آغا جان: لالی وڈ کے روایت شکن فلم ساز جنھوں نے سلطان راہی کے ہاتھ میں گنڈاسہ تھمایا

حسن عسکری نے ایک ایسے وقت میں بابرہ شریف سے ایک مُنتقِم دوشیزہ کا کردار ادا کروایا جب فلم کی ہیروئین نزاکت اور حسن و جمال کا پیکر تصور کی جاتی تھیں اور یہی کردار فلم کی کامیابی کی وجہ بنا۔ اِسی طرح فلم ’میلہ‘ میں انجمن کا کردار بھی اس بات کی گواہی ہے کہ آغا جان نے انجمن سے ’میلہ‘ کا کردار کروا کے ان کے اندر روایتی ہیروئن کے تاثر کو توڑ دیا۔

پاکستانی فلموں کے سینیئر فلم ڈائریکٹر حسن عسکری 30 اکتوبر کو وفات پا گئے۔ لوگ اُنھیں حسن عسکری سے زیادہ آغا جان کے نام سے جانتے اور یاد کرتے تھے۔

آغا جان سے اُمید کی جاتی تھی کہ جب تک وہ حیات ہیں کچھ نہ کچھ ایسا کر جائیں گے جو ملکی سینما کی کایا پلٹ دے گا۔ انھوں نے احمد ندیم قاسمی کے افسانے سے گنڈاسہ نکال کر سلطان راہی کے ہاتھ میں ایسا تھمایا کہ یہ ’آلہ قتل‘ راہی صاحب کے وجود کا حصہ بن گیا۔

آغا جان ایک نرم خُو اور حلیم الطبع انسان تھے۔ بظاہر ایسا دکھائی نہیں دیتا تھا کہ اُن کے اندر ایک تلاطم ہے جو نِت نئی کہانیاں بُنتا رہتا ہے یا اپنے کرداروں کے مُنہ میں ڈالنے کے لیے مکالمے سوچتا رہتا ہے یا فلمبندی کے لیے لوکیشنز مارک کرتا رہتا ہے۔

آغا جان ایک کایہ پلٹ ہدایت کار کے طور پر پہچان رکھتے تھے۔ اُن کی ہمہ جہتی سوچ کا براہِ راست اثر اداکاروں اور اداکاراؤں کے فنی دھاروں کو موڑ دینے کی صلاحیت رکھتا تھا۔

وہ فلم اور ادب کو لازم و ملزوم سمجھتے تھے اسی لیے اُن کی فلموں کے ڈائیلاگز میں ادبی چاشنی نمایاں دکھائی دیتی ہے۔

میلہ اور سلاخیں: فلمی کریئر میں 58 فلموں کی ہدایت کاری

حسن عسکری نے ایک ایسے وقت میں بابرہ شریف سے ایک مُنتقِم دوشیزہ کا کردار ادا کروایا جب فلم کی ہیروئین نزاکت اور حسن و جمال کا پیکر تصور کی جاتی تھیں۔

لیکن فلم ’سلاخیں‘ میں بابرہ شریف کے انتقام لینے والی لڑکی کے کردار کو لوگوں نے سراہا اور یہی کردار فلم کی کامیابی کی وجہ بنا۔

اِسی طرح فلم ’میلہ‘ میں انجمن کا کردار بھی اس بات کی گواہی ہے کہ آغا جان نے انجمن سے ’میلہ‘ کا کردار کروا کے ان کے اندر روایتی ہیروئن کے تاثر کو توڑ دیا۔ حسن عسکری نے اِس بات پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی کہ ’فلم کی کوئی زبان نہیں ہوتی۔‘

اُنھوں نے بیک وقت اردو اور پنجابی فلموں کو اپنی بہترین صلاحیتوں سے کامیاب کروایا۔انھوں نے اگر ایک جانب وحشی جٹ، میلہ، گنڈاسہ جیسی پنجابی فلموں کو سُپر ہٹ کروایا تو دوسریجانب ’دوریاں‘، ‘تیرے پیار میں‘ اور ’سلاخیں‘ جیسی فلموں کو عوامی پذیرائی بھی دلوائی۔

بلا شبہ حسن عسکری ایک سچے اور سُچے فنکار تھے اور ان کی منکسر المزاج شخصیت ان کا خاصہ تھی۔

حسن عسکری کے فلمی سفر کا آغاز کیفی اور وحید ڈار صاحب کی فلموں سے ہوا اور یہ دونوں ہدایت کار ان کے استاد قرار پائے۔یقیناً انھوں نے اپنی صلاحیتوں سے اپنے اساتذہ کا نام روشن کیا ہے۔

