ملازمین جو چھپ کر آفس میں مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہیں:’ایسا لگا ویڈیو گیم کا چِیٹ کوڈ مل گیا‘

ٹیک کمپنیاں چیٹ جی پی ٹی جیسے مصنوعی ذہانت کے آلات پر پابندی لگا رہی ہیں لیکن ان کو استعمال کرنے والے ملازمین خفیہ طریقے سے ان تک رسائی کے طریقے نکال رہے ہیں۔
دفتر میں مصنوعی ذہانت
Getty Images

نومبر 2022 میں اوپن اے آئی نے چیٹ جی پی ٹی کو لانچ کیا اور اس کے بعد سے کمپنیاں اپنے ملازمین کو قابو میں رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

امریکہ کی ریاست میساچوسٹس میں ایم آئی ٹی کے سلوان سکول آف مینجمنٹ میں عالمی معاشیات اور انتظامی گروپ کے سربراہ سیمون جانسن کا کہنا ہے کہ بہت ساری کمپنیاں اس پریشانی کا شکار ہیں کہ ان کا ڈیٹا لیک ہو جائے گا۔مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ غیر اردی طور پر آپ اوپن اےآئی کے الگورتھم کو کمپنی کے حساس معلومات کے متعلق ٹرین کرتے ہیں بلکہ یہ مقابلے کی کمپنیوں میں کام کرنے والوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے یہ معلومات ان تک پہنچا سکتا ہے۔

اس کے باوجود کمپینیوں میں کام کرنے والے ملازمین کو یہ بہت پسند ہے اور وہ اس پر اپنے کاموں کے لیے انحصار بھی کرتے ہیں۔

واشنگٹن ڈی سی میں مقیم میک کینسی اینڈ کمپنی کے پارٹنر برائن ہینکوک کہتے ہیں ’یہ ایسے مخصوص آلات ہیں جن سے زندگی آسان ہو جاتی ہے، جیسا کہ کانٹنٹ ایگریگیشن۔ ایک غیر واضح تنظیمی پالیسی تلاش کرنے کے لیے کئی ذرائع سے تلاش کرنے کے بجائے، جیٹ جی پی ٹی لمحوں میں ایک مفید پہلا مسودہ فراہم کر سکتا ہے۔ وہ تکنیکی کامیوں میں بھی مدد کر سکتے ہیں جیسے کہ کوڈنگ اور ایسے روز مرہ کے کام مکمل کر سکتا ہے جس سے ملازمین کا ذہنی اور سکیجوئل پر بوجھ کم ہو جاتا ہے۔‘

برلن میں مقیم بزنس کنسلٹنٹ میٹ اور ان کے ساتھی ان پہلے لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے ریلیز کے کچھ ہفتوں بعد ہی اپنے آفس کے کاموں کے لیے چیٹ جی پی ٹی کا استعمال شروع کر دیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک رات میں اس چیٹ بوٹ نے ان کی دفتر میں زندگی بدل کر رکھ دی۔

میٹ کہتے ہیں ’ایسا لگ رہا تھا کہ آپ کو ایک ویڈیو گیم کا چیٹ کوڈ مل گیا ہے۔ میں نے اپنی پی ایچ ڈی تھیسس سے متعلق ایک انتہائی تکنیکی سوال پوچھا اس نے لحموں میں ایسا جواب دیا کو کسی کو بھی کچھ مخصوص صلاحیت رکھنے والے لوگوں سے مشورہ کیے بغیر نہیں پتا چل سکتا۔ مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ یہ ایک گیم چینجر ہے۔‘

ان کے تیز ماحول دفتر میں روز مرہ کے کام ایک دم سے آسان ہو گئے تھے۔ ایسے کام جن میں سائنسی موضوعات پر تحقیق کرنا، ذرائع کو اکٹھا کرنا اور گاہکوں کے سامنے مکمل پریزنٹیشن پیش کرنا شامل ہے۔ اس کا استعمال کرنے کی شرط صرف یہ تھی کہ میٹ اور ان کے ساتھی کو یہ بات خفیہ رکھنی ہے کہ وہ چیٹ جی پی ٹی استعمال کرتے ہیں۔ وہ اسے چھپ کر استعمال کرتے تھے اور زیادہ تر تب کرتے تھے جب وہ گھر سے بیٹھ کر کام کرتے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں اپنے ساتھیوں کے مقابلے میں ایک اہم مسابقتی فائدہ تھا، ہماری پیداوار بہت تیز تھی اور وہ سمجھ نہیں سکتے تھے کہ یہ کیسے ہو رہا ہے۔ ہمارے مینیجر بہت ہم سے متاثر ہوئے اور سینیئر انتظامیہ کے ساتھ ہماری کارکردگی کا ذکر کیا،‘

یہ ٹیکنالوجی تیزی سے ملازمین کا بیک چینل بن رہی ہے: پیشہ ورانہ سوشل نیٹ ورک فش باؤل کی طرف سے فروری 2023 کے ایک مطالعہ میں، کام پر مصنوعی ذہانت کا استعمال کرنے والے 5،067 جواب دہندگان میں سے 68٪ نے کہا کہ وہ اپنے مالکان کو استعمال سے متعلق نہیں بتاتے۔

