جب لاہور کا منٹو پارک کے ایل سہگل اور محمد رفیع کی آواز سے گونج اُٹھا

image

سنہ 1937 میں کے ایل سہگل کی لاہور آمد اس شہر کی ثقافتی تاریخ کا بڑا اہم واقعہ ہے۔ سہگل کی آواز اور تصویر کو اس شہر کے باسی اچھی طرح پہچانتے تھے۔ برصغیر میں ان کی آواز کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔لاہور میں وہ آئے تو  ان کے دیوانوں نے دیدہ و دل فرشِ راہ کر دیا۔ منٹو پارک میں ان کی پرفارمنس کے تشہیری پوسٹر جگہ جگہ چسپاں کیے گئے۔ اخبارات میں اشتہارات شائع ہوئے۔

سینہ گزٹ سے بھی خبر دور دور تک نکلی۔ سہگل کی پرفارمنس دیکھنے کے لیے ٹکٹ کی قیمت ایک سے پانچ روپے مقرر ہوئی۔ ان کے عاشق جوق در جوق منٹو پارک پہنچے کہ ایسا موقع روز روز تھوڑی آتا ہے۔ ’دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے۔‘سہگل کے دورۂ لاہور کے بارے میں کئی لوگوں نے لکھا لیکن پران نول نے Lahore: A Sentimental Journey میں اس پر پورا باب باندھا ہے کہ وہ بھی وہیں موجود تھے اور شنیدہ کے بود مانند دیدہ۔پران نول نے اس دن کی فضا کو کچھ یوں بیان کیا ہے:’سہگل نے ٹویڈ کی جیکٹ،پولو گلے والی سویٹر اور گنجے ہوتے ہوئے سر پر براؤن ٹوپی پہن رکھی تھی۔ اپنے سادہ اور دلکش ظاہر کے ساتھ وہ بہت رومانٹک لگ رہا تھا جب اس نے حاضرین کو اپنی دلکش مسکراہٹ سے نوازا تو اس کی بھوری آنکھیں جگمگا اُٹھیں۔تالیوں کا بے پناہ شور اور کے ایل سہگل زندہ باد کے نعرے گونج رہے تھے۔ سہگل نے ہارمونیم سنبھالا اور جیسے ہی اس کی شاندار آواز فضا میں گونجی، پورے پنڈال میں سکوت طاری ہو گیا۔ اس نے اپنی معروف غزل چھیڑی: ’لگ گئی چوٹ کلیجوا میں۔‘اس کے بعد اس نے فلم دھوپ چھاؤں کے لیے گایا مقبول گانا گایا: ’اندھے کی لاٹھی تو ہی ہے، تو ہی جیون اجیارا ہے۔‘ پنڈال میں ہرطرف سےفرمائشوں کی بھرمار ہو گئی۔ سہگل کے چاہنے والے اس کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کے لیے بینچوں اور کرسیوں پر کھڑے ہو گئے۔ ہر طرف شور اور افراتفری مچ گئی۔‘ (ترجمہ:نعیم احسن)

قصہ مختصر، سہگل نے میلہ لُوٹ لیا۔ اس دن منٹو پارک میں سہگل کی آواز ہی نہیں گونجی بلکہ سماعتیں تیرہ برس کے اُس لڑکے کی آواز سے بھی آشنا ہوئیں، مستقبل میں جس کی آواز کا چار دانگ عالم  میں ڈنکا بجنا تھا۔ دنیا نے سہگل کے اس فین کو محمد رفیع کے نام سے جانا۔ ہوا کچھ یوں کہ پروگرام کے بیچ بجلی چلی گئی، گوش بر آواز حاضرین تک سہگل کی آواز نہ پہنچی تو ان میں بے چینی پیدا ہوئی جسے فرو کرنے کے لیے منتظمین نے محمد رفیع کو سٹیج پر چڑھا دیا۔

انہوں نے لاؤڈ سپیکر کے بغیر بلند آہنگ میں پنجابی لوک گیت گایا تو سب شانت ہو گئے۔ آواز نے انہیں مسحور کردیا۔ آواز کی ندرت سے سہگل بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ انہوں نے محمد رفیع سے کہا: ’تم ایک دن عظیم گلوکار بنو گے۔‘

سہگل کا عاشقِ صادق

تقسیم سے پہلے اہلِ لاہور کی سہگل سے محبت کا احوال آپ نے پڑھ لیا۔ تقسیم کے بعد بھی لاہور میں ان کے عشاق میں کمی نہیں آئی۔ ایک عاشقِ صادق کا قصہ ہم آپ کو سناتے ہیں۔

انتظار حسین کو بے مثال فکشن نگار اور نثر نگار کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن ان کی شناخت کا ایک حوالہ لاہور کے ادبی، تہذیبی اور ثقافتی مبصر کا ہے۔ اس شہر کے بارے میں ان کی کتاب ’چراغوں کا دھواں‘ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

