ہیروں اور کرکٹ کی دلدادہ لتا منگیشکر جن کے گلے میں سُروں کا جادو بستا تھا

اگر ہم موسیقی کے کچھ پرجوش شائقین اور ماہروں کو چھوڑ دیں تو ایک عام آدمی کو لتا منگیشکر کی کامیابیوں کو سمجھنے کے لیے ایک تھیسس کی ضرورت ہوگی۔

کوئی راگوں اور سُروں کی سمجھ رکھنے والا یا پھر موسیقی کا عام شیدائی بھی اگر تنہائی میں لتا منگیشکر کا فلم ’سیما‘ میں گایا بھجن ’منموہنا بڑے جھوٹے‘ سُنے تو اس کے دل میں یہ جاننے کی خواہش ضرور پیدا ہو گی کہ اتنے مشکل اور نشیب و فراز سے بھرپور گیت کو اتنی آسانی سے کیسے گایا جا سکتا ہے۔

ہلکی پھلکی موسیقی پسند کرنے والے یہ بھی سوچیں گے کہ ایک گلوکار بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اتنی خوبصورتی سے راگوں کو سروں میں کیسے پُرو سکتا ہے۔

یہ سروں کی ملکہ لتا منگیشکر ہی تھیں جنھیں اپنی صلاحیتیں دکھانے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ کلاسیکی راگوں پر مبنی انتہائی پیچیدہ دھنوں کو آسانی سے سُروں میں ڈھال لیتی تھیں۔

لتا منگیشکر اب 93 برس کی ہو گئی ہیں۔ میں دانستہ طور پر ان کے لیے یہ جملہ استعمال کر رہی ہوں کیونکہ اگرچہ لتا منگیشکر اس دنیا سے رخصت ہو چکی ہیں لیکن ہم اس عظیم گلوکارہ کو اپنی یادوں سے ایسے ہی جدا نہیں ہونے دے سکتے۔

اگر آپ لتا کے نام لیتے ہیں تو آپ کے سامنے گائیکی کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہوتا ہے۔

اگر ہم موسیقی کے کچھ پرجوش شائقین اور ماہروں کو چھوڑ دیں تو ایک عام آدمی کو لتا منگیشکر کی کامیابیوں کو سمجھنے کے لیے ایک تھیسز کی ضرورت ہو گی۔

دراصل ان کی دھن، لہجہ، الاپ اور موسیقی کے بارے میں تقریباً سب کچھ لکھا جا چکا ہے۔ لیکن کلاسیکی گائیکی میں ان کی مہارت پر اتنا زور نہیں دیا گیا۔

بہر حال لتا منگیشکر نے 13 سال کی عمر میں اداکاری کے ذریعے فلمی دنیا میں آنے سے پہلے کلاسیکی موسیقی کی گلوکارہ بننے کی کوشش کی تھی۔

یہ درست ہے کہ عمر کے ساتھ ساتھ کلاسیکی موسیقی کی دُھن، لے، تال اور تان کے بارے میں آپ کی سمجھ میں اضافہ ہوتا ہے لیکن اگر آپ لتا منگیشکر کے گانے دوبارہ سنیں گے تو آپ ان کی آواز کے جادو سے اور بھی زیادہ مسحور ہو جائیں گے۔

لتا
BBC

ایک سُر میں پرونے والی آواز

لیکن سوال یہ ہے کہ لتا کو آزاد ہندوستان کی سب سے معزز گلوکارہ اور ملک کی سب سے بااثر فنکاروں میں سے ایک کیوں سمجھا جاتا ہے؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی آواز میں ایک ایسی منفرد خوبی ہے جو سرحدوں سے آگے نکل کر جنوبی ایشیا کے لوگوں کو سُروں کے ایک دھاگے میں پرو دیتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آٹھ دہائیوں پر محیط اپنے کریئر میں انڈین میوزک انڈسٹری میں ان کی بے مثال شراکت کی وجہ سے انھیں ’کوئین آف ٹونز‘، ’انڈیا کی سُور کوکیلا‘ اور 'کوئین آف دی موسٹ ہارمونیئس وائس آف دی سنچری' جیسے القابات سے نوازا گیا۔

اپنے ابتدائی دنوں میں، لتا منگیشکر نے مغربی موسیقی کے چاروں آکٹیو میں گایا، خواہ وہ سست، مدھم یا اونچی لے کیوں نہ ہو۔ گانے کے مختلف حصوں میں ان کے گائے ہوئے آکٹوز مختلف احساسات دیتے ہیں۔

