سنہ 2008 میں ایگ جزیرہ دنیا کی وہ پہلی برادری بن گئی جہاں مین گریڈ سے علیحدہ بجلی کا نظام تھا جہاں شمسی، ہوا اور پانی کی توانائی سے بجلی بنائی جانے لگی۔ یہ تینوں نظام ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں تاکہ کسی بھی قسم کے موسم میں بجلی بننا بند نہ ہو
کشتی لہروں کے ساتھ ہچکولے کھا رہی تھی اور جزیرہ ایگ کے ساحل کے ساتھ جڑی ہوئی تھی۔ اس سے پہلے کے لوگ اترتے، کشتی میں لدا ہوا سامان اترنا شروع ہوا۔ اسی دوران اخباروں میں سے ایک رول گر گیا۔ اس سے پہلے کہ وہ کشتی سے پانی میں گر جاتا، کشتی کے عملے میں سے کسی نے اپنے پاؤں سے اسے روک لیا۔
کہنے کو تو یہ صرف ایک اخبار ہی تھا لیکن وہ لوگ جو پہلی بار اس جزیرے پر آ رہے تھے، انھیں بھی احساس ہو رہا تھا کہ یہ سامان یہاں رہنے والوں کے لیے کتنا اہم ہے۔
ایگ دراصل ان جزیروں میں سے ایک ہے جو سکاٹش انر ہیبرڈیز میں موجود ہیں اور انھیں ’سمال آئلز‘ کہتے ہیں۔ یہ وسطی سکاٹ لینڈ سے 15 میل کی دوری پر ہیں اور یہاں تک پہنچنے کے لیے ہفتے میں چند دن کشتی (فیری) چلتی ہے۔
اگر موسم ٹھیک ہو تو صرف اس صورت میں اشیائے ضروریہ وہاں تک پہنچتی ہیں۔ ایسی صورت میں کسی چیز کا بھی ضیاع ناقابلِ قبول ہوتا ہے۔
جزیرہ ایگ میں سکاٹش وائلڈ لائف ٹرسٹ کی رینجر نوراہ بارنز بتاتی ہیں کہ ’پائیداری‘ ہمیشہ سے جزیرے کے طرز زندگی کا حصہ رہا ہے۔ ’آپ کیا استعمال کر رہے ہیں اس کے بارے میں آپ کو زیادہ شعور ہوتا ہے۔ آپ سڑک کنارے کوئی چیز لینے کے لیے شاپنگ کرنے نہیں جا سکتے۔ ہمیں جو کچھ بھی چاہیے ہوتا ہے ہمیں کشتی سے آ کر لینا پڑتا ہے۔‘
سمال آئلز کے جزیرہ ایگ، کینا، سینڈی، رُم اور مک کی آبادی کل ملا کر 150 سے 200 لوگوں پر مشتمل ہے۔ ان سب میں ایگ دوسرا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ آبادی والا جزیرہ ہے۔ اس کی آبادی 110 افراد پر مشتمل ہے۔ اور اس تعداد کی وجہ سے ایک ایسی برادری بنی ہے جس نے مل کر جزیرے کے مستقبل کو اپنے ہاتھ میں لیا ہے۔
میں کشتی سے اترا اور نقشہ کھول کر دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا تو اتنے میں جزیرے کے رہائشی میرے آس پاس سے گزر رہے تھے۔
وہ کشتی سے سامان اٹھا رہے تھے، خط جمع کروا رہے تھے اور جزیرے کے واحد گروسری سٹور سے اشیا خرید رہے تھے۔ یہ سٹور پوسٹ آفس کا کام بھی کرتا ہے۔
اس کے علاوہ لوگ کیفے میں بیٹھ کر خبروں پر تبادلہ خیال بھی کر رہے تھے۔ یہاں ایک یادگار بھی نصب ہے جو سنہ 1997 میں رہائشیوں کی جانب سے جزیرہ خریدنے کی یاد میں رکھی گئی ہے۔
جزیرے کے زمیندار یا تو خود یہاں نہیں رہتے تھے یا انھیں اس کی ترقی میں زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ یہاں کے رہائشیوں کو یقین ہو گیا تھا کہ جزیرے کے اچھے مستقبل کے لیے مقامی رہائشیوں کے پاس مالکانہ حقوق ہونا ہی واحد راستہ ہے۔
آئل آف ایگ ہیریٹیج ٹرسٹ کی سیکریٹری میگی فائف نے مجھے بتایا کہ ’جزیرے کے رہائیشیوں کو اس بات کا اندازہ ہو گیا تھا کہ ہمیں ایک برادری نہیں ملے گی جب تک ہم خود سے نہیں بناتے۔‘
آئل آف ایگ ہیریٹیج ٹرسٹ کے پاس اس جزیرے کی ملکیت ہے۔
جب جزیرے کو 1996 میں فروخت کیا جا رہا تھا تو مقامی افراد نے رقم جمع کرنا شروع کی۔ ’رہائشیوں نے حصہ ڈالا، ہم نے ایک بڑی فنڈ ریزنگ کیمپین کی لیکن آخر میں ایک نامعلوم ڈونر نے 10 لاکھ پاؤنڈ دیے اور اس کی وجہ سے یہ جزیرہ ہم خریدنے میں کامیاب ہوئے۔‘
سیاح یہاں کئی وجوہات سے آتے ہیں لیکن ایگ ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جن کو کیمپنگ کا شوق ہے۔ یہ قدرتی خوبصوتی سے مالا مال ہے۔
اس جزیرے پر کسی قسم کی صنعت نہیں ہے جنھوں نے برطانیہ کے کئی علاقوں کی شکل تبدیل کر کے رکھ دی۔
نوراہ بارنز بتاتی ہیں کہ ’ہمارے یہاں بہت سخت زراعت یا کھیتی باڑی نہیں ہوتی۔ زمین کی تزئین جنگلی حیات کے لیے سازگار ہے۔ کمرشل ماہی گیری، بڑے پیمانے پر کھیتی باڑی نہیں ہوتی اور ساحل، ساحلی پٹی، سمندر کا پانی بالکل صاف ہوتا ہے۔‘
صاف آسمان کا مزہ لینے اور چوٹی سے نظارہ لینے کے لیے میں نے این سکُور یعنی اس جزیرے کی سب سے اونچی چوٹی پر جانے کی ٹھان لی۔ اس چوٹی کو سامنے سے دیکھیں تو یہ اس کالے پتھر کی ایسی بڑی دیوار لگتی ہے جسے سر کرنا ناممکن ہو لیکن اس کے عقب سے ایک راستہ ہے جو باآسانی اس کے اوپر تک پہنچا دیتا ہے۔
تقریباً 400 میٹر کی بلندی پر آپ کو دیگر جزیروں کے علاوہ وسطی سکاٹ لینڈ نظر آتا ہے۔ اس جگہ پر تیز ہوا چلنے لگی تو میری آنکھیں جزیرے کے ونڈ ٹربائنز کی جانب گئی۔
سنہ 2008 میں ایگ جزیرہ دنیا کی وہ پہلی برادری بن گئی جہاں مین گریڈ سے علیحدہ بجلی کا نظام تھا جہاں شمسی، ہوا اور پانی کی توانائی سے بجلی بنائی جانے لگی۔ یہ تینوں نظام ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں تاکہ کسی بھی قسم کے موسم میں بجلی بننا بند نہ ہو۔
توانائی کی ترسیل کو ممکن بنانے کے لیے بیک اپ جنریٹر ابھی بھی ہیں لیکن اکثریت توانائی کے قابلِ تجدید ذریعے سے پیدا ہوتی ہے۔
فائف سمجھاتی ہیں کہ ’ہم کتنی قابل تجدید توانائی کا استعمال کرتے ہیں اس کا انحصار موسم پر ہوتا ہے لیکن ہم نے 90 فیصد تک یہ کیا ہوا ہے۔‘
قابل تجدید توانائی کے نظام کے متعدد فوائد ہوئے ہیں۔ پہلے جزیرہ ڈیزل انجن پر منحصر تھا جو نوراہ بارنز بتاتی ہیں ایک در سر تھا کیونکہ ’آپ کو کشتی کے ذریعے ڈیزل منگوانا ہوتا تھا، پھر اسے بیرل میں ڈالنا ہوتا تھا پھر بیرلز کو گھر لے جا کر جنریٹر میں ڈالنا ہوتا تھا۔ یہ بڑا کام تھا۔ قابل تجدید توانائی نے لوگوں کی روز مرہ زندگی اور ماحول کو بہت بہتر کیا ہے۔‘
یہ خود انحصاری کی طرف ایک قدم ہے اور توانائی کے عالمی بحران کی وجہ سے دنیا بھر میں قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ میگی فائف بتاتی ہیں کہ قابل تجدید توانائی کی وجہ سے جزیرے میں روز مرہ کے اخراجات میں اضافہ نہیں ہوا۔ ’ابتدا میں ہمارے یونٹ کی قیمت وسطی سکاٹ لینڈ سے زیادہ تھی لیکن شاید اب یہ سستا ہے۔ ہم وقتاً فوقتاً اسے تھوڑا سا بڑھاتے تھے لیکن گذشتہ چند سالوں سے ہم نے ایسا نہیں کیا کیونکہ یہ سب کے لیے کافی مشکل وقت رہا ہے۔‘
لیکن جزیرے کے لوگ یہاں نہیں رکے بلکہ وہ مزید پائیداری لانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں میگی فائف کہتی ہیں کہ ’ہم ایک اور فیزیبیلیٹی سٹڈی کر رہے ہیں جس میں ہم یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہم کیسے کاربن نیوٹرل بن سکتے ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ وہ ایک ایسا گھر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جن میں ایئر سورس ہیٹ پمپ (بغیر گرڈ کی بجلی) استعمال ہوں گے تاکہ دیکھا جائے کہ یہ کتنے مؤثر ہیں۔ پھر لوگ اس سمت میں جا سکتے ہیں۔ ہمیں اس کے لیے مزید (بجلی کی) سپلائی چاہیے ہو گی۔ شاید تین بڑی ٹربائنز، حالانکہ یہ شروعات کی بات ہے۔‘
گرمی پیدا کرنے کے لیے جزیرے کے لوگ لکڑیاں جلاتے ہیں۔ ایگ پائیدار جنگلی پراجیکٹ چلا رہا ہے جس میں جہاں جلانے کے لیے لکڑی دی جاتی ہے اور ٹمبر کو برآمد کیا جاتا ہے وہاں جنگلات کی مدد کے لیے نوراہ بارنز بتاتی ہیں’نئے درختوں کی نرسری بنائی گئی ہے تاکہ جہاں پرانے درختوں کو کاٹا گیا تھا وہاں انھیں لگا دیا جائے۔
’کچھ کو ایندھن کے لیے استعمال کیا جائے گا اور کچھ کو جنگلی حیات کے لیے رکھا جائے گا۔ یہ مقامی نسل کے درخت ہیں جو اگ رہے ہیں۔‘
جزیرے پر آبادی اس وقت سب سے زیادہ ہے۔ ایگ کو باقی جزیروں کی طرح ’سیکنڈ ہومز‘ کا مسئلہ نہیں ہے۔ یعنی لوگوں کی ملکیت میں دوسرے گھر جسے وہ بہت کم استعمال کرتے ہوں۔ اس کے بجائے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کچھ رہائشی تو عارضی رہائش میں رہتے ہیں اور مستقل رہائش ملنا مشکل ہے۔
میگی فائف کہتی ہیں کہ ’ہم کوشش کر رہے ہیں کہ یہاں رہنے والوں کے لیے گھر فراہم کریں۔ ہمارے پاس کافی ایسے لوگ ہیں جو عارضی رہائش میں رہتے ہیں لہذا (ٹرسٹ) کرایہ پر دستیاب گھروں کو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ’بہت سارے لوگ کرائے کے مکان دستیاب ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔‘
تاہم جیسے جیسے انفراسٹرکچر بہتر ہوتا جا رہا ہے، طلب اور گروتھ میں یہ اضافہ ایک مثبت اشارہ ہے اور اس طرح جزیرے پر آبادی کم ہونے کا خدشہ بھی کم ہو جاتا ہے۔ یہاں پائے جانے والے جنگلی جانور بھی اب جزیرے پر واپس آنے لگے ہیں۔ ’چار سال پہلے معدوم ہونے والی سمندری چیلیں بھی جزیرے پر واپس آنے لگی ہیں اور گذشتہ تین سالوں سے ان کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