لنچ کے فوری بعد میر حمزہ نے جس ڈسپلن کا مظاہرہ کیا، وہ ڈیوڈ وارنر اور ٹریوس ہیڈ پر بہت گراں گزرا۔ میر حمزہ جب ہیٹ ٹرک چانس پر تھے، تب آسٹریلوی سکور کارڈ کی زبوں حالی شائقین کے لیے ایک نادر نظارہ تھا۔ تب یہ میچ یکسر پاکستان کی مٹھی میں آ چکا تھا۔ سمیع چوہدری کا کالم۔

میلبرن کی شام ڈھل رہی تھی اور پاکستان کے ارمان سرد پڑنے کو تھے مگر شاہین آفریدی جب آخری اوور کے لیے آئے تو شان مسعود نے غیر معمولی فیلڈ ترتیب دی اور شاہین کا شارٹ لینتھ پلان سٹیو سمتھ کی قیمتی ترین وکٹ لے اڑا۔
گو، اس آخری اوور کی وکٹ سے پاکستان کے ڈریسنگ روم پر یہ رات کچھ سہل ہو جائے گی لیکن یہ رات اس امکان سے کہیں بڑھ کر ہو سکتی تھی اگر لنچ کے بعد بھی پاکستانی فیلڈنگ کے حواس ویسے ہی مجتمع رہتے تھے جیسے پہلے سیشن میں رہے تھے۔
یہ صبح پاکستان کے خسارے کے ہمراہ طلوع ہوئی تھی۔ آسٹریلیا کی برتری خطیر تھی اور پاکستانی بیٹنگ کے چراغ بجھنے کو تھے مگر عامر جمال نے باقی ماندہ لوئر آرڈر کے ساتھ جو مزاحمت دکھائی، وہ قابلِ قدر تھی۔
اور جب آسٹریلیا دوبارہ بیٹنگ کے لیے اترا تو پاکستانی اٹیک کو نئی گیند کے ساتھ ساتھ ابر آلود آسمان بھی میسر تھا، جس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے شاہین آفریدی اپنے اس اصل پر لوٹے جو نئی گیند کے ساتھ ان کی پہچان بن چکا تھا۔
لنچ کے فوری بعد میر حمزہ نے جس ڈسپلن کا مظاہرہ کیا، وہ ڈیوڈ وارنر اور ٹریوس ہیڈ پر بہت گراں گزرا۔ میر حمزہ جب ہیٹ ٹرک چانس پر تھے، تب آسٹریلوی سکور کارڈ کی زبوں حالی شائقین کے لیے ایک نادر نظارہ تھا۔ تب یہ میچ یکسر پاکستان کی مٹھی میں آ چکا تھا۔

سٹیو سمتھ اپنے خول میں سرکتے جا رہے تھے اور مچل مارش محض بقا کی جنگ میں جتے تھے۔ میچ کی چال یہ بتا رہی تھی کہ پاکستان کسی تاریخی لمحے کی سمت بڑھ رہا ہے مگر تب یکے بعد دیگرے دو ایسے لمحے آئے کہ جہاں پاکستان اپنی گرفت کھو بیٹھا۔
جدید کرکٹ کے عظیم ترین فیلڈر جونٹی رہوڈز نے کہا تھا کہ سلپ فیلڈنگ صرف تبھی کی جا سکتی ہے جب آپ اس سے لطف اندوز ہو رہے ہوں اور ہاتھوں میں وہی ملائمت ہو جو بلے بازی کے وقت ہوا کرتی ہے مگر عبداللہ شفیق نہ تو فیلڈنگ سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور نہ ہی ان کے ہاتھوں میں وہ ملائمت تھی جو ان کی بلے بازی کا خاصہ ہے۔
گزشتہ تین سال کے اعداد و شمار کے مطابق سلپ فیلڈنگ میں کامیاب کیچز کے تناسب میں پاکستان کا ریکارڈ صرف سری لنکا سے قدرے بہتر ہے اور پاکستان اس فہرست میں پست ترین مقام پر نظر آتا ہے۔
جہاں پاکستان نے اپنی بیٹنگ کے بعد بولنگ کے ڈسپلن میں قابلِ قدر بہتری دکھائی ہے، وہاں اب پاکستان کو اس پہلو پہ بھی محنت کرنا ہو گی کیونکہ سلپ فیلڈنگ ٹیسٹ کرکٹ میں کلیدی اہمیت رکھتی ہے اور ایسے ضائع شدہ مواقع بسا اوقات میچ گنوانے کے مترادف ٹھہرتے ہیں۔

یکے بعد دیگرے یہاں بھی دو ایسے لمحات آئے جہاں پہلے حسن علی کی ایک خوبصورت گیند سٹیو سمتھ کے بلے کا باہری کنارہ چھو کر عبداللہ شفیق کے ہاتھوں کے عین سامنے گر گئی اور پھر ذرا سی دیر بعد عامر جمال کی ایک بہترین گیند مچل مارش کے بلے کو چھو کر عین عبداللہ شفیق کے ہاتھوں میں جا گری۔
مگر عبداللہ شفیق نہ تو اس لمحے میں مرتکز تھے اور نہ ہی وہاں ان کے ہاتھوں میں وہ ملائمت تھی کہ ان لمحات کو محفوظ کر پاتی جو پاکستان کے لیے تاریخ بن سکتے تھے۔
اگر وہ دونوں مواقع نہ گنوائے جاتے تو آج شام سے پہلے ہی آسٹریلوی اننگز تمام ہو چکی ہوتی اور ایک قابلِ حصول ہدف پاکستان کے سامنے ہوتا۔
لیکن اب سٹیو سمتھ کی مدافعت اور مارش کی جارحیت کے طفیل آسٹریلوی اننگز وہاں پہنچ چکی ہے کہ ایک خاطر خواہ ہدف چوتھی اننگز میں پاکستانی بیٹنگ کا امتحاں ہونے کو ہے۔ جو تاریخی کامیابی عین مٹھی میں تھی، اب پاکستان کے لیے دشوار تر ہوئی جاتی ہے۔