جب واسکو دے گاما نے کیرالہ میں مکّہ جانے والے خواتین اور بچوں سے بھرے بحری جہاز کو نذر آتش کیا

25 مارچ 1497 کو واسکو دے گاما پرتگال کے دارالحکومت لزبن سے انڈیا کے لیے روانہ ہوئے۔ انھیں اس سفر کے لیے پرتگالی بادشاہ کی حمایت حاصل تھی۔ کئی مہینوں کے سفر کے بعد وہ انڈیا پہنچنے والے پہلے یورپی شخص بن گئے۔ اُن کے اس سفر کی وجہ سے انھیں یورپی تاریخ میں ایک ’ہیرو‘ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے لیکنانڈیا میں انھیں ولن سمجھا جاتا ہے۔
Getty Images
Getty Images
کیرالہ کی تاریخ میں واسکو دے گاما کو 'ولن' کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

’کیلو پرتگالی حکمرانی کے زیرِ سایہ پروان چڑھے۔ اُن کے ذہن میں صرف ایک ہی خیال تھا، واسکو کو ختم کرنا۔‘

مشہور ملیالم فلم ’ارومی‘ کے مرکزی کردار چیرکل کیلو کے بارے میں یہ مکالمہ ناظرین کو ان کی پہلی جھلک دکھانے سے پہلے پیش کیا جاتا ہے۔

اس فلم کے مرکزی کردار کیلو کی زندگی پرتگالی ملاح واسکو دے گاما کو ہلاک کرنے کے ایک ہی مقصد کے گرد گھومتی ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے انھیں بہت سی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ ایک انقلابی فوج بناتے ہیں اور پرتگالی فوج سے ٹکرا جاتے ہیں۔

اس جنگ میں، وہ اپنے بہترین دوست کو کھو دیتے ہیں۔ لیکن آخر کار انھیں نہ صرف اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ وہ اپنی جان بھی گنوا بیٹھتے ہیں۔

واسکو دے گاما کو قتل کرنے کی خواہش رکھنے والے ’چیرکل کیلو‘ ایک خیالی کردار ہیں۔ لیکن پرتھوی راج کا اس کردار کو فلم ’ارومی‘ میں پیش کرنا ایک اچھا تجربہ ثابت ہوا اور کیرالہ میں یہ فلم بہت مقبول ہوئی۔ فلم بینوں نے اس فلم کی بے انتہا تعریف کی اور اسے خوب سراہا۔

اگرچہ واسکو دے گاما نے انڈیا پہنچنے کے لیے سمندری راستہ دریافت کیا لیکن انھیں کیرالہ میں ملیالم فلموں، لوک کہانیوں اور گانوں میں ولن کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

25 مارچ 1497 کو واسکو دے گاما پرتگال کے دارالحکومت لزبن سے انڈیا کے لیے روانہ ہوئے۔ انھیں اس سفر کے لیے پرتگالی بادشاہ کی حمایت حاصل تھی۔

کئی مہینوں کے سفر کے بعد وہ انڈیا پہنچنے والے پہلے یورپی شخص بن گئے۔ اُن کے اس سفر کی وجہ سے انھیں یورپی تاریخ میں ایک ’ہیرو‘ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

ہماری درسی کتابوں میں بھی واسکو دے گاما کے تجارتی مقاصد کے لیے انڈیا کے سفر اور ان کی تجارت کے معاملے میں ان کے اہم کردار کا ذکر ہے۔

یورپ کے باسیوں کا انڈیا پہنچنے کا خواب

Getty Images
Getty Images
یہاں اس تصویر میں واسکو دے گاما اور کولیکوڈا (کالیکٹ) کے بادشاہ کے درمیان ملاقات کو دکھایا گیا ہے

امریکی مؤرخ چارلس ای نوویل نے اپنی کتاب ’دی گریٹ ڈسکوریز‘ میں واسکو دے گاما کے بارے میں لکھا ہے۔

واسکو دے گاما، جنھیں انڈیا کے ساتھ براہ راست رابطہ قائم کرنے کا موقع ملا تھا ایک مضبوط جسم اور مضبوط کردار کے حامل شخص تھے۔ اگرچہ وہ ناخواندہ، ظالم اور متشدد تھے، لیکن وہ وفادار اور بے خوف تھے۔‘

انھیں انڈیا کی جانب سفر کرنے اور وفد کی قیادت کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ کیونکہ ایسا مشکل کام کسی نرم مزاج شخص کے بس کی بات نہیں تھی۔‘

جنوری سنہ 1497 میں پرتگال کے بادشاہ مینوئل اوّل نے واسکو دے گاما کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ ’یورپ کے انڈیا پہنچنے کے خواب‘ کو پورا کریں۔

صدیوں سے بہت سے یورپی ممالک انڈیا پہنچنے والے پہلا ملک بننے کے کوشش میں تھے۔ یہاں تک کہ پرتگال جیسا چھوٹا سا ملک بھی اسی دوڑ میں شامل تھا۔

تاہم عرب اور فارسی تاجر پہلے ہی انڈیا پہنچ چکے تھے اور وہاں اپنی تجارت شروع کرنے کے ساتھ ساتھ قدم جما چُکے تھے۔ یہ مسالے، خاص طور پر جنوبی انڈیا کے مالابار علاقے (موجودہ کیرالہ)سے مسلم تاجروں کے ذریعہ لائے گئے تھے۔

مؤرخ جان ایف رچرڈز اپنی کتاب مغل سلطنت میں لکھتے ہیں کہ ’پرتگالیوں کی آمد سے پہلے گجرات، مالابار اور بحیرہ عرب کی بندرگاہوں پر مسلمانوں اور اُن کے بحری جہازوں کا غلبہ تھا۔‘

کولمبس سنہ 1492 میں امریکہ پہنچے۔ وہ آخری دن تک اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ جس زمین کو انھوں نے دریافت کیا ہے وہ ایشیا کا حصہ ہے اور انڈیا ان کے قریب ہے۔

جارج ایم ٹولے اپنی کتاب ’دی وائجز اینڈ ایڈونچرز آف واسکو دے گاما‘ میں لکھتے ہیں کہ ’یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اس علاقے میں رہنے والے لوگوں کو ’انڈین‘ کہا۔‘

یورپ کے رہنے والوں کے لیے انڈیا پہنچنے کے لیے بے چینی کی بنیادی وجہ ان کے ذہنوں میں موجود انڈیا کی دلچسپ تصویر تھی۔

یورپ میں انڈیا کو سونے، ہیروں، قیمتی پتھروں، مرچ جیسے مہنگے مسالوں اور دیگر خزانوں سے بھری ایک امیر سرزمین کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ لہٰذا ایشیا، خاص طور پر انڈیا، یورپیوں کے لیے بہت پرکشش جگہ سمجھا جاتا تھا۔

Getty Images
Getty Images
1497 میں پرتگال کے بادشاہ مینوئل اول نے واسکو دے گاما کو 'انڈیا تک پہنچنے کے پرتگالی خواب' کو پورا کرنے کا کام سونپا۔

ولیم لوگن کی کتاب ’مالابار مینوئل‘ میں لکھا ہے کہ ’واسکو دے گاما جب سنہ 1497 میں اسسمندری مہم کے لیے روانہ ہوئے تو اُن کا وفد تین بحری جہازوں پر سوار تھا۔‘

’ساؤ رافیل‘، ’ساؤ گیبریل‘ اور ’ساؤ میگوئل‘۔ ان میں سے ہر جہاز پر افسران، ملاح اور عملے کے دیگر افراد شامل تھے۔‘

جب واسکو دے گاما پہلی بار انڈیا آئے تو ان کے ساتھ ایک بہت چھوٹی سی فوج تھی۔

مختلف تاریخی واقعات اس بارے میں مختلف معلومات فراہم کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ کتنے لوگ تھے۔ لیکن ایک بات یقینی ہے کہ اُن کے ساتھ آنے والوں میں کچھ جرائم پیشہ افراد بھی شامل تھے۔

کتاب ’ایم نوم ڈیوس: دی جرنل آف دی فرسٹ وائج آف واسکو دے گاما ٹو انڈیا 1497 سے 1499 میں کہا گیا ہے کہ واسکو دے گاما کی سمندری مہم کے دوران دس مجرموں کو ملک سے نکال دیا گیا تھا۔‘

