جنوبی وزیرستان میں غیر معمولی ژالہ باری سے کھڑی فصلیں تباہ: ’ایسے لگتا تھا جیسے ہر پھل کو زخمی کر دیا گیا ہو‘

اتوار کے روز جنوبی وزیرستان کے مختلف علاقوں میں بارش اور ژالہ باری سے پھلوں اور سبزیوں کے علاوہ گندم کی تیار فصل تباہ ہو گئی ہے۔ اس مرتبہ لوگوں کو امید تھی کہ فصل سے اچھی آمدنی ہو گی تاہم آندھی، بارش اور پھر شدیدژالہ باری نے بڑے پیمانے پر زراعت کو نقصان پہنچایا ہے۔

’یہ باغ تو میری کائنات ہے، امید تھی اس مرتبہ سیب کی اچھی فصل ہوگی ، خریدار رابطے بھی کر رہے تھے، تین لاکھ روپے کی آفر آئی تھی میں نے انکار کر دیا تھا ، معلوم نہیں تھا کہ بارش اور ژالہ باری سے سب تباہ ہو جائے گا۔‘

اسماعیل جنوبی وزیرستان میں وانا کے رہائشی ہیں۔ ان کا سیب کا باغ اور کچھ رقبے پر گندم کی فضل تیار تھی ۔ اتوار کے روز جنوبی وزیرستان کے مختلف علاقوں میں بارش اور ژالہ باری سے پھلوں اور سبزیوں کے علاوہ گندم کی تیار فصل تباہ ہو گئی ہے۔

سیب ، آلوچہ ، آڑو ، انار، خوبانی کے ساتھ ٹماٹر اور گندم کی فصل تیار تھی۔ علاقے میں زمیندار خوش تھے کہ چند روز بعد وہ کٹائی شروع کریں گے ۔ تیار فصلوں کے خریدار بھی زمینداروں سے رابطے کر رہے تھے۔ اس مرتبہ لوگوں کو امید تھی کہ فصل سے اچھی آمدنی ہو گی۔

تین لاکھ روپے کی پیشکش ٹھکرا دی

وزیرستان میں باغات کی فصل کی خریداری کے لیے تاجر متحرک رہتے ہیں اور بعض باغات کی قیمتیں تو فصل سے کافی پہلے بھی طے ہو جاتی ہیں۔

اسماعیل کو ان کے 300 درخت کے سیب کے باغ کی تین لاکھ روپے تک آفر آئی تھیلیکن ان کو اس سے زیادہ کی امید تھی۔ اسماعیل نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ابھی رابطے ہو رہے تھے اور بھی لوگ آ رہے تھے انھیں امید تھی کہ یہ باغ اس سے زیادہ قیمت پر فروخت ہو جائے گا۔

’قسمت کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے، کل اچانک تیز بارش شروع ہوئی اور اس کے بعد ایسی ژالہ باری تھی کہ اللہ کی پناہ، سوچ میں بھی نہیں تھا کہ اتنے بڑے بڑے اولے گر سکتے ہیں۔‘

اسماعیل نے بتایا ’میرا سیب کا باغ اور گندم کی فصل مکمل تباہ ہو گئی ہے، میں آپ کو ویڈیو اور تصویریں دکھا سکتا ہوں پھل کا کیا حال ہو گیا ہے اب تو یہ فروخت کے قابل بھی نہیں رہا۔‘

اسماعیل کا کہنا تھا کہ وہ پانچ بھائی ہیں اور سب ایک مشترکہ خاندان کا حصہ ہیں۔ اسماعیل کے چار بیٹے ہیں جو آرمی پبلک سکول وانا میں زیر تعلیم ہیں۔ اسماعیل کے والد حفیظ اللہ نے بتایا کہ ان کا خاندان باغبانی اور زراعت سے وابستہ ہے۔

باغ میں زخمی سیب اور آلوچے

جنوبی وزیرستان موسم سرد مرطوب رہتا ہے اس لیے اس علاقے میں باغات زیادہ ہیں جن میں سیب، آلوچہ، خوبانی، آڑو، اناراور دیگر پھل وافر مقدار میں ہوتے ہیں۔

مقامی صحافی شاہزادین نے بی بی سی کو بتایا کہ ہر سال اپریل کے بعد سے جنوبی وزیرستان سے مختلف قسم کی سبزیوں اور پھلوں کی پیداوار شروع ہو جاتی ہے اور روزانہ وزیرستان کی منڈی سے مختلف اجناس سے لدے ہوئے کوئی ڈیڑھ سے دو سو ٹرکملک کے دیگر علاقوں کو جاتے ہیں۔