دوسرے لاہور کے بارے میں وہ اخباری کالم جو انھوں نے مدتوں لکھے۔ یہ زندہ اور بھرے پُرے شہر کا ماجرا بیان کرتے ہیں جسے بنانے میں معروف لوگوں کا ہاتھ ہی نہیں بلکہ حاشیے میں پڑوں کا بھی کردار ہے۔

انتظار حسین کے دو کالموں سے میں نے سہگل کے بے نظیر شیدائی سے متعلق جانا اور خوب جانا۔

وہ لکھتے ہیں:

’نام علاؤ الدین مظہر۔ جالندھر کے مہاجر۔ جالندھر کی ایک ہی چیز انہیں لے دے کے یاد رہ گئی ہے۔ کے۔ ایل ۔ سہگل۔ آگے پیچھے نہ کوئی یاد رکھتے ہیں نہ کچھ سنتے ہیں۔ واضح ہو کہ اونچا سنتے ہیں۔ کان میں آلہ لگا رہتا ہے لیکن آلہ لگا کر بھی وہ صرف سہگل ہی کی آوازیں سنتے ہیں۔ اور سہگل کی ساری آوازیں ان کے پاس محفوظ ہیں۔

ان کا دعویٰ ہے کہ سہگل کا کوئی ایسا ریکارڈ نہیں جو ان کے پاس نہ ہو۔ سہگل جتنی فلموں میں آئے ان سب میں سے سہگل کی تصویریں انہوں نے جمع کر رکھی ہیں۔ سہگل پر جہاں جہاں جو کچھ لکھا گیا وہ بھی ان کے پاس اکٹھا ہے۔ یوں سمجھو کہ ان کا گھر سہگل میوزیم ہے۔ علاؤ الدین مظہر شہر میں سونگھتے پھرتے ہیں کہ کسے سہگل کے گانے پسند ہیں۔ آدمی کو سونگھا اور دبوچ کے اپنے گھر لے گئے۔ پھر جب تک سہگل کا ایک ایک ریکارڈ اسے سنا نہ دیں اسے بخشتے نہیں۔‘

کے ایل سہگل نے محمد رفیع سے کہا کہ ’تم ایک دن عظیم گلوکار بنو گے۔‘ (فوٹو: وکیپیڈیا)

علاؤ الدین مظہر کے بارے میں مزید جاننے کی کرید ہوئی تو میں نے معروف نقاد اور استاد  خواجہ محمد زکریا سے رابطہ کیا۔ وہ علاؤ الدین مظہر کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ سہگل کی برسی پر  سنت نگر میں علاؤ الدین مظہر اپنے گھر جو بزم سجاتے اس میں خواجہ صاحب  کئی دفعہ شریک ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ حاضرین سہگل کے جس ریکارڈ کی فرمائش کرتے وہ چلا دیا جاتا۔ اس وجہ سے انہیں علاؤ الدین مظہر کا یہ دعویٰ کہ ان کے پاس سہگل کے سارے ریکارڈ ہیں درست ہی لگتا ہے۔

خواجہ محمد زکریا نے بتایا کہ علاؤ الدین مظہر رشتے میں حفیظ جالندھری کے بھتیجے تھے۔ حفیظ صاحب ان پر اعتماد کرتے  اور اپنے بہت سے کام ان کے سپرد کر دیتے تھے۔ خواجہ صاحب کے نزدیک شخصی اعتبار سے وہ مرنجاں مرنج اور اپنے کام سے کام رکھنے والے بندے تھے۔ برسوں مکتبہ جدید پر کام کیا اور پھر خود بھی کتابوں کے کاروبار سے متعلق رہے۔

خواجہ محمد زکریا کو بتایا کرتے کہ تقسیم کے بعد لوگ لوٹ مار میں لگ گئے جبکہ انہوں نے توانائیاں سہگل کے ریکارڈ اکٹھے کرنے میں صرف کر دیں۔

انتظار حسین اور خواجہ محمد زکریا نے علاؤ الدین مظہر کے مکتبۂ جدید پر کام کرنے کی بات کی تو خیال آیا کہ ممتاز ادبی جریدے ’سویرا کے شریک مدیر ریاض احمد انہیں ضرور جانتے ہوں گے کہ یہ ادارہ ان کے چچا رشید احمد چودھری چلاتے تھے۔

ان کے والد نذیر احمد چودھری نیا ادارہ کے مالک اور سویرا کے بانی تھے۔ ریاض صاحب بچپن سے ہی والد کی اشاعتی سرگرمیوں کا حصہ بن گئے تھے۔ انہوں نے علاؤ الدین مظہر کے بارے میں بتایا کہ وہ پڑھنے کے بڑے شوقین تھے۔

