استاد راشد خان: وہ ’جادوگر‘ جو کلاسیکی موسیقی کو عام عوام کی دسترس میں لایا

تصویر
Getty Images

رواں ہفتے کے آغاز پر انڈین موسیقی کے ایک نامور نام، استاد راشد خان، کی موت نے اُن کے چاہنے والوں کو بہت دُکھی کر دیا۔

55 سالہ راشد خان کینسر کے ساتھ طویل جنگ کے بعد منگل کو کولکتہ کے ایک ہسپتال میں وفات پا گئے۔ وفات کے دو روز بعد انھیں سرکاری اعزاز کے ساتھ سپردِ خاک کر دیا گیا۔

ان کے بالوں میں چاندی چمکتی تھی اور وہ اکثر چمکدار پھولوں والی قمیضوں اور کرتوں میں ملبوس ہوتے تھے۔ روایتی کلاسیکل موسیقاروں کے برعکس استاد راشد خان کی وضع قطع تھوڑی مختلف تھی۔

لیکن بلاشبہ وہ اپنی نسل کے ایک ایسے فنکار تھے جنھوں نے کسی حد تک دولت بھی کمائی اور عوامی پذیرائی کا لطف بھی اٹھایا اور یہ ایک ایسی چیز تھی جو ماضی کے کلاسیکل گلوکاروں کے لیے عموماً نایاب ہوتی تھی۔

اپنے ہم عصر کلاسیکل گلوکاروں کے مقابلے میں وہ پرفارمنس فیس سب سے زیادہ لیتے تھے اور ان کے پروگرامز میں عموماً آڈیٹوریم سامعین سے بھرے ہوئے ہوتے تھے۔ اپنے کریئر کے عروج کے دنوں میں وہ ایک مہینے میں 20، 20 کنسرٹ بھی کرتے تھے۔

ان کی بے وقت موت نے انڈیا کو اس کے بہترین اور مقبول گلوکاروں میں سے ایک سے محروم کر دیا ہے۔ اُن کی خیال (موسیقی کی ایک صنف) گائیگی موسیقی کی عمومی درجہ بندیوں کو پیچھے چھوڑتی ہوئی عام لوگوں اور موسیقی کی سمجھ رکھنے والے بڑے ناموں میں یکساں معروف تھی۔

راشد خان ریاست اتر پردیش کے بدایون قصبے میں پیدا ہوئے اور ان کا تعلق موسیقی کے رامپور سہاسون گھرانے سے تھا۔ راشد خان کے اپنے مطابق اپنی نوعمری تک ان کی موسیقی میں کوئی بہت زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔

اُن کے گرو (استاد) اُستاد نثار حسین خان نے ان پر بہت محنت کی جو انھیں سارا دن ایک ہی نوٹ کو بار بار دہرانے کی مشق کرنے پر مجبور کرتے تاکہ ان کی گائیکی میں پختگی آ سکے۔ استاد نثار راشد خان کے سگے ماموں بھی تھے۔تاہم گھنٹوں پر محیط گائیگی کی مشق اور اس ضمن میں کی جانے والی سختیاں باغی طبعیت اور تفریح پسند راشد خان کو کچھ خاص نہیں بھائیں۔

یہی وہ حالات تھے جو نوجوان راشد کو کولکتہ میں موسیقی کی ایک خصوصی اکیڈیمی، آئی ٹی سی سنگیت ریسرچ اکیڈمی، لے آئے جہاں انھوں نے حقیقی معنوں میں موسیقی کی تربیت سے لطف اندوز ہونا شروع کیا اور وہاں موجود بڑے استادوں اور گائیکوں کے خیالات اور اثرات کو اپنی شخصیت میں جذب کرنا شروع کیا۔