’اتوار کو پہلے آندھی آئی جس کے بعد بارش شروع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ژالہ باری شروع ہوگئی جس سے بڑے پیمانے پر زراعت کو نقصان پہنچا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ بارش کے بعد وہ مختلف باغات میں گئے جہاں پھل مکمل طور پر ختم ہو چکے تھے چاہے وہ سیب ہو، آلوچہ یا ٹماٹر۔

’ایسے لگتا تھا جیسے ہر پھل کو زخمی کر دیا گیا ہو، صرف پھل نہیں وہاں پرندے بھی مر گئے تھے اور ان کے گھونسلے بھی گرے پڑے تھے۔‘

شاہزادین نے بتایا کہ ان کی اپنی آلوچے اور خوبانی کی فصل مکمل تباہ ہوئی ہے یہاں ایک پیٹی 1000 روپے سے 1500 روپے تک فروخت ہو رہی تھی۔ سیب کی فصل چند دن میں تیار ہونے والی تھی لیکن اب کچھ نہیں رہا۔

وزیرستان کے سیبکی بیرون ملک بھی مانگ

اگرچہ وزیرستان کے بارے میں کسی کو یہ اندازہ نہیں ہوگا کہ اس پسماندہ اور دور دراز قبائلی علاقے سے سالانہ 88 ہزار 580 ٹنسیب کی پیداوار ہے اور اس میں بعض اقسام ایسی ہیں جو بیرون ملک بھیجی جاتی ہیں ۔ اس علاقے سے 2490 ٹن آلوچہ پیدا ہوتا ہے جبکہ آڑو اور انار کی پیداوار بھی نمایاں رہتی ہے۔

ضلعی افسرزارعت ڈاکٹر محمد انور کے مطابق نقصان تو بڑے پیمانے پر ہوا ہے لیکن اب تک اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے لیے سروے کیے جائیں گے اور اس کے بعد معلوم ہو سکے گا کہ کل کتنا نقصان ہوا ہے۔

جنوبی وزیرستان میں ایک بڑے رقبے پر گندم اور مکئی کی پیداوار بھی کی جاتی ہے۔ محکمہ زراعت کے حکام کے مطابق جنوبی وزیرستان میں 9680 ٹن گندم اور 6451 ٹن مکئی کی پیدوار سالانہ ہوتی ہے۔

ڈاکٹر انور کے مطابق سیب کی فصل تیاری کے قریب تھی اور اس میں سے کچھ اب گر چکے ہیں اور کچھ درخت پر ہی خراب ہو گئے ہیں۔ اسی طرح آلوچے اور آڑو کی فصل تیار تھی اور یہ مارکیٹ میں جا رہی لیکن اب وہ بری طرح متاثر ہو چکی ہے۔

اتوار کا دن جنوبی وزیرستان میں ایک طرح سے سوگ کا دن تھا

مقامی یونین کونسل کے چیئر مین عابد پختون نے بتایا کہ ان کی زمین کوئی 42 کنال ہے اور اس پر باغ ہے جو تقریبا سارا خراب ہوگیا ہے۔

’اتوار کا دن جنوبی وزیرستان میں ایک طرح سے سوگ کا دن تھا، بازار میں لوگ نکلے اور نا ہی کوئی تجارتی سرگرمی ہوئی۔ سب لوگ باغات میں جا کر اپنے اپنے نقصان کا اندازہ لگاتے رہے اور باقی لوگ ان کے غم میں شریک رہے۔‘

اگر وانا سے انگور اڈا کے جانب جائیں تو یہ سیدھا کوئی 50 کلومیٹر کا راستہ ہے اور اس میں سارے باغات ہی ہیں اور ان علاقوں میں ژالہ باری بھی زیادہ ہوئی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسی ژالہ باری انھوں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی اور یہ نقصان کوئی ایک گھر یا ایک خاندان کا نہیں ہے بلکہ اس علاقے میں ہر گھر اور ہر خاندان کا انحصار انھیں باغات اور زراعت پر ہے۔

نورولی مقامی سوشل ورکر ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ سب ڈویژن وانا میں ابھی نقصان کا سروے کیا جائے گا لیکن ابتدائی طور پر ایسا لگتا ہے کہ جیسے سارے باغات اور فصلیں تباہ ہو گئی ہیں اور یہاں ایسے باغات ہیں جو 50 لاکھ روپے تک فروخت ہوتے ہیں۔

وزیرستان کے قریب آباد میدانی علاقے جیسے ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان گرم مرطوب علاقے ہیں اور ان کا زیادہ انحصار وزیرستان پر رہتا ہے جہاں آلو، ٹماٹر اور دیگر سبزیوں کی پیدوار نمایاں رہتی ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.