تقسیم سے پہلے وہ جالندھرسے ادبی جریدہ ’ادب لطیف‘ اور مکتبہ اردو کی کتابیں منگایا کرتے تھے، اس لیے ان کے چچا اور والد کو جانتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد یہ  شناسائی ہی انہیں مکتبہ جدید لے گئی جہاں سالہا سال انہوں نے کام کیا۔

ریاض صاحب سہگل کی برسی کے موقع پر تقریب میں بھی شریک ہوتے رہے۔ اپنے پسندیدہ گلوکار پنکج ملک کی آواز سنے کی خاطر بھی  ان کے قدم علاؤ الدین مظہر کے گھر کی طرف اُٹھتے رہے۔ ریاض صاحب نے بتایا کہ ایک دفعہ دور درشن کی ٹیم سہگل کے ان ریکارڈ کی تلاش میں ان کے پاس آئی جو اس کے ریکارڈ میں نہیں تھے۔ علاؤ الدین مظہر نے ان سے تعاون کے بدلے میں بس یہ تقاضا کیا کہ ان کے پاس جو ایک ریکارڈ مس ہے وہ انہیں مہیا کردیا جائے۔

دیوندر ستیارتھی کا فکشن نگار کی حیثیت سے کام اپنی جگہ اہم ہے لیکن انہوں نے نگری نگری  پھر کر جس دیوانگی سے لوک گیت جمع کیے اس کی مثال نہیں ملتی۔ علاؤ الدین مظہر بھی اسی طرز کے دیوانے تھے۔ دلچسپ بات ہے  کہ علاؤ الدین مظہر نے لاہور میں سنت نگر میں سکونت اختیار کی، تقسیم سے پہلے ستیارتھی بھی اسی علاقے میں رہتے رہے تھے۔ یہ بات ریاض صاحب نے ہمیں بتائی جن کے والد نذیر احمد کی ستیارتھی سے گاڑھی چھنتی تھی۔

محلے داری کی اس قدر مشترک کو معمولی مت جانیں۔ سہگل سے ان کی  محبت کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ جالندھر میں ان کے محلے دار تھے۔ انہوں نے انتظار حسین کو بڑے فخر سے بتایا تھا:

’سہگل ہمارا محلے دار تھا۔میں نے اسے خود دیکھا ہے۔‘

سہگل کا ٹی سیٹ اور بانو قدسیہ

بانو قدسیہ نے اپنی کتاب ’راہِ رواں‘ میں پاکستان بننے سے پہلے دھرمسالہ میں قیام کے دوران ،فلموں کے شوق کا تذکرہ کیا ہے۔سہگل کی فلم ’دیوداس ‘ دیکھنے کا حوالہ بھی دیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ سہگل جب دیوداس کے روپ میں یہ گاتا:

دکھ کے اب دن بیتت ناہیں

تو دل میں شام سے پڑ جاتی

بانو قدسیہ نے فلمی اداکاروں کی تصویروں کا ایک البم بھی بنا رکھا تھا جس کے پہلے صفحے پر سہگل کی تصاویر تھیں۔

بانو قدسیہ کی سہگل سے ملاقات بھی ہوئی جس کی روداد انھوں نے کچھ یوں لکھی:

’کندن لال سہگل ایک مرتبہ دھرمسالہ آئے تھے۔ریسٹ ہاؤس میں ٹھہرے۔وہاں ہم ان سے اسی عقیدت سے ملنے گئے جس طرح سارے فین (عقیدت مند)جاتے ہیں۔ سہگل اپنا ایک ٹی سیٹ بیچ رہے تھے ۔ امی نے وہ ٹی سیٹ دو سو روپے میں خرید لیا۔ عجیب بات ہے کہ وہ سیٹ میرے پاس 121-c   (ماڈل ٹاؤن لاہور میں اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کا گھر جس کا نام انہوں نے داستان سرائے رکھا تھا) تک رہا اور بالآخر میں نے اسے ایک ایسے شخص کی نذر کیا جو سہگل کی یادیں جمع کر رہا تھا۔‘بانو قدسیہ نے یہ ٹی سیٹ جس شخص کو دیا وہ کوئی اور نہیں علاؤ الدین مظہر تھے۔ اس بات کی تصدیق ریاض احمد نے کی۔

یہ ٹی سیٹ علاؤ الدین مظہر نے بہت سینت کر رکھا۔ اس کی چائے دانی انہیں کس قدر عزیز تھی اس کے بارے میں انتظار حسین نے لکھا:

’ریکارڈ اور تصویریں دکھانے کے بعد کہا کہ اچھا اب میں اصلی چیز دکھاتا ہوں ۔ ہم نے کہا کہ وہ کیا ہے؟جواب میں ایک پرانی دھرانی چائے دانی نکالی۔ کہا کہ سہگل اس میں چائے پیا کرتا تھا۔ یہ چائے دانی ہندوستان پاکستان میں کسی کے پاس نہیں ہے۔ میرے پاس ہے۔‘


News Source   News Source Text

مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.