دنیا کا سب سے بڑا بحری جہاز جسے پہلے صدام حسین کی فوج نے ڈبویا اور پھر اس کا اپنا حجم اس کے زوال کا باعث بنا

اپنی 30 سالہ زندگی کے دوران ’سی وائز جائنٹ‘ کو ’دنیا کا سب سے بڑا جہاز‘، ’انسانوں کا بنایا گیا سب سے بڑا جہاز‘، ’سب سے زیادہ تیل لے جانے کی صلاحیت رکھنے والا جہاز‘ جیسے کئی خطابات ملے۔

اپنی 30 سالہ زندگی کے دوران ’سی وائز جائنٹ‘ کو ’دنیا کا سب سے بڑا جہاز‘، ’انسانوں کا بنایا گیا سب سے بڑا جہاز‘، ’سب سے زیادہ تیل لے جانے کی صلاحیت رکھنے والا جہاز‘ جیسے کئی خطابات ملے۔

اس جہاز کے کئی اور نام بھی تھے جیسا کہ ’ہیپی جائنٹ‘، ’جاہرے وائکنگ‘، ’نوک نیوس‘ اور ’مونٹ‘ جبکہ اسے ’سُپر ٹینکر‘ بھی کہا جاتا تھا۔

جہاں یہ بحری جہاز لاکھوں لیٹر تیل لے جانے کی صلاحیت رکھتا تھا وہیں یہ اپنے انتہائی اتنے بڑے حجم کی وجہ سے کئی بندرگاہوں میں داخل بھی نہیں ہو پاتا تھا۔ اور اپنے اس ہی حجم کی وجہ سے سوئز نہر اور نہر پانامہ جیسی کئی اہم سمندری گزرگاہیں عبور کرنے سے قاصر تھا۔

اور بلآخر اس جہاز پر عراق میں صدام حسین کی فوج نے حملہ کر کے آگ لگا دی تھی جس کے باعث یہ ڈوب گیا تھا۔

لیکن ہر عظیم سمندری داستان کی طرح، یہ تباہی اس جہاز کی کہانی کا اختتام نہیں تھا۔ اس کو دوبارہ بنایا گیا اور یہ اس کے بعد بھی کئی برسوں تک فعال رہا۔

اس سپر ٹینکر کو ابتدائی طور پر سنہ 1979 میں جاپان کے شہر اوپاما میں واقع سومیتومو ہیوی انڈسٹریز شپ یارڈ میں بنایا گیا تھا۔

مختلف ذرائع کے مطابق اس جہاز کی تعمیر کا حکم ایک یونانی کاروباری شخصیت نے دیا تھا تاہم اس کی تیاری مکمل ہونے کے بعد اس نے اسے خریدا نہیں۔ بالآخر 1981 میں ہانگ کانگ کے ایک بزنس مین ٹنگ چاؤ ینگ نے اسے خرید لیا۔ وہ ایک سمندری جہازرانی کی کمپنی ’اورینٹ اوورسیز کنٹینر لائن‘ کے مالک تھے۔

ہانگ کانگ کے ’میری ٹائم میوزیم‘ کے مطابق خریدنے کے بعد جہاز کے نئے مالک کو لگا کہ اس کو مزید بڑا ہونا چاہیے چنانچہ اس میں نیا حصہ جوڑ کر اس کو مزید بڑا کر دیا گیا جس کے بعد اس کی تیل لے جانے کی صلاحیت میں 140,000 ٹن کا مزید اضافہ ہو گیا۔

اس سپر ٹینکر کی لمبائی ریکارڈ 458.45 میٹر تھی۔ یہ ملیشیا کے ’پیٹروناس ٹاور‘ اور نیویارک کی ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ کی اونچائی سے بھی زیادہ لمبا تھا۔

یہ جہاز تقریباً چار ارب بیرل تیل لے جانے کی صلاحیت رکھتا تھا، جو ایک عام کار میں 10 بار سورج تک جا کر واپس آنے کے لیے کافی ہے۔

یہ جہاز آج کے زمانے کے سب سے بڑے کروز جہاز ’آئیکون آف دی سی‘ سے تقریباً 100 میٹر جبکہ مشہورِ زمانہ ’ٹائٹینک‘ سے 200 میٹر لمبا ہے۔

اگر اس جہاز کو پورا بھر دیا جائے تو اس کا وزن 657,000 ٹن ہو جاتا اور اتنے بھاری جہاز کو چلانے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر 220 ٹن ایندھن لگتا تھا۔

جہاز کے کپتان کے مطابق، اس کو روکنے کے لیے کم از کم آٹھ کلومیٹر پہلے بریک لگانا پڑتا تھا
BBC
اتنے بھاری جہاز کو چلانے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر 220 ٹن ایندھن لگتا تھا

جب سنہ 1998 میں بی بی سی نے اس جہاز کا دورہ کیا تو جہاز کے کپتان سریندر کمار موہن نے بتایا کہ یہ جہاز سمندر میں تقریباً 16 ناٹس یا تقریباً 30 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل سکتا ہے۔

جہاز کے کپتان کے مطابق، اس کو کسی مخصوص مقام پر روکنے کے لیے کم از کم آٹھ کلومیٹر پہلے بریک لگانا پڑتی تھی۔

اور اس کو مخالف سمت میں موڑنا بھی ایک مشکل عمل ہوتا تھا اور اس کے لیے تین کلومیٹر کی جگہ چاہیے ہوتی تھی۔

جنگی مقاصد

لیکن جس جہاز کا بی بی سی نے دورہ کیا تھا وہ دوبارہ تعمیر شدہ تھا۔

مشرق وسطیٰ اور مغرب کے درمیان تیل کی تجارت کے عروج پر، اس سپر ٹینکر نے پوری دنیا میں نہ صرف تیل کی ترسیل کا کام کیا بلکہ یہ ایک تیرتے ہوئے بڑے گودام کے طور پر بھی کام آیا۔

اس جہاز نے اپنی آخری مہم مئی 1988 میں اس وقت پوری کی جب وہ ایرانی جزیرے لارک پر لنگر انداز تھا۔ اس وقت خلیج فارس میں عراق اور ایران کے درمیان جنگ اپنے آخری مراحل میں تھی۔

بنا کسی وارننگ کے صدام حسین کی فوج نے اس پر بموں سے حملہ کر دیا۔

اس کے نتیجے میں جہاز میں آگ لگ گئی اور وہ ڈوب گیا۔

جنگ کے خاتمے کے بعد، ناروے کی ایک کمپنی نارمن انٹرنیشنل نے اس جہاز کو بچانے میں اپنی دلچسپی ظاہر کی۔ اور سنہ 1991 میں 3,700 ٹن سٹیل کا استعمال کرتے ہوئے اس کی دوبارہ مرمت کی گئی اور اسے دوبارہ تیرنے کے قابل بنا دیا گیا۔

مگر اب اس کا نام سی وائز جائنٹ نہیں رہا تھا۔ اب اس کا نام ہیپی جائنٹ تھا۔

دیو قامت جہاز کا زوال

مرمت کے بعد یہ سپر ٹینکر ایک بار پھر فعال ہو گیا مگر اب یہ مرچنٹ ٹرانسپورٹ فرم ’کے ایس‘ کی ملکیت تھا اور اس کا نام بدل کر ’جاہرے وائکنگ‘ رکھ دیا گیا۔

مگر نوے کی دہائی میں جہاز رانی کی صنعت میں کم ایندھن خرچ کرنے والے ٹینکرز کا استعمال بڑھنے لگا تھا اور اس معاملے میں جاہرے وائکنگ کی شہرت کچھ خاص نہ تھی۔

اس کے علاوہ، اس کا حجم اس کے زوال کی ایک اور وجہ بنی کیونکہ اپنے سائز کے باعث یہ سوئز کنال اور پانامہ کنال سے گزر نہیں سکتا تھا۔

سنہ 2004 میں ناروے کی ایک اور فرم نارویجین فرسٹ اولسن ٹینکرز نے اسے خرید کر ایک تیرتے ہوئے تیل کے گودام میں تبدیل کر دیا۔ اس کا نیا نام نوک نیوس رکھا گیا اور اسے قطر کے ساحل پر لے جایا گیا۔

بالآخر سنہ 2009 میں اس نے کام بند کر دیا۔ اس وقت اس کا نام ایک بار پھر بدل کر ’مونٹ‘ رکھ دیا گیا اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے (سکریپ) کے لیے اسےانڈیا لے جایا گیا۔

سی وائیز جائنٹ کی آخری آرام گاہ وہی بندرگاہ بنی جہاں اس کو دنیا کے سب سے بڑے جہاز کا خطاب ملا تھا یعنی ہانگ کانگ۔ اب اس کا صرف 36 ٹن کا دھانچہ بچا ہے جو ہانگ کانگ کے میری ٹائم میوزیم میں رکھا گیا ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.