اگرہم حسن عسکری کا فلمی سکور دیکھیں تو وہاں کامیابیوں کا تناسب نمایاں دکھائی دے گا۔ 78سالہ حسن عسکری نے اپنے فلمی کریئر میں 58 فلموں کی ہدایت کاری کی جن میں 18 اردو، 32 پنجابی اور دو پشتو فلمیں شامل ہیں۔

’کا ش ہم وقت کو روک سکتے‘

اداکارہ انجمن اپنے ساتھی کو الوداع کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئیں۔ انجمن نے کہا کہ حسن عسکری طبع زاد فنکار ہونے کے ساتھ ساتھبہت بڑے انسان بھی تھے۔

’وہ مجھے بھی آغا جی کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے۔ میں اُن سے کہتی کہ عسکری صاحب آپ نے اپنا نام مجھے دے دیا ہے اور وہ اپنی مخصوص مسکراہٹ اور دھیمی آواز میں ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ آپ لوگوں کے لیے انجمن ہیں، لیکن میرے لیے آغا جی ہیں۔‘

’میرے کیرئیر کاآغاز تو 1973میں ہوا تھا اور 13سال بعد حسن عسکری نے میرا فلمی امیج تبدیل کردیا تھا۔‘

انجمن کہتی ہیں کہ ’سلطان راہی مرحوم کی ہیروئن ہوتے ہوئے میرا روایتی امیج ایک ڈانسر ہیروئن کا بن گیا تھا لیکن حسن عسکری نے پنجابی فلم ’میلہ‘ سے اسے بدل دیا تھا۔‘

مذکورہ فلم میں سلطان راہی اور سینئر اداکار اجمل خان کے کردار بھی غیر روایتی تھے۔ روایتی پنجابی فلم میں عورت صرف مظلوم دکھائی جاتی ہے یا پھر وہ بہادر ہیرو کی معشوقہ ہوتی جو متشدد ماحول میں ناچتے ہوئے فلم کے موڈ کو لائٹ کرتی ہے۔

لیکن ’میلہ‘ میں حسن عسکری نے پاکستانی سنیما سکرین کے ساتھ ساتھ انجمن کا امیج بھی بدل دیا تھا۔

انجمن نے بتایا کہ ’آغاجی سے میری ملاقات کچھ دن پہلے ہوئی تھی۔ وہ میرے گھر آئے تھے اور ہم دیر تک بیٹھے گذرے وقت کو یاد کرتے رہے۔ اس کے بعد انھوں نے اجازت چاہی اور چلے گئے۔‘

انجمن نے کہا ’آج سوچتی ہوں مجھے پتہ ہوتا کہ یہ ہم دونوں کی آخری ملاقات ہے تو میں انھیں کچھ دیر اور روک لیتی۔۔۔ کا ش ! ہم وقت کو روک سکتے۔‘

بابرہ شریف نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حسن عسکری جتنے بڑے فنکار تھے اتنے ہی حلیم انسان تھے۔ ’مجھ سمیت انھوں بہت سارے فنکاروں کے کیرئیر کو فائدہ پہنچایا لیکن کبھی جتلایا تک نہیں، ایسے لوگ کہاں ہوتے ہیں۔‘

بابرہ شریف نے کہا کہ ’میرے کیریئر میں عسکری صاحب کا کردار بہت اہم رہا ہے۔ سلاخیں، آگ اور پھر بیقرار عسکری صاحب اور میری ایسی فلمیں رہی ہیں جو اپنی زمانے اور وقت کی بڑی پروگریسو فلمیں تھیں۔‘

بابرہ شریف کہتی ہیں کہ ان کے موضوعات معاشرے کی ناانصافیوں اور ظلم سے اٹھائے گئے تھے۔

’ان فلموں میں اگر صرف میرے کرداروں کی بات کی جائے تو سب کے شیڈ بھی مختلف تھے اور یہ سارا کریڈٹ آغا صاحب کا تھا۔ میں نے ہمیشہ اقرار کیا ہے کہ شباب کیرانوی کے بعد حسن عسکری نے میری صلاحیتیوں سے بہترین انداز میں کام لیا ہے۔‘

’یقین جانیں مجھے اپنے اور اپنی فلموں کے بارے میں بات کرنا ذرا بھی مناسب نہیں لگتا، لیکن یہ موقع ایسا ہے کہ حسن عسکری صاحب کے حوالے سے بات کرنا ہے اور میں اپنا بھی تذکرہ کررہی ہوں۔‘

حسن عسکری کی فلم ’سلاخیں‘ اور خاص طور پر بابرہ شریف کا کردار انڈین فنکاروں کی ایلیٹ میں بھی سراہا گیا تھا۔

انڈیا میڈیا میں رپورٹ کیا گیا کہ برصغیر میں سب سے ممتاز تسلیم کئے گئے اداکار دلیپ کمار نےحسن عسکری کی فلم ’سلاخیں‘ میں بابرہ شریف کی پرفارمنس کا حوالہ دیتے ہوئے ہدایتکار سے کہا کہ ’اس اداکارہ کو میرے مقابل کردار میں کاسٹ کیا جائے۔‘

اس بات کا حوالہ انڈیا کے نامور فلم رائٹر جاوید صدیقی نے بھی اپنے لکھے آرٹیکل ’صاحب‘ میں دیا ہے۔

’حسن عسکری اپنی کہانیوں اور کرداروں کو دہراتے نہیں تھے‘

فلم رائٹر ناصر ادیب نے کہا کہ لوگوں کے لیے تو پاکستان کی نیم مردہ فلم انڈسٹری کا ایک بہت بڑا ڈائریکٹر مرا ہے لیکن ’حسن عسکری میرے تو باپ تھے، استاد اور مرشد تھے۔‘

’70 کی دہائی کا آغاز تھا اور میں نگارخانوں کے چکر کاٹ رہا تھا ، مجھے کوئی منھ نہیں لگاتا تھا ،اگر کوئی دفتر کے اندر بٹھاتا بھی تو چائے پانی آنے تک مجھے فارغ کردیتا۔ اس وقت میری کہانی صرف حسن عسکری نے سنی تھی۔‘

ناصر ادیب نے کہا کہ ’آدھی صدی قبل میں نے آغا جانی کی سرپرستی میں ’وحشی جٹ‘ کی کہانی، کردار اور سچویشنز کرافٹ کیں، مکالمے لکھے اور پھر سیلولائیڈ پر کرشمہ ہوگیا۔‘

ناصر ادیب نے کہا کہ ’جٹ سیریز کی جتنی بھی فلمیں ہیں ان کا کریڈٹ حسن عسکری کے کرافٹ کو دیتا ہوں۔ وحشی جٹ اور مولاجٹ کی باکس آفس پر غیر معمولی کامیابی کے بعد بھیڑ چال میں سینکڑوں فلمیں لکھی گئیں جن کا مرکزی کردار جٹ تھا لیکن یہ تمام فلمیں ڈبوں میں بند ہوتی رہیں۔‘

ناصر ادیب نے کہا کہ حسن عسکری اپنی کہانیوں اور کرداروں بھی دہراتے نہیں تھے۔

’طوفان ہماری ایک گولڈن جوبلی فلم تھی جس میں سلطان راہی کی بہن اداکارہ صاعقہ ریپ کردی جاتی ہے۔ میں سین لکھ کر آغا جی کے پاس لے گیا جس میں صاعقہ خودکشی کرلیتی ہے اور فلم آگے بڑھتی ہے۔ اس پر آغا نے میری کلاس لے لی اور کہاں اس لڑکی کی موت کی تمہارے پاس کیا توجیہ ہے؟‘

’میں نے کہا کہ ریپ شدہ لڑکی کو فلم کا غیرت مند بھائی ساتھ لیے پھرتا سکرین پر اچھا نہیں لگے گا۔ اس پر آغا نے مجھے کہا کہ لڑکی کا ریپ ہوا، اس کا قصور نہیں ہے۔ تم اگر رائٹر ہو تو اسے زندہ رکھو اور سنیما ہال میں بیٹھے لوگوں کی ہمدردیاں بھی حاصل کرو۔‘

ناصرادیب نے کہا کہ آغا جی کی بات مانتے ہوئے لڑکی کو سکرپٹ میں زندہ رکھا اور آغا حسن عسکری کا یہ فلمی معجزہ آج بھی سیلولائیڈ پر محفوظ ہے۔

فلم رائٹرمحمد پرویز کلیم، ہدایت کار شہزاد رفیق اور سید نور نے بھی اپنے ساتھی حسن عسکری کو بھر پور انداز میں خراج تحسین پیش کیا۔

حسن عسکری کو اپنے کام سے عشق تھا۔ وہ ملکی فلمی صنعت کے انتہائی انحطاط کے دور میں بھی روزانہ فلم سٹوڈیو آتے اور سارا دن فلم سٹوڈیوز کی راہداریوں میں گزار کر رات کو خالی ہاتھگھر لوٹ جاتے۔

نہ جانے کتنی کہانیاں، کتنے کردار اور دلوں میں گھر کر جانے والے مکالمے ان کے اندر مچل کر رہ جاتے لیکن اُن کہانیوں، کرداروں اور مکالموں کے اظہار کے ذرائع بند ہو کر رہ گئے تھے۔ ایسے میں وہی ہوتا ہے جو آغا جان کے ساتھ ہوا۔

آغا جان فلم سٹوڈیوز اور ان کی راہداریوں کو مزید ویران کر گئے ہیں۔ شاید کسی کے دل میں یہ احساس جاگ جائے کہ اظہارِ تخلیق کے ذرائع بند ہونے سےتخلیق کار دم توڑ دیتے ہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.