“جب یہ حادثہ ہوا تو میں گھر پر نہیں تھا۔ گھر آ کر بیٹے ہو تلاش کیا تو پتا چلا کہ وہ چپس بیچنے گیا ہے۔ میرا بیٹا چپس بیچ کر اس کے پیسے بہنوں میں تقسیم کردیتا تھا۔ اسے ماں باپ کی غربت کا احساس تھا۔ جب میں بیٹے کو تلاش کرتے ہوئے اسپتال پہنچا اور زخمیوں میں بیٹا نہیں ملا تو بھاری دل کے ساتھ مرنے والے وارڈ میں تلاش کرنے گیا۔ وہاں ٥ لاشیں تھیں۔ ایک بچے کا سر نہیں تھا لیکن مردہ خانے کے لوگوں نے کپڑے دیے کہ یہ اس بچے کے کپڑے ہیں اگر آپ کا بیٹا یہی پہنے تھا تو یہ لاش اسی کی ہے“
یہ دل چیر دینے والے الفاظ گزشتہ دنوں باجوڑ میں ہونے والے دھماکے میں شہید ہونے والے ابوذر کے والد جاوید خان کے ہیں جو شنڈئی موڑ پر رہتے ہیں۔ ابو ذر ان کا اکلوتا بیٹا تھا جبکہ ان کی 7 بیٹیاں بھی ہیں۔
جاوید خان نے بتایا کہ 12 برس کا ابو ذر کافی حساس بچہ تھا۔ وہ ساتویں جماعت کا طالب علم تھا اور اسکول کی چھٹیوں میں اس نے ماں سے کہا کہ اسے کچھ پیسے دیں تاکہ وہ چپس اور پاپڑ بیچ کر پیسے کمائے اور بہنوں کو دے تاکہ وہ والد پر بوجھ نہ بنیں۔ ابو ذر کی سب سے بڑی بہن کی عمر 13 برس ہے۔
واضح رہے کہ رواں ہفتے اتوار کو دوپہر تقریبا4:15 منٹ پر جمعیت علمائے کے زیر اہتمام ہونے والے ورکرز کنونشن میں خودکش دھماکا ہوا جس میں میں اب تک 55 لوگ جان کی بازی کھو چکے ہیں اور 90 کے لگ بھگ زخمی ہونے کی اطللاعات ہیں۔ اس افسوسناک واقعے میں جمعیت علمائے اسلام کے متعدد مقامی کارکنان جن میں تحصیل خار کے امیر مولانا ضیا اللہ جان، مجاھد خان، مولانا حمیداللہ سمیت کئی مدارش کے اساتذہ، پیش امام اور اسکولوں کے بچوں سمیت علاقائی لوگ بھی شامل تھے۔