سُریلی آواز کی خداداد صلاحیت کے بدولت انھیں اپنے استادوں کی نظروں میں آنے اور ان کی تعریفیں سمیٹنے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ 1990 کی دہائی میں اپنے گرو یعنی استاد کی موت کے بعد رامپور انداز میں گانے والے گلوکاروں میں ایک خلا پیدا ہو گیا تھا جسے راشد نے بہت تیزی سے پُر کر دیا اورپنڈت بھیمسین جوشی جیسے بڑے گائیک ان کے معترف ہوئے۔ جوشی نے ایک بار کہا تھا کہ راشد کی گائیکی کی شکل میں شمالی انڈیا کی کلاسیکی موسیقی کا مستقبل محفوظ ہے۔

معروف ستار نواز استاد شجاعت حسین خان کہتے ہیں کہ ’لیکن مرکزی دھارے میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد بھی راشد نے دنیا کی پرواہ کیے بغیر اپنی شرائط پر زندگی گزارنا جاری رکھی۔ وہ ایک ایسا گلوکار تھا جو بنیادی طور پر آہوں اور سُر کی آواز میں کلام کرتا تھا۔ ایک ایسا موسیقار جسے اپنے فن کا زیادہ احساس نہیں تھا اور ایک پرفارمر جس نے اٹھ کر گانا شروع کر دیتا۔ لیکن جب وہ گاتا تو سننے والوں کو اس کے ہنر کی عظمت کا اندازہ ہوتا۔‘

رامپور طرز گائیگی کی حدود میں تربیت حاصل کرتے ہوئے، جس میں پیچیدہ تال، تیز وضاحتیں اور بھرپور انداز میں آواز کی تھرو پر توجہ مرکوز ہوتی ہے، راشد خان نے بڑے گائیکوں کی طرح متعدد مواقع پر پہلے سے طے شدہ حدود کو عبور کیا اور اس طرز گائیکی میں نئے انگ متعارف کروائے۔

اُن کی پرانی دوست اور موسیقی کی نقاد، شیلجا کھنہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’انھوں نے رامپور روایتی گائیکی کی حدود کا پابند ہونے سے انکار کر دیا۔‘

گلوکارہ شوبھا مدگل کے مطابق راشد خان نے استاد امیر خان اور استاد بڑے غلام علی خان جیسے روایت شکن موسیقاروں کے مختلف انداز سے دل کھول استفادہ کیا اور ان کی گائیگی کی چیزیں مستعار لیں لیکن اُن کی نقل نہ کرنے کا انتخاب کیا۔

مدگل نے مزید کہا کہ ’موسیقی کے بارے میں راشد خان کا غیر روایتی انداز ہی تھا جس کی وجہ سے وہ اپنی آواز تلاش کر سکے۔

خیال گائیگی پر اپنی 2004 کی کتاب ’خیال آواز‘ میں معروف ماہر موسیقی دیپک راجہ نے انھیں ’جدیدیت کا شہزادہ‘ قرار دیا جس نے کلاسیکی شکلوں کا مکمل احترام کیا لیکن ’مرکزی دھارے کی انواع کے درمیان فرق کو دھندلا کرنے‘ میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ جو شاید اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ کیوں راشد ایک بہترین گلوکار بنے جنھوں نے اپنی گائیگی میں مختلف انداز شامل کیے ہیں۔

مدگل کا کہنا ہے کہ گائیگی کے اسی مختلف انداز کی بدولت انھوں نے بہت سے سامعین حاصل کیے یعنی انھیں سننے والے دیگر کلاسیکل گلوکاروں کے سامعین کی نسبت زیادہ تھے۔

اور یہی وہ بات تھی جو سامعین کو راشد سے محبت کرنے، ان کی عقیدت اور تعظیم کرنے اور ان کے سُروں پر سر دھننے پر مجبور کرتی تھی۔ انھیں گاتے ہوئے سننا ایک خوشگوار حیرت کا باعث بنتا تھا، کیونکہ ان کے گیت میں سُر نرم سُروں میں تبدیل ہو جاتے اور پھر اچانک وہ پیچیدہ تان کی شکل اختیار کر لیتے۔