پرتگال کے بادشاہ نے ان کے جرائم معاف کر دیے اور انھیں اس مہم میں مدد کے لیے بھیجا گیا۔ تاہم بعض مؤرخین اس کے پیچھے ایک مختلف وجہ بھی بیان کرتے ہیں۔

یعنی کہا جاتا ہے کہ اس وقت کے بادشاہ نے سوچا ہوگا کہ اتنے خطرناک سمندر کا سفر کرتے ہوئے پرتگالی جیل میں بیکار مرنے سے بہتر ہے کہ واسکو کی مدد کرتے ہوئے سمندر میں مر جائیں۔

ان مجرموں میں سب سے اہم ایک 'نیو کرسچن' تھے جن کا نام ایوو نونس تھا۔

یعنی وہ حال ہی میں تبدیل ہونے والے یہودی تھے۔ وہ تھوڑی سی عربی اور عبرانی بولنا جانتے تھے۔

کتاب ’دی جرنل آف دی فرسٹ وائج آف واسکو دے گاما ٹو انڈیا' کے مطابق 'جو ایوو نونز ذہین تھے۔ وہ مسلمانوں کی زبان کو سمجھتے تھے۔‘

کیا وہ انڈیا میں قدم رکھنے والے پہلے یورپی مجرم تھے؟

Getty Images
Getty Images
یہ نقشہ واسکو دے گاما کے سفر کو ظاہر کرتا ہے، نقطے والی لکیر 1497 میں انڈیا کے لیے ان کے پہلے سفر کی نشاندہی کرتی ہے۔

جب واسکو کا جہاز 20 مئی 1498 کو کیرالہ پہنچا تو ان کے جہاز کے ساحل سے کچھ ہی فاصلے پر سمندر میں کھانے کا انتظام کیا گیا تھا۔

تاریخ بتاتی ہے کہ واسکو دے گاما پہلی بار کیرالہ کے کولی کوڈ ضلع کے کپڑ گاؤں میں انڈیا میں اترے تھے۔

لیکن درحقیقت، مورخ اور ماہر تعلیم ایم جی ایس نارائنن کے مطابق انھوں نے اس سے پہلے کولم ضلع کے قریب پنڈالیانی علاقے کا دورہ کیا تھا۔

’مالابار ساحل سے چار چھوٹی کشتیاں واسکو کے جہازوں کے قریب پہنچیں اور وہاں کے لوگوں سے پوچھ گچھ کی۔ خاص طور پر انھوں نے پوچھا 'واسکو کس ملک سے آئے ہیں؟‘

’درحقیقت اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ واسکو دے گاما انڈیا میں قدم رکھنے والے پہلے یورپی نہیں تھے، بلکہ ایک ’مجرم‘ تھے۔‘

کیونکہ کتاب ’واسکو دے گاما اینڈ دی سی روٹ ٹو انڈیا‘ کے مطابق ’جہازوں کو روکنے کے بعد واسکو نے مالابار کشتیوں کے ساتھ ایک ایسے شخص کو ساحل پر بھیجا جو عربی اور عبرانی بول سکتے تھے۔‘

اس لحاظ سے مالابار کے ساحل تک پہنچنے والے پہلے یورپی شاید ایک ’حال ہی میں اپنا مذہب تبدیل کرنے والے یعنی ’نئے عیسائی ایوو نونس تھے جو عربی اور عبرانی جانتے تھے۔ تاہم، اس بات کو ثابت کرنے کے لیے دستاویزات کافی نہیں ہیں۔‘

انڈیا کا پہلا دورہ مایوس کن انداز میں اختتام پذیر

Getty Images
Getty Images
واسکو دے گاما کا جہاز 'ساؤ گیبریل'

اس طرح کیرالہ کے ساحل پر اترنے والے مترجم کو وہاں رہنے والے دو عربوں کے پاس لے جایا گیا۔ لیکن وہ واسکو کے مترجم کو اپنا دشمن سمجھتے تھے۔

وہ چلائے ’تہمیں شیطان لے جائے!‘

پھر انھوں نے اُن سے پوچھا کہ ’تم یہاں کیوں آئے ہو؟‘

اس پر واسکو کے آدمی نے کہا کہ ’ہم عیسائی ہیں اور یہاں مسالوں کی تلاش میں آئے ہیں۔‘

اس طرح انڈیا آنے والے پہلے یورپی اور عرب تاجروں کے درمیان اس بات چیت کا ذکر تاریخ کی کئی کتابوں میں ملتا ہے۔

اس کے بعد واسکو دے گاما چند منتخب آدمیوں کو اپنے ساتھ لے گئے اور باقی لوگوں کو جہاز پر محتاط رہنے کے لیے کہتے ہوئے مالابار کے ساحل پر اترے۔ تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں ان کا بڑے شائستگی اور احترام کے ساتھ استقبال کیا گیا۔

لیکن واسکو دے گاما کا انڈیا کا پہلا دورہ اتنا کامیاب نہیں رہا جتنا انھوں نے سوچا تھا۔

انھوں نے ہندو بادشاہ کولیکوڈا (جنھیں پرتگالی زمورین کہتے تھے) کو جو تحفے دیے تھے وہ انھیں بہت سادہ اور عام سے لگے اور اس پر ان کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔

مسالے کی تجارت پر غلبہ رکھنے والے عرب مسلمانوں نے پرتگالیوں کی آمد کی سخت مخالفت کی۔

مورخ ایم جی ایس نارائنن نے انگریزی اخبار دی ہندو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’پرتگالیوں نے کالی مرچ کی تجارت پر اجارہ داری کا مطالبہ کیا تھا، لیکن زمورین (کولیکوڈا کے بادشاہ) نے انکار کر دیا کیونکہ یہ تجارت مسلم تاجروں کے کنٹرول میں تھی۔‘

’اس کے بعد پرتگالیوں نے ریاست کوچی کے ساتھ اتحاد کیا اور وہاں تجارتی مراکز قائم کیے۔ بعد میں انھوں نے گوا کا رخ کیا جو وجے نگر سلطنت کے قریب تھا۔‘

واسکو دے گاما 1499 میں بہت کم مسالوں کے ساتھ یورپ واپس آئے۔ اس کے باوجود پرتگال میں ان کا بہت دھوم دھام سے استقبال کیا گیا۔

کے ایم پنیکر اپنی کتاب ’ایشیا اینڈ ویسٹرن ڈومینینز‘ میں لکھتے ہیں کہ ’انڈیا کے پہلے دورے کے بعد واسکو دے گاما کے جہاز سے لائے گئے مسالے بہت زیادہ منافع پر فروخت کیے جاتے تھے۔ اس تجارت سے حاصل ہونے والا منافع پورے سفر کی لاگت سے کئی گنا زیادہ تھا۔‘

یہ وہ لمحہ تھا جب پرتگالیوں کو انڈیا کی دولت کا احساس ہوا۔

واسکو کا انڈیا کا دوسرا دورہ

Getty Images
Getty Images
واسکو دے گاما کے جہاز پر کولیبری کے تاجروں کے پکڑے جانے کی تصویر

واسکو دے گاما کے انڈیا کے پہلے دورے (1497–1499) نے یورپ اور انڈیا کے درمیان ایک سمندری راہداری قائم کی لیکن وہ کیرالہ میں کولیکوڈا کے بادشاہ کے ساتھ ایک مضبوط تجارتی معاہدہ کرنے میں ناکام رہے۔

عرب مسلمان تاجر جو طویل عرصے سے بحر ہند میں مسالے کی تجارت پر حاوی تھے نے پرتگالیوں کی مذمت کی اور یہاں تک کہ انھیں نظر انداز بھی کیا۔

مورخ سنجے سبرامنیم اپنی کتاب 'دی کیریئر لیجنڈ آف واسکو دے گاما' میں لکھتے ہیں کہ ’واسکو کے مطابق کولیکوڈا کے مسلمان تاجر نہ صرف معاشی حریف تھے بلکہ مذہبی اور ثقافتی دشمن بھی تھے۔‘

’زمورین کے دربار میں ان کی متاثر کن پوزیشن پرتگالی خواہشات کی تکمیل کے لئے ایک بڑا چیلنج تھا۔‘

اس دھمکی کا جواب دینے کے لئے پرتگالی حکومت نے انڈیا کے دوسرے دورے کا منصوبہ بنایا۔ اس بار مقصد واضح تھا کہ ’انڈیا میں پرتگالی غلبہ قائم کرنا، پہلے سفر کی ناکامی کا بدلہ لینا اور مسالے کی تجارت پر اجارہ داری قائم کرنا۔‘

