اس ایک اوور میں اوپر تلے تین وکٹیں اڑا کر ہیزل ووڈ نے پاکستانی بیٹنگ کو اس قدر عریاں کر چھوڑا کہ پھر اس کا بھرم ڈھانپنے کی سکت نہ تو محمد رضوان میں رہی اور نہ ہی عامر جمال اس کا بار اٹھا پائے۔

یہ کسی کے گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ ایک اوور اس قدر فیصلہ کن ثابت ہو گا کہ باقی ساری کارگزاری اپنی معنویت کھو بیٹھے گی۔ پیٹ کمنز نے جب گیند ہیزل ووڈ کو تھمائی، خود انھیں بھی امید نہ تھی کہ یہ پانچ منٹ اس قدر قہر ڈھائیں گے۔
لیکن وہ پانچ منٹ اس قدر گراں ثابت ہوئے کہ پانچ روزہ کھیل پہ بھاری پڑ گئے۔ پاکستان کی امیدوں کا سارا سفر ان پانچ منٹ میں سمٹ گیا اور تاریخ رقم کرنے کی جانب بڑھتے قدم خود تاریخ کے بوجھ تلے دب گئے۔
سعود شکیل کریز پر آئے تو پاکستان کے امکانات امید اور مایوسی کے بیچ ڈگمگا رہے تھے۔ یوں تو یہ دورہ سعود کے لیے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں رہا مگر سڈنی کی ٹوٹتی پھوٹتی پچ شاید ان کے لیے ایک آخری امید سی تھی۔
سست پچز پہ، سپن دوست کنڈیشنز میں سعود شکیل اپنی ٹیم کے لیے کس قدر مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں، یہ سب جانتے ہیں۔ پیٹ کمنز بھی اس امر سے آگاہ تو تھے مگر پھر بھی انھوں نے لیون کے ہمراہ ہی اٹیک جاری رکھا۔

لیکن جب نیتھن لیون کے داؤ پیچ سعود شکیل کی ہنرمندی کے سامنے ہیچ ہوتے نظر آئے، تب کمنز نے ہیزل ووڈ کو گیند تھمائی اور پھر ہیزل ووڈ کے ہاتھ میں گیند کو وہ پانچ منٹ ملے جنھوں نے اس ساری امید کو حسرت و یاس میں بدل دیا۔
اس ایک اوور میں اوپر تلے تین وکٹیں اڑا کر ہیزل ووڈ نے پاکستانی بیٹنگ کو اس قدر عریاں کر چھوڑا کہ پھر اس کا بھرم ڈھانپنے کی سکت نہ تو محمد رضوان میں رہی اور نہ ہی عامر جمال اس کا بار اٹھا پائے۔
اگرچہ پہلی اننگز میں انہی دونوں بلے بازوں نے یکے بعد دیگرے پاکستانی بیٹنگ کی ڈوبتی ناؤ کو بحال کیا تھا۔ مگر سڈنی کی پچ پہ چوتھا دن ہو اور نیتھن لیون کے ہاتھوں میں گیند ہو تو بیٹنگ کے کرشمے ناپید ہو رہنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔

پاکستان آسٹریلیا دو طرفہ ٹیسٹ کرکٹ کو بینو قادر ٹرافی کے نام سے موسوم کیا گیا ہے جو دو عظیم سپنرز رچی بینو اور عبدالقادر کی یاد مناتی ہے۔ مگر اس ٹرافی کے نتائج اس قدر یکطرفہ رہے ہیں کہ اب اس میں ’قادر‘ بے معنی سا دکھائی دیتا ہے۔
سنہ 2016 میں جب مصباح الحق کی ورلڈ چیمپئن ٹیم آسٹریلیا کے دورے سے ہزیمت سمیٹ کر نکلی تھی، تب ان سے سوال ہوا تھا کہ آسٹریلیا میں جیت کے لیے پاکستان کو کیا کرنا چاہیے، جس پہ ان کا جواب تھا کہ انڈر 19 اور اے ٹیم کے زیادہ دورے طے کیے جائیں تا کہ ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں کو آسٹریلین کنڈیشنز کا تجربہ مل سکے۔
ان کی اس تجویز کی تائید یہاں عامر جمال کی کارکردگی سے ہوتی ہے کہ جن کی ٹیسٹ کرکٹ میں یہ ڈیبیو سیریز تھی مگر آسٹریلیا میں سابقہ کلب کرکٹ کے تجربے کی بنیاد پہ وہ یہاں ہارے ہوئے لشکر سے بھی پلئیر آف میچ ٹھہرائے گئے۔
اگر پی سی بی افراد کی کشمکش سے ابھر کر ایک ادارہ بن پائے اور اپنے وقار کی شناخت کر پائے تو آسٹریلوی دوروں کی خفت آمیز تاریخ کو پلٹنا اتنا بھی بڑا پہاڑ نہیں۔
لیکن یہاں معاملات جس انداز سے چلائے جاتے ہیں، اگلی ایک دہائی میں بھی یہ تاریخ پلٹنے کا امکان کم ہی نظر آتا ہے۔