعلیمات اور مذہبی علامتوں کو فروغ دے کر اپنے حامیوں کا ایک مضبوط حلقہ پیدا کیا۔ ترکیہ کی فوج کو اقتدار کی دوڑ سے باہر کیا ۔ خواتین پر دفاتر اور اداروں میں اسکارف پہننے کی پابندی ختم کی۔میڈیا پر مضبوط گرفت کی جس کی وجہ سے اردگان کا پیغام موثر انداز میں لوگوں تک پہنچتا ہے۔

صدر اردگان کیلئے معیشت سب سے بڑا چیلنج ہےجہاں ملک میں غربت کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے وہیں صدر اردگان نے تنخواہوں اورپنشن میں اضافہ کیا۔۔بجلی اور گیس پر سبسڈی دی اور مکانات کے لیے جاری کیے گئے قرضے معاف بھی کیے۔

اس وقت اردگان کے سامنے زلزلہ متاثرین کی آباد کاری اور لیرا کی گرتی ہوئی ساکھ کی بحال سب سے بڑے چیلنجز ہیں اور اگر صدر اردگان معیشت بحال اور زلزلہ متاثرین کو آباد کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو ناصرف اردگان کی مقبولیت میں اضافہ ہوسکتا بلکہ اگلے کئی انتخابات کیلئے بھی ان کی کامیابیوں کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔


About the Author:

Arooj Bhatti is a versatile content creator with a passion for storytelling and a talent for capturing the human experience. With a several years of experience in news media, he has a strong foundation in visual storytelling, audio production, and written content.

مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.