فلم ’نوری‘ کے گانے ’چوری چوری کوئی آئے۔۔۔‘ میں دل سے اٹھنے والے سست سُر کی طرح فلم ’پاکیزہ‘ کے گانے ’چلتے چلتے‘ والے مدھم سر یا فلم ’انیہ دتا‘ کے گانے ’راتوں کے سائے گھنے‘ میں درمیانی سر ابھر کر فلم چوری چوری کے گیت ’رسک بلما۔۔۔ دل کیوں لگایا تو سے‘ میں بلند ہو جاتا ہے اور روح پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔

بہت سے میٹھے گیتوں میں لتا نے ضرورت کے مطابق اپنے فطری، تبدیل شدہ، نرم یا حتیٰ کہ شدید لہجے کا استعمال کیا ہے۔ یہ ان کے ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کے اسباق سے واقف ہونے کا اثر ہے۔

لتا
BBC

سُروں میں اُتار چڑھاؤ

یہ سچ ہے کہ موسیقی کی دھنوں کا سہرا ان لوگوں کو جاتا ہے جنھوں نے انھیں کمپوز کیا ہے۔ جیسے ایس ڈی برمن، نوشاد، سلیل چودھری، شنکر جئے کشن یا آر ڈی برمن جیسے موسیقار۔

لیکن اگر لتا منگیشکر نے ان دھنوں کو اپنی آواز میں اسی اتار چڑھاؤ کے ساتھ پیش نہ کیا ہوتا اور سریلے پن کے ساتھ انصاف نہ کیا ہوتا، تو صورتحال مختلف ہوتی۔

ان کے گیتوں میں سروں کے باریک اُتار چڑھاؤ کا فرق صاف محسوس ہوتا ہے۔ لتا کے گانوں میں شروتی نامی ایک ہی نوٹ کی مختلف قسمیں سنی جا سکتی ہیں۔

راگ راگنی کی یہ پیچیدگیاں عام طور پر صرف ودوشی کشوری امونکر جیسے خالص کلاسیکی گلوکاروں کی مہارت میں نظر آتی ہیں۔

ہندوستانی راگوں پر مبنی مخصوص گیتوں کی دھنیں بنیادی طور پر دو حصوں الاپ اور استھائی (ٹھہراؤ) میں تقسیم ہے۔ لیکن لتا منگیشکر کے گائے ہوئے گانوں کی بہت سی مثالیں ہیں، جو کلاسیکل بندشوں کا حصہ بن چکے ہیں۔

مثال کے طور پر فلم ’سوتیلا بھائی‘ کا گیت ’جا میں توسے نہیں بولوں‘ یا فلم ’دستک‘ کا گیت ’بیاں نہ دھرو او بلما‘ وغیرہ۔

لتا کو خراج عقیدت
EPA

ہر طرح کے نغمے کے ساتھ انصاف

گلوکارہ شوبھا مدگل کہتی ہیں کہ ’لتا جی ایسی مکمل فنکارہ تھیں کہ وہ کچھ بھی گا سکتی تھیں۔ چاہے وہ راگ پر مبنی غزل ہو، یا دلکش ترانہ، وہ کچھ بھی گا سکتی تھیں۔‘

کچھ سال پہلے لتا کی ہی طرح باصلاحیت ان کی بہن آشا بھوسلے سے بات کرتے ہوئے مجھے معلوم ہوا کہ منگیشکر خاندان مکمل طور پر ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کے لیے وقف ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ان کے خاندان کے افراد روزانہ گانے کی مشق (ریاض) کرتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے کسی دوسرے ہندوستانی موسیقی کے گھرانے کے مشہور گلوکار کرتے ہیں۔

لتا منگیشکر کے والد پنڈت دینا ناتھ منگیشکر گوا اور مراٹھی تھیئٹر کے معروف فنکار تھے۔ پنڈت دیناناتھ بنیادی طور پر تھیئٹر موسیقی کے موسیقار تھے۔ لتا منگیشکر ان کی سب سے بڑی اولاد تھیں۔ اس لیے انھیں کلاسیکل گلوکارہ بننے کی تربیت بھی دی گئی تاہم بعد میں حالات کچھ ایسے ہو گئے کہ انھیں فلموں میں پلے بیک سنگر بننا پڑا۔

حالات کے اس موڑ نے ہم سب کو ان کے فن سے لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کیا جس کے لیے ہمیں خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے۔