اور ایک عاشق کا وہ نوحہ ’یاد پیا کی آئے‘، جسے کبھی استاد بڑے غلام علی خان نے گا کر امر کر دیا تھا، راشد کے کنسرٹ میں موسیقی کے سب سے زیادہ درخواست کردہ گانوں میں سے ایک تھا۔ اور وہ اپنی کلاسیکی پرفارمنس کے دوران ’آؤگے جب تم او سجنا، انگنا پھول کِھلیں گے‘ کو بھی شامل کرنے کو تیار ہو جاتے۔

بہت سے ناقدین نے اس چیز کو منظور نہیں کیا اور یہ بھی کہا کہ راشد نے حقیقت میں ہندوستانی کلاسیکل میوزک کے نایاب راگوں کی کھوج نہیں کی، اور یہ بعض اوقات وہ اپنی پرفارمنس میں ’میکینیکل‘ لگتے ہیں۔

مدگل کہتے ہیں ’لیکن وہ مطالبہ کرنے والے، آرتھوڈاکس سامعین کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کو بھی مطمئن کرنے میں کامیاب رہے جو انھیں ٹکٹ لے کر انھیں سننے آتے تھے اور جن کا راشد سے تعارف کسی بالی ووڈ فلم کے ذریعے ہوا تھا۔‘

کھنہ کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے کنسرٹس میں ایک ’مخصوص ماحول‘ بنا کر بھی عوام کے دلوں کو موہ لیا۔ سٹیج پر ان کی واضح موجودگی جس میں وہ ہمیشہ ساتھی موسیقاروں سے گھرے ہوتے جبکہ ان کے ساتھ ہارمونیم، سارنگی، تان پورا سمیت دیگر آلات موسیقی بجانے والے موجود ہوتے، اور یہ منظر دیکھنے والوں کو ایک اور ہی دنیا میں لے جاتا۔

جیسا کہ ان کے ایک مداح نے کہا کہ راشد کے کنسرٹ میں ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ان کو سننے والے سامعین بھی گنگنا رہے ہوں۔

ان کی ہم عصر گلوکارہ اشونی بھیڈے دیش پانڈے کو 2000 کی دہائی کے اوائل میں ان کی ایک پرفارمنس سے متاثر ہونا آج بھی یاد ہے۔

’ان کی گائی گئی ایک دھن، جو عموماً رات کے اوقات میں گائی جاتی ہے، مسلسل تین روز تک میرے دماغ پر سوار رہی۔ اُن کی موسیقی نے لوگوں کے حوصلے بلند کیے اور ان کی روحوں کو سکون بخشا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ان کی موت موسیقی کی دنیا کے لیے بہت بڑا نقصان ہے، وہ گائیکوں کی اُس قبیل سے تعلق رکھتے تھے جو راگوں میں زندگی بھر دینے کی نایاب صلاحیت کے حامل تھے۔

ان کے بہت سے شاگرد، جن میں ان کا بیٹا ارمان بھی شامل ہے، اب اُن کی موسیقی کی میراث کو آگے بڑھانے کی بڑی ذمہ داری نبھائیں گے۔ تاہم کھنہ کا ماننا ہے کہ ’لیکن کوئی بھی ان کی جگہ نہیں لے پائے گا، کم از کم مستقبل قریب میں۔‘

لیکن جو لوگ راشد کو ذاتی طور پر جانتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ شاید اُن کی موت بھی اُن کی زندگی اور اُن کی تخلیق کردہ موسیقی کی آئینہ دارتھی۔

شجاعت خان کہتے ہیں کہ ’وہ آئے، اپنی گائیکی سے نسلوں کو مسحور کیا اور پھر اٹھ کر چلے گئے۔ اور شاید اسی طرح ہمیں بھی انھیں یاد رکھنا چاہیے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.