پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کے پاس اس جیت کے بعد کیا آپشنز ہیں؟

الیکشن کمیشن پاکستان کے ابتدائی غیر حتمی و غیر سرکاری نتائج کے مطابق آزاد امیدواروں کی ایک بڑی تعداد نے 2024 کے عام انتخابات میں فتح حاصل کی ہے۔ ان میں سے اکثر کو عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی حمایت حاصل تھی۔
عمران حان، تحریک انصاف
EPA

الیکشن کمیشن پاکستان کے ابتدائی غیر حتمی و غیر سرکاری نتائج کے مطابق آزاد امیدواروں کی ایک بڑی تعداد نے 2024 کے عام انتخابات میں فتح حاصل کی ہے۔ ان میں سے اکثر کو عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی حمایت حاصل تھی۔

اب تک قریب 50 آزاد امیدواروں نے قومی اسمبلی کی نشستیں جیت لی ہیں جن میں تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان، سینیئر نائب صدر لطیف کھوسہ، سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور پارٹی رکن علی امین گنڈاپور شامل ہیں۔

دوسری طرف خیبر پختونخوا اسمبلی میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کو بڑی اکثریت ملی ہے جبکہ پنجاب اسمبلی میں انھوں نے مسلم لیگ ن کو اچھا مقابلہ دیتے ہوئے اب تک پچاس سے زیادہ سیٹوں پر فتح حاصل کی ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ تحریک انصاف اس وقت مخصوص نشستوں سے محروم ہوگئی تھی جب الیکشن کمیشن نے اس کے انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دے کر اس سے بلے کا نشان واپس لے لیا تھا۔ اس فیصلے کو سپریم کورٹ کی جانب سے برقرار رکھا گیا تھا۔

پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کے پاس کیا راستے ہیں؟

الیکشن قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آزاد امیدواروں کی سیاسی جماعتوں میں شمولیت قانونی طور پر لازم نہیں، یعنی وہ چاہیں تو آزاد حیثیت میں قومی یا صوبائی اسمبلی میں رہ سکتے ہیں۔

تاہم اکثر مختلف وجوہات کی بنا پر ان سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ کسی سیاسی جماعت کا حصہ بن جائیں گے۔ سیاسی تجزیہ کار رفیع اللہ کاکڑ کے مطابق کسی سیاسی جماعت میں شامل ہونے کے پیچھے ایک آزاد امیدوار کا مقصد اپنا سیاسی کیریئر بنانا، سیاسی طور پر کسی ایک نظریے سے خود کو منسلک کرنا یا پارلیمان میں زیادہ فعال کردار ادا کرنا ہوسکتا ہے۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ جیتنے کے بعد ان امیدواروں کے پاس تین دن کا وقت ہوگا جس دوران انھیں کوئی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا ہوگی۔

وہ کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے قواعد کے مطابق آزاد امیدوار صرف اسی پارٹی میں شامل ہوسکتے ہیں جس کا انتخابی نشان انھیں بیلٹ میں دیا جاتا ہے۔ ’پاکستان تحریکِ انصاف اب فعال نہیں تو یہ ان آزاد امیدواروں کے لیے بڑا چیلنج ہوگا کہ وہ کس پارٹی کو جوائن کرتے ہیں۔‘

الیکشن سے قبل تحریک انصاف کے رہنماؤں کی طرف سے یہ عندیہ دیا گیا تھا کہ وہ ایک ساتھ کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کر کے اس سے الحاق کر سکتے ہیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ملک میں عام انتخابات کے نتائج کا اعلان کئی گھنٹوں کی تاخیر کے بعد شروع کیا۔ اب تک کے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج ابتدائی نتائج کے مطابق پاکستان تحریکِ انصاف خیبر پختونخوا سے، مسلم لیگ ن پنجاب سے، جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی سندھ میں آگے ہیں۔

آزاد امیدواروں کی خیبرپختونخوا میں حیران کن کامیابی کے نتیجے میں انھیں دو بڑی جماعتوں کی جانب سے شمولیت کی پیشکش آ رہی ہیں۔ ان میں جہاں بلاول بھٹو زرداری نے انھیں پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کی دعوت دی تو وہیں پاکستان مسلم لیگ ن نے بھی کہا کہ اسے آزاد امیدواروں کو اپنی جماعت میں شامل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

اس معاملے پر رفیع اللہ کاکڑ نے کہا کہ ’دو باتیں ہوسکتی ہیں۔ انتخابی نشان نہ ملنا ایک طرف، ان آزاد امیدواروں کو پی ٹی آئی میں شامل ہونے دینا چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ اگر یہ چاہیں تو پیپلز پارٹی اور ایک چھوٹی جماعت کے ساتھ مل کر حکومتی اتحاد بنا سکتی ہیں۔‘

سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ اس وقت ایک ’منقسم مینڈیٹ‘ سامنے آ رہا ہے جس کے نتیجے میں حکومتی اتحاد ضروری ہے۔

رفیع اللہ نے کہا کہ ’جہاں ن لیگ شمالی پنجاب میں جیت رہی ہے۔ وہیں وسطی پنجاب میں اب تک ہار رہی ہے۔ 266 کی کُل تعداد میں سے 134 ارکان چاہییں قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت بنانے کے لیے۔‘

انھوں نے دعوی کیا کہ ’جہاں ن لیگ کے 80 ارکان تک رُکنے کے چانسز ہیں وہیں پیپلز پارٹی کے بھی 50 یا 55 ارکان کے کامیاب ہونے کا امکان ہے۔ تو ایسے میں آزاد امیدوار آپ کی جماعت کے نمبر بڑھانے میں مدد کرسکتے ہیں۔‘

واضح رہے کہ ایک بڑے انتخابی اپ سیٹ میں پاکستان تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار سابق وزیرِ اعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کو قومی اسمبلی کے ایک حلقے سے شکست دے دی ہے۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ غیر سرکاری غیر حتمی نتائج کے مطابق قومی اسمبلی کے حلقے این اے 15 مانسہرہ میں شہزاد محمد گشتاسپ خان نے نواز صریف کو بھاری مارجن سے شکست دی ہے۔

نواز شریف لاہور میں قومی اسمبلی کے حلقے 130 سے بھی مسلم لیگ کے امیدوار تھے جہاں انھوں نے کامیابی حاصل کی ہے۔

تحریک انصاف
EPA

کیا آزاد امیدوار مل کر اپنا وزیر اعظم منتخب کر سکتے ہیں؟

جب رفیع اللہ کاکڑ سے سوال پوچھا کہ کیا آزاد امیدوار اپنا وزیرِ اعظم منتخب کرسکتے ہیں تو انھوں نے جواب دیا کہ ’بالکل کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ان کے پاس 266 کی اسمبلی میں 134 نشستیں ہیں تو وہ ایسا بالکل کرسکتے ہیں۔‘

تاہم انھوں نے کہا کہ آزاد امیدواروں کی جانب سے اپنا وزیرِ اعظم منتخب کرنا ’پریکٹیکل نہیں سمجھا جاتا لیکن اس کے بارے میں قانون میں کوئی قدغن نہیں ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.