فلمی موسیقی کی ہلکی پھلکی دُھنوں نے شاید لتا منگیشکر کے کلاسیکی انداز پر اثر ڈالا ہو لیکن اپنی باقاعدہ مشق کی وجہ سے جب بھی لتا نے کلاسیکی راگوں کے ساتھ گانے گائے، ان گانوں کے ساتھ بھی پورا پورا انصاف کیا۔

غزل گلوکارہ رادھیکا چوپڑا کا لتا منگیشکر کے بارے میں کہنا ہے کہ ان کو بیان کرنے کے لیے صرف ایک لفظ ہی کافی ہے، ’انسٹیٹیوشن‘ یعنی وہ گلوکارہ جو اپنی ذات میں ایک ادارہ تھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’لتا منگیشکر اپنے آپ میں موسیقی کا ایک گھرانہ ہیں، جس کی پیروی ہلکی پھلکی موسیقی گانے والے ہر گلوکار کو کرنی چاہیے جس طرح میں کرتی ہوں۔ چاہے وہ بھجن ہو، غزلیں ہو، راگوں پر مبنی گانے ہوں، ہلکے پھلکے گانے ہوں، دھنوں یا دکھ کی گہرائیوں میں ڈوبے گانے ہوں۔‘

’لتا جی نے جس طرح سے پہلی سے آخری سطر تک اپنے مزاج کے مطابق مختلف گانوں کو اپنی دھنوں کا آشیرواد دیا ہے، آنے والی تمام نسلیں ان سے سیکھتی رہیں گی۔ وہ دھنوں کے مزاج کے مطابق بڑی آسانی کے ساتھ گاتی تھیں اور آنے والی کئی نسلیں ان کی تقلید کرتی رہیں گی۔‘

پنڈت جسراج اور بھیمسین جوشی کی تعریف

کئی سال پہلے جب پنڈت جسراج سے ایک بار پوچھا گیا تو انھوں نے کہا تھا کہ ’ہم جیسے کلاسیکی موسیقی کے گلوکار جن راگوں کو 45 سے 55 منٹ میں گانے کی کوشش کرتے ہیں، وہ اپنے چار منٹ کے گانے میں بھی ویسا ہی کرتی ہیں۔‘

پنڈت جسراج کا تعلق موسیقی کے میواتی گھرانے سے تھا۔

جب ان جیسا عظیم فنکار لتا منگیشکر کے بارے میں اس طرح کی بات کرتا ہے تو ظاہر ہے لتا منگیشکر کی اس سے بہتر تعریف اور نہیں ہو سکتی۔

کلاسیکی موسیقی کے ایک اور عظیم گلوکار پنڈت بھیم سین جوشی نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں لتا منگیشکر کے بارے میں ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا تھا۔

پنڈت بھیم سین جوشی نے کہا تھا: 'انھوں نے اپنی طاقتور آواز کے جادو سے لاتعداد گانوں کو امر کر دیا۔ ایسے گانوں کی فہرست بنانے بیٹھ بھی جائیں تو کام ادھورا ہی رہے گا۔'

لتا منگیشکر اور موسیقی ایک دوسرے کے مترادف تھے۔ چاہے وہ کسی بھی قسم کی موسیقی ہو۔ کلاسیکی موسیقی کے بہت سے گلوکاروں اور سازندوں نے ان سے تحریک لی ہے۔ ان میں جوان یا بوڑھے کی کوئی قید نہیں۔

پنڈت جسراج کا خاندان منگیشکر خاندان سے بہت قریب رہا ہے۔ ان کی بیٹی درگا جسراج نے لتا منگیشکر کی ایک اور خوبی بتائی جس سے شاید ان کے مداح واقف نہ ہوں۔

درگا جسراج نے کہا: ’لتا منگیشکر کو فوٹو گرافی کا اتنا شوق تھا کہ وہ وائلڈ لائف فوٹوگرافی کرنے کے لیے جنوبی افریقہ جاتی تھیں۔‘

’وہ گھر میں بھی ہمیشہ تصویریں کھینچتی رہتی تھیں۔ جب بھی صبح کے ریاض کے بعد انھیں وقت ملتا، وہ اپنے کیمرے کے ٹرائی پوڈ یا اس کے لینس کو ایڈجسٹ کرنا شروع کر دیتیں۔‘

وزیر اعظم اندرا گاندھی اور لتا کی ملاقات

پنڈت جسراج کی بیٹی درگا جسراج لتا منگیشکر سے متعلق ایک اور مشہور واقعہ یاد کرتی ہیں، جس کی وجہ سے درگا خود افسانوں کی سنہری تاریخ کا حصہ بن گئیں۔

