سویڈن میں کیے جانے والے ایک مطالعے سے پتا چلا ہے کہ مصنوعی ذہانت چھاتی کے کینسر کی تصاویر سے درست تشخیص کر سکتی ہے۔

سویڈن میں کیے جانے والے ایک مطالعے سے پتا چلا ہے کہ مصنوعی ذہانت چھاتی کے کینسر کی تصاویر سے درست تشخیص کر سکتی ہے۔
لنڈ یونیورسٹی کی ایک ٹیم کی سربراہی میں محققین نے دریافت کیا کہ کمپیوٹر کی مدد سے سرطان کا پتہ لگانے سے دو ریڈیولوجسٹ کے مقابلے میں ’یکساں شرح‘ سے سرطان کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔
لیکن ان کا کہنا تھا کہ اس بات کا مکمل تعین کرنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ آیا اسے سکریننگ پروگراموں میں استعمال کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔
برطانیہ میں ماہرین نے اتفاق کیا کہ مصنوعی ذہانت سے چھاتی کے سرطان کی سکریننگ میں بہت مدد مل سکتی ہے۔
اگرچہ میموگرام میں چھاتی کے سرطان کی تشخیص کے لیے مصنوعی ذہانت کے استعمال کو دیکھنے والی یہ پہلی تحقیق نہیں ہے۔ اس سے قبل کی جانے والی کچھ تحقیق میں ایسے سکین کا جائزہ لیا گیا تھا جسے ڈاکٹر پہلے ہی دیکھ چکے ہیں۔
لانسٹ آنکولوجی نامی جریدے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں سویڈن سے تعلق رکھنے والی 80 ہزار سے زائد خواتین کو شامل کیا گیا جن کی اوسط عمر 54 سال تھی۔
آدھے سکین کا جائزہ دو ریڈیولوجسٹ نے لیا جسے سٹینڈرڈ کیئر کے نام سے جانا جاتا ہے ، جبکہ دوسرے نصف کا جائزہ اے آئی سکریننگ ٹول نے لیا جس کے بعد ایک یا دو ریڈیولوجسٹ نے بھی اس کی تشریح کی۔
مجموعی طور پر مصنوعی ذہانت کی مدد سے سکریننگ کے نتیجے میں 244 خواتین میں کینسر پایا گیا جبکہ معیاری سکریننگ سے 203 خواتین میں مرض کی تشخیص ہوئی۔
مصنوعی ذہانت کے استعمال نے زیادہ ’غلط نتائج‘ نہیں دیے۔اے آئی اور ریڈیولوجسٹ دونوں میں کینسر کی غلط تشخیص کی شرح 1.5 فیصد تھی۔
حوصلہ افزا
مطالعے میں شاملڈاکٹر کرسٹینا لانگ کا کہنا تھا کہ مصنوعی ذہانت میں چھاتی کے کیسنر کی تشخیص کے لیے استعمال ہونے کی صلاحیت موجود ہے جس سے دنیا بھر میں ریڈیالوجسٹ کی کمی سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔
تاہم انھوں نے کہا کہ اسے پوری طرح سمجھنے اور اس کے فوائد کا اندازہ لگانے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت مصنوعی ذہانت کا سب سے بڑا ممکنہ فائدہ یہ ہے کہ اس سے ریڈیالوجسٹس پر کام سے دباؤ کم ہوگا۔ ‘
’اگرچہ مصنوعی ذہانت کی مدد سے سکریننگ سسٹم کو تشخیص کے لیے کم از کم ایک ریڈیالوجسٹ کی ضرورت ہوتی ہے ، لیکن یہ ممکنہ طور پر میموگرام کی اکثریت کو ڈبل ریڈنگ کی ضرورت کو ختم کرسکتا ہے ، کام کے بوجھ پر دباؤ کو کم کرسکتا ہے اور ریڈیالوجسٹ کو مریضوں کے انتظار کے اوقات کو کم کرتے ہوئے زیادہ جدید تشخیص پر توجہ مرکوز کرنے کے قابل بنا سکتا ہے۔‘
این ایچ ایس انگلینڈ کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ ’یہ تحقیق بہت حوصلہ افزا ہے، اور این ایچ ایس بریسٹ سکریننگ پروگرام میں اس ٹیکنالوجی کو لاگو کرنے کے بہترین طریقوں کا جائزہ لینے کے لیے منصوبوں پر کام کیا جا رہا ہے۔‘
رائل کالج آف ریڈیالوجسٹ کی صدر ڈاکٹر کیتھرین ہیلی ڈے نے مزید کہا ’مصنوعی ذہانت یہ صلاحیت رکھتی ہے کہ یہ ہماری کارکردگی کو زیادہ سے زیادہ بڑھا کر، ہماری فیصلہ سازی کی حمایت کرکے اور انتہائی ضروری معاملات کی نشاندہی اور ترجیح دینے میں مدد کرکے ڈاکٹروں کے وقت کی بچت کر سکتی ہے۔‘
’اس حوالے سے تحقیق میں دلچسپی لی جا رہی ہے کہ مصنوعی ذہانت میموگرام کے لیے رپورٹنگ میں مددکیسے کر سکتی ہے کیونکہ وہ پیچیدہ ہوتے ہیں، جس میں کلینیکل ریڈیالوجسٹ کی طرف سے اہم نگرانی اور تشریح کی ضرورت ہوتی ہے۔ برطانیہ میں ریڈیالوجسٹ مطلوبہ تعداد سے29 فیصد کم ہیں جو صورتحال کو مشکل بناتی ہے۔‘
اگرچہ حقیقی زندگی کے کلینیکل ریڈیالوجسٹ ضروری اور ان کا کوئی نعم البدل نہیں، لیکن کلینیکل ریڈیالوجسٹ مصنوعی ذہانت کے اعداد و شمار ، بصیرت اور درستگی کے مدد سے مریضوں کی بہتر دیکھ بھال کر سکیں گے۔‘