اگر دفتر میں ان آلات پر پابندی نہیں بھی ہے تو بھی ملازمین اپنے ساتھیوں سے یہ بات چھپا کر رکھنا چاہیں گے۔

جانسن کہتے ہیں ’ ہمارے پاس ابھی تک مصنوعی ذہانت کے بارے میں کوئی اصول نہیں ہیں، ابتدائی طور پر ایسا لگ سکتا ہے جیسے آپ تسلیم کر رہے ہوں کہ اگر مشین آپ کے بہت سے کام کر رہی ہے تو آپ واقعی اپنے کام میں اتنے اچھے نہیں ہیں۔‘

اس کے نتیجے میں انٹرنیٹ پر فورمز بن رہے ہیں جہاں ملازمین اے آئی کے استعمال کو چھپا رکھنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ حکمت عملی بانٹ رہے ہیں۔ ریڈ اٹ جیسی کمیونیٹیز میں لوگ دفاتر میں پابندیوں سے بچنے کے لیے یا تو جدید ٹکنالوجی کے ذریعے حل دے رہے ہیں جیسے کہ چیٹ جی پی ٹی کو ایسے اپنے موبائل میں ڈالیں کہ اس کا شکل عام ایپ کی طرح ہو یا تھوڑے کم تکنیکی طریقے جیسے کہ اپنے دفتر کے کمپیوٹر پر پرائویسی سکرین ڈالنا یا دفتر کے الیکٹرانکس کے بجائے اپنے نجی موبائل فون کو چھپا کر چیٹ جی پی ٹی استعمال کرنا۔

اور جو لوگ اب مصنوعی ذہانت پر کافی انحصار کرتے ہیں انھیں ایسے طریقے ڈھونڈنے پڑیں گے جس سے دوسروں کی توجہ سے بچیں۔ اگست 2023 کے بلیک بیری سروے کے مطابق عالمی سطح کی 2000 بڑی آئی ٹی کمپنیوں میں سے 75 فیصد فی الحال کام کی جگہ پر چیٹ جی پی ٹی اور دیگر جنریٹیو اے آئی ایپلی کیشنز پر پابندی پر غور کر رہے ہیں یا ان پر عمل درآمد کر رہی ہیں اور 61 فیصد کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات طویل المدتی یا مستقل ہو سکتے ہیں۔

برائن ہینکوککہتے ہیں کہ ان پابندیوں سے شاید کمپنیاں اپنی حساس معلومات غلط لوگوں تک پہنچنے سے روک لیں لیکن جنریٹو اے ائی کو ملازمین سے طویل مدت تک دور رکھنے سے نقصان ہو سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں ’اے آئی آلات ملازم کی روزمرہ زندگی کا حصہ بننے کے لیے تیار ہیں لہازا یہ سوچ بتائے بغیر کہ کب اور کیسے ان کا استعمال شروع ہو گا ان پر پابندی لگا دینے سے مایوسی پیدا ہو سکتی ہے۔ اور اس کی وجہ سے لوگ کسی دوسری جگہ کام کرنے کے بارے میں سوچنا شروع کر سکتے ہیں جہاں ان آلات کے استعمال کی اجازت ہو گی جو انھیں چاہیے۔‘

جہاں تک میٹ کا سوال ہے انھیں ان پابندیوں کا حل مل گیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے ساتھیوں نے رازداری میں پرپلکسیٹی (Perplexity) نام کا سرچ انجن پلیٹ فارم استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہ چیٹ جی پی ٹی کی طرح کا مصنوعی ذہانت کا آلا ہے۔ میٹ کو یہ چیٹ جی پی ٹی سے بھی زیادہ پسند ہے۔ یہ اسی وقت رونما ہونے والی تفصیلات اور معلومات کے ذرائعے بھی دیتا ہے جس کی آپ جلدی سے تصدیق کر سکتے ہیں یہ اس وقت کے لیے بہت مفید ہوتا ہے جب آپ کو تفصیلات سے بھری ہوئی اور تازہ ترین معلومات اپنی پریزنٹیشن بنانی ہو۔

وہ ایک دن میں اس کا کئی سو بار اپنے دفتری لیپ ٹاپ پر استعمال کرتے ہیں اور گوگل سے بھی اس کا زیادہ استعمال کرتے ہیں۔

وہ امید کرتے ہیں کہ جب تک ممکن ہو وہ اپنے جدید ترین اے آئی ٹولز کو خفیہ طور پر استعمال کرتے رہیں۔ ان کے لیے دفتر میں کبھی کبھار اپنے لیپ ٹاپ کی سکرین کو مدھم کرنا اور باقی ٹیم سے اس ترغیب کو چھپائے رکھنا اس کے فوائد کے بدلے میں معمولی تکلیف ہے۔

وہ کہتے ہیں ’میں مسابقتی فائدہ کو برقرار رکھنے کو ترجیح دیتا ہوں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts