جس کی لکھائی خراب ہو اس کو اکثر ڈاکٹر کو لقب مل جاتا ہے کہ ڈاکٹروں والی لکھائی ہے اور یہ بھی کہتے ہیں ڈاکٹر بننے کے لیے ڈگری کے ساتھ ساتھ خراب ہینڈ رائٹنگ کا ہونا بھی ضروری ہے۔ آج ہم آپ کو بتائینگے کہ ڈاکٹر کی لکھائی خراب ہونے کی اصل وجہ کیا ہے۔
یوں تو ڈیجیٹل میڈیا کے دور میں اکثر اسپتالوں میں ہاتھ سے لکھنے کا رواج کم ہوتا جارہا ہے تاہم اب بھی بیشتر ڈاکٹر کلینکس اور اسپتالوں میں ہاتھ سے ہی لمبے لمبے پرچے لکھ دیتے ہیں اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یہ صرف مخصوص لوگ ہی پڑھ سکتے ہیں باقی کسی کیلئے پڑھنا بالکل ممکن نہیں ہوتا۔
اگر آپ کسی ڈاکٹر کے لکھے نسخے کو دیکھیں تو کچھ بھی سمجھ نہیں آتا۔درحقیقت کچھ افراد کو تو لگتا ہے کہ خراب لکھائی ڈاکٹر بننے کا عمل کا ایک لازمی حصہ ہے اور بیشتر ڈاکٹر بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی لکھائی اچھی نہیں ہوتی اور لوگوں کو ان کی بات سمجھنے میں مشکل کا سامنا ہوتا ہے۔
یہ بھی واضح ہے کہ کسی بھی شعبے کے مقابلے میں ڈاکٹروں کو سب سے زیادہ لکھنا پڑتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ طب کے شعبے میں اگر ہر چیز کو لکھ کر درج نہ کیا جائے تو معاملات آگے نہیں بڑھتے۔
امریکا کے مرسی میڈیکل سینٹر کی ڈاکٹر روتھ بروٹو کہتی ہیں کہ اگر آپ روزانہ 10 سے 12 گھنٹے لکھتے ہیں تو ہاتھ کے لیے اس بوجھ کو برداشت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔بیشتر ڈاکٹروں کی لکھائی دن گزرنے کے ساتھ بدتر ہو جاتی ہے کیونکہ ان کے ہاتھ کے چھوٹے مسلز بہت زیادہ کام کرنے کے باعث تھک جاتے ہیں۔
ڈاکٹر روتھ کے مطابق ایک مریض کو بمشکل 15 منٹ تک ڈاکٹر سے اپنے طبی مسائل پر بات کرنے کا موقع ملتا ہے چونکہ محدود وقت میں بہت زیادہ مریضوں کو دیکھنا ہوتا ہے تو ڈاکٹروں کو اپنی تحریر اچھی کرنے کی بجائے سب سے کچھ لکھنے کی جلدی ہوتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جلد بازی کی وجہ سے بھی ڈاکٹرز کی لکھائی خراب ہوتی ہے اور کئی بار طبی اصطلاحات بھی مریضوں کو سر کھجانے پر مجبور کر دیتی ہیں، جو ہمارے لیے تو مشکل ہوتی ہیں مگر فارمسٹ کو معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر کیا کہنا چاہتا ہے۔