وہ کہتی ہیں: 'ایک بار اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی ممبئی آئیں۔ وہ پریشان کن گرمیوں کے دن تھے۔ لوگوں کو معلوم ہوا کہ اندرا گاندھی ممبئی میں ہیں۔

'لہٰذا، جن علاقوں سے ان کی گاڑیوں کا قافلہ گزرتا وہاں سڑک کے دونوں طرف لوگوں کا ہجوم جمع ہو جاتا تھا۔‘

'اس دن، لتا منگیشکر بھی ٹرائی پوڈ اور کیمرے کے ساتھ اپنی بالکونی میں بیٹھی تھیں۔ جیسے ہی وزیر اعظم اندرا گاندھی کا قافلہ پیڈر روڈ پر پربھو کنج (لتا منگیشکر کی رہائش گاہ) کے سامنے پہنچا، دونوں مشہور شخصیات نے دور سے مُسکرا کر ایک ایک کا استقبال کیا۔‘

وہ اس دن کے بارے میں کہتی ہیں: ’میں اس دن کے بارے میں سوچتی ہوں کہ کیسے میں تاریخ کی دو عظیم اور طاقتور خواتین کی زندگیوں کا لازمی حصہ بنی۔‘

لتا کو ہیرے اور خوشبو بہت پسند

لتا جی کی شخصیت کی ایک اور خاص بات ان کی چیٹنگ کی عادت تھی۔ وہ ہمیشہ مذاق کرتی رہتی تھی اور انھیں لوگوں کو لطیفے سنانے کی عادت تھی۔

وہ اکثر اپنی حاضر جوابی اور لطیفوں سے لوگوں کو ہنساتی تھیں۔ بدلے میں وہ سامنے والے سے ایک لطیفہ سنانے کو کہتیں۔

سب جانتے ہیں کہ لتا منگیشکر کو ہیروں اور اچھے پرفیوم کا بہت شوق تھا۔ لتا کے مداح ان کی تمام خوبیوں اور ان کی زندگی کے ہر پہلو سے واقف ہوں گے۔

لیکن لتا جی میں اور بھی بہت سی ایسی خوبیاں اور عادات تھیں جن کے بارے میں شاید ان کے بڑے سے بڑے مداح بھی نہیں جانتے۔ انھیں کرکٹ کا بھی بہت شوق تھا اور وہ کھیل کی بہت سی باریکیوں سے واقف تھیں۔

بہت سے لوگ یہ نہیں جانتے ہوں گے کہ انھوں نے لندن میں لارڈز گراؤنڈ کے قریب ایک چھوٹا سا اپارٹمنٹ بھی خریدا تھا، تاکہ جب بھی وہاں کوئی بڑا میچ ہو، وہ وہاں رہ کر لطف اندوز ہو سکیں۔

لتا منگیشکر کو کرکٹ میچ دیکھنے کا اتنا شوق تھا کہ وہ کوئی بھی میچ نہیں چھوڑتی تھیں، چاہے وہ ہندوستان میں ہو یا دنیا میں کہیں بھی۔

لتا جی کی یہ خوبیاں ان کے دل میں چھپی خواہشات کا اظہار تھیں۔

ان کی یہ عادتیں اس بات کا بھی ثبوت ہیں کہ لتا جی زندگی کے ان تمام پہلوؤں سے جڑی ہوئی تھیں جن سے ہم جڑے ہوئے ہیں۔ وہ اس معاملے میں مستثنیٰ یا مختلف نہیں تھیں۔

دراصل لتا منگیشکر کی پہچان صرف موسیقی تھی۔ کیونکہ وہ خدا کی ایک خاص تخلیق تھیں جس کے گلے میں سُروں کا جادو بستا تھا۔

دنیا کے بڑے ادیبوں اور موسیقی کے نقادوں نے وہ سب کچھ لکھا ہے جو اس عظیم شخصیت کی صلاحیتوں اور کارناموں کے بارے میں لکھا جا سکتا تھا۔ اب ان میں اضافہ کرنے کے لیے کچھ نہیں بچا۔

لتا کے گائے ہوئے کچھ مشکل گانوں کو سن کر احساس ہوتا ہے کہ ایسی عظیم ہستیوں کو کبھی موت نہیں آتی۔ وہ امر ہو جاتی ہیں۔

اور اسی لیے ہمیں بار بار ان کو خراج عقیدت پیش کرتے رہنا چاہیے۔ تاکہ موسیقی کے شائقین اور آنے والی نسلوں میں ان کی یادیں ہمیشہ زندہ رہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.