Getty Images
Getty Images
اس تصویر میں واسکو کے جہاز کو 'بحری جہازوں' پر حملہ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے

فروری 1502 میں واسکو دے گاما 20 جنگی جہازوں اور تقریباً 1500 فوجیوں کے ساتھ لزبن سے روانہ ہوئے۔ جہاز توپوں اور دیگر ہتھیاروں سے لیس تھے اور جنگ کے لئے تیار۔

اسی سال 11 ستمبر کو واسکو دے گاما کا طیارہ کیرالہ کے کنور کے ساحل پر پہنچا۔

اس کے بعد واسکو کے ایک عملے میں شامل ایک فرد نے اپنی کتاب 'دی جرنل آف دی فرسٹ وائج آف واسکو دے گاما ٹو انڈیا' میں بیان کیا ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ ’وہاں ہم نے مکہ سے آنے والے جہازوں کو دیکھا۔ یہ وہ جہاز تھے جو ہمارے ملک (پرتگال) میں مسالے لے جا رہے تھے۔ ہم نے ان جہازوں کو اس نیت سے لوٹا کہ صرف پرتگال کا بادشاہ ہی انڈیا سے براہ راست مسالوں کی تجارت کر سکے گا۔‘

’اس کے بعد ہم نے مکہ کے ایک بحری جہاز پر قبضہ کیا جس میں 380 مرد، بہت سی خواتین اور بچے سوار تھے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہم نے اس جہاز سے کم از کم 12 ہزار ڈوکٹ (سونے کے سکے) اور بہت سے دیگر قیمتی سامان لوٹ لیے۔ پھر یکم اکتوبر کو ہم نے طیارے اور اس میں سوار تمام افراد کو جلا دیا۔‘

یہاں جس 'مکہ شپ' کا ذکر کیا گیا ہے وہ ایک بڑا بحری جہاز ہے جس کا نام ’مری‘ ہے۔

مؤرخ کے ایم پنیکر کے مطابق یہ جہاز کولیکوڈا علاقے میں رہنے والے ایک امیر تاجر کھوجا قاسم کے بھائی کا تھا۔

واسکو کی فوج کے قبضے میں لیے گئے جہاز میں بہت سی خواتین، بچے اور بوڑھے عازمین حج کے لیے سفر کر رہے تھے۔ اس کے ساتھ ہی بحری جہاز کاروباری مقاصد کے لیے لائے جانے والے قیمتی سامان سے بھی بھرا ہوا تھا۔

’واسکو نے جہاز کو جلانے کا حکم دیا۔ جہاز میں سوار خواتین اپنے بچوں کے لیے رحم کی بھیک مانگتی رہیں۔ پرتگالی فوجی اپنے جہاز سے یہ سب دیکھ رہے تھے۔ اس طیارے میں سوار ہر فرد درد سے چیختا چلاتا ہوا ہلاک ہوگیا۔‘

کیسپر کوہیا اپنی کتاب ’لینڈس دی انڈیا‘ میں لکھتے ہیں کہ ’اس جہاز پر کوئی بھی زندہ نہیں بچا تھا۔ موت کے دہانے پر کھڑے لوگوں کی چیخیں پورے سمندر میں گونج رہی تھیں اور واسکو پر ان کا کوئی اثر نہیں ہوا، وہ اس طرح سے پرسکون تھے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔‘

واسکو دے گاما کی قیادت میں پیش آنے والے اس واقعے نے اس وقت کے کچھ پرتگالی لوگوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا تھا اور یہ ایک بڑی وجہ بن گئی کہ واسکو دے گاما کو کیرالہ کی تاریخ میں ’ولن‘کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘

Getty Images
Getty Images
اس تصویر میں واسکو دے گاما اور کننور کے بادشاہ کے درمیان ملاقات کے مناظر کو دیکھایا گیا ہے

یہ وہ وقت تھا کہ جب کیرالہ کئی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم تھا اور یہ پرتگالی غلبے کی ترقی کی وجوہات میں سے ایک تھا۔

