جس وقت انڈیا اور پاکستان کی افواج کے درمیان تنازع جاری تھا، اُس وقت فلم اور موسیقی کے محاذ پر بھی ایک لڑائی لڑی حالانکہ اس شعبے میں برسوں علاقائی ثقافتی محاذ پر ایک دوسرے سے محبت کا رشتہ رکھا گیا۔مئی کے اوائل میں ہونے والی دونوں ملکوں کی جنگ کو گزشتہ دہائیوں میں ثقافتی محاذ پر سب سے بدترین قرار دیا گیا جس نے فنکاروں کو متاثر کیا۔پاکستانی ریپر اور کامیڈین علی گل پیر نے برسوں قبل انڈین وزیراعظم نریندر مودی کا مذاق اڑاتے ہوئے ایک گانا ریلیز کیا تھا۔ اُس وقت تو اُن کو سرحد پار کچھ نہ کہا گیا مگر مئی میں ان کا یوٹیوب چینل اور انسٹاگرام پروفائل انڈیا میں بلاک کر دیا گیا۔علی گُل پیر نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’انڈین اب تسلیم کرتے ہیں کہ ڈیجیٹل سپیس پاکستانیوں اور ہندوستانیوں کے درمیان ایک پل کا کام کرتی ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ وہ اس رابطے کو منقطع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘دو طرفہ تعلقات میں تازہ خرابی اپریل میں انڈیا کے زیرِانتظام کشمیر میں سیاحوں پر ہونے والے حملے کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی، جس کا الزام نئی دہلی نے اسلام آباد پر لگایا تھا۔پاکستان نے اس الزام کی تردید کی تھی۔ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے خلاف سفارتی محاذ پر کارروائیاں کیں اور پھر دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان چار دن جنگ لڑی گئی۔اس تنازعے نے پہلی بار میوزک انڈسٹری کو نقصان پہنچایا۔ پاکستانی گلوکارہ انورال خالد نے بتایا کہ ان کی انڈیا میں فالوونگ ختم ہو کر رہ گئی ہے۔اُن کا کہنا تھا کہ ’پابندی سے پہلے دہلی میرے گانے سُننے والا سب سے بڑا شہر تھا۔ انورال خالد کے سپوٹیفائی پر 31 لاکھ فالوورز ہیں۔انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ انڈیا میں ’مجھے سامعین کے حوالے سے بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔‘
انڈیا اور پاکستان نے ایک دوسرے کی فلم انڈسٹری سے وابستہ افراد کے کام پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
انورال خالد نے مزید کہا کہ انڈیا میں ’سننے والوں کو محروم کر دیا گیا ہے کیونکہ موسیقی کو ایسی چیز میں تبدیل کر دیا گیا جو کہ وہ نہیں۔‘
تنازعے نے پلیٹ فارمز پر پہلے سے موجود گیتوں کو بھی متاثر کیا ہے، جیسے کہ انڈیا میں سپوٹیفائی سے سنہ 2017 کی فلم ’رئیس‘ کا ساؤنڈ ٹریک تبدیل کیا گیا ہے۔اس کی تصویر یا پوسٹر میں اب صرف اداکار شاہ رخ خان ہی دکھائی دے رہے ہیں، ان کی پاکستانی ساتھی اداکارہ ماہرہ خان کے عکس کو ہٹا دیا گیا ہے۔پاکستان میں ہر سال سنسرشپ کے سخت قوانین کے باعث صرف چند فلمیں ہی بنائی جاتی ہیں اس لیے وہاں بالی وڈ ہمیشہ سے ناظرین میں مقبول رہا ہے۔پاکستانی فلمی نقاد سجیر شیخ نے کہا کہ ’میں بالی وڈ کی فلمیں دیکھ کر بڑا ہوا۔ ہمارے ایک جیسے دُکھ ہیں، ہماری ایک ہی تاریخ ہے، ہماری ایک جیسی کہانیاں ہیں۔‘پاکستانی اداکاروں اور ہدایت کاروں نے دہائیوں سے بالی وڈ تک پہنچنے اور وہاں پہچان بنانے کے لیے محنت کی۔لیکن رواں ماہ انڈیا کے دلجیت دوسانجھ نے جب چار پاکستانی اداکاروں والی فلم ریلیز کرنے کا اعلان کیا تو اُن کو دھچکا لگا کیونکہ نئی دہلی حکومت نے وہاں پاکستانی اداکاروں اور پروڈکشن میں بننے والے مواد پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
طویل عرصے سے پاکستان میں انڈین فلموں کی نمائش پر پابندی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
دلجیت دوسانجھ کی نئی فلم ’سردار جی 3‘ اب انڈیا کے علاوہ دیگر ملکوں میں ریلیز کر دی گئی ہے۔
’عبیر گل‘ نامی فلم جس میں پاکستانی اداکار فواد خان اور انڈین اداکارہ وانی کپور نے ایک ساتھ کام کیا ہے اب اس کی ریلیز مؤخر کر دی گئی ہے۔ اس فلم کو 9 مئی کو شائقین کے لیے سینماؤں میں پیش کیا جانا تھا۔ایسی آوازیں جو ماضی میں دونوں ملکوں کے درمیان فلم کے شعبے میں تعلقات بہتر بنانے کے حق میں تھیں اب وہ بھی مخالفت میں بلند ہو رہی ہیں۔پاکستان اور انڈیا کے درمیان پُرامن تعلقات کو فروغ دیتی فلم ’میں ہوں ناں‘ میں کام کرنے والے انڈین اداکار سُنیل شیٹھی کہتے ہیں کہ ’ہر شے پر پابندی ہونی چاہیے۔ کرکٹ، فلم، سب کچھ بند کر دینا چاہیے۔‘پاکستان میں میوزک لیبل رکھنے والی وارنر بروز کی جنوبی ایشیا کی اسسٹنٹ مینجر دُعا زہرا کہتی ہیں کہ ’سیاست کی سب سے بڑی خرابی بدقسمتی سے یہ ہے کہ دراڑیں ڈالتی ہے اور آرٹ کو سرحدوں میں بند کر رہی ہے۔‘