مثال کے طور پر 'مری' واقعے کے بعد بھی واسکو کے جہاز کو کنور کے بادشاہ نے خوش آمدید کہا، جس کا ذکر کتاب 'دی جرنل آف دی فرسٹ وائج آف واسکو دے گاما ٹو انڈیا' میں کیا گیا ہے۔

'20 اکتوبر کو ہم کنور ریاست پہنچے۔ وہاں سے ہم نے ہر قسم کے مسالے خریدے۔ بادشاہ بڑی دھوم دھام سے آیا۔ ان کے ساتھ دو ہاتھی اور مختلف قسم کے عجیب و غریب جانور بھی تھے۔'

اس کے بعد واسکو دے گاما کا بیڑا کولیکوڈا چلا گیا۔ وہاں انھوں نے زمورین سے مطالبہ کیا کہ تمام مسلم تاجروں کو شہر سے نکال دیا جائے اور پرتگالیوں کو تجارت کرنے کی نہ صرف اجازت دی جائے اور وہ اپنی اجارہ داری قائم کر سکیں۔

لیکن زمورین بادشاہ نے آزاد تجارت کی حمایت کی اور واسکو کے مطالبے کو واضح طور پر مسترد کردیا۔ لہٰذا واسکو دے گاما نے کولیکوڈا شہر پر حملہ کر دیا۔

'ہم نے اپنے فوجیوں کو شہر کے باہر جمع کیا اور ان کے ساتھ جنگ تین دن تک جاری رہی۔'

'ہم نے بہت سے لوگوں کو پکڑ لیا اور انھیں جہازوں کے دروازوں پر لٹکا دیا۔ ہم نے ان کی پٹائی کی،ان کے ہاتھ، پاؤں اور سر کاٹ دیے۔ (جرنل آف واسکو دے گاما کے انڈیا کے پہلے دورے میں یہ سب کچھ درج ہے۔)

اس طرح آہستہ آہستہ پرتشدد کارروائیوں کے ذریعے اور 'آپ کے دشمن کا دشمن آپ کا دوست ہے' کی پالیسی کی بنیاد پر کیرالہ کے دیگر بادشاہوں کے ساتھ اتحاد کرکے پرتگالیوں نے کیرالہ میں اپنا غلبہ قائم کر لیا۔'

Getty Images
Getty Images
1524 میں واسکو دے گاما کو انڈیا کا پرتگالی وائسرائے مقرر کیا گیا۔

چارلس آر باکسر پرتگالی سیبورن ایمپائر میں لکھتے ہیں کہ 'یہ 'تقسیم کرو اور حکومت کرو' کی حکمت عملی تھی جو پرتگالی غلبہ قائم کرنے کے لئے مقامی سیاسی دشمنوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے تیار کی گئی تھی۔'

1998 میں کیرالہ میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ کی قیادت والی لیفٹ ڈیموکریٹک الائنس حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ واسکو دے گاما کی مالابار آمد کی 500 ویں سالگرہ کو 'بین الاقوامی سیاحتی دن' کے طور پر منائے گی۔ تاہم کیرالہ میں اس فیصلے کی سخت مخالفت کی گئی۔

اس پر تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ 'واسکو کے سفر اور اقدامات نے انڈیا میں یورپی نوآبادیاتی حکمرانی کا آغاز کیا۔ لہٰذا اس طرح کی تقریب کا جشن منانا درست نہیں ہے۔'

یہ کہا جا سکتا ہے کہ واسکو دے گاما یورپ کی نوآبادیاتی ذہنیت کے لئے ایک مؤثر ذریعہ تھے۔

واسکو دے گاما جنھیں پرتگالی سلطنت میں انڈیا یعنی ایشیا میں قدم رکھنے والے پہلے یورپی کے طور پر جانا جاتا ہے، وہ 1524 میں تیسری بار کیرالہ آئے۔ جنھیں پرتگالی حکومت کی طرف سے 'وائسرائے ہند' کا لقب دیا گیا تھا۔

واسکو دے گاما جب وہ کوچین پہنچے تو بعد میں بیمار ہوگئے اور24 دسمبر 1524 کو اُن کی وفات ہوئی۔

اس کے بعد 1539 میں اُن کی باقیات کو پرتگال لے جایا گیا اور دوبارہ وہاں دفن کیا گیا۔


News Source

مزید خبریں

BBC
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts