انڈین میڈیا میں پاکستان کے انتخابات پر تبصرے: ’یہ الیکشن پاکستان کرکٹ کے میچز جیسا ہے، آپ کو معلوم نہیں، اس سے کیا توقع کریں‘

’ہندوستان ٹائمز‘ میں ایک مضمون میں لکھا گیا کہ پاکستان کے انتخابی نتائج ان تجزیہ کاروں کے لیے بھی بہت چونکا دینے والے ہوں گے جنھوں نے اس عمومی اصولپر اپنا نتیجہ اخذ کیا تھا کہ پاکستان کی فوج کا ہر چیز پر کنٹرول ہے۔

جہاں پاکستان میں پارلیمانی انتخابات کے نتائج اس وقت سب سے ’ہاٹ ٹاپک‘ ہیں، اسی طرح انڈیا میں بھی ان میں گہری دلچسپی لی جا رہی ہے۔

جہاں ٹی وی چینلز اور اخبارات نے انتخابات اور اس کے نتائج کی بھرپور کوریج کی، ممکنہ صورتحال پر مسلسلتبصرے اور مضامین شائع کیے، وہیں ان انتخابات میں کسی جماعت کو واضح اکثریت نہ ملنے کے بعد ابھی تک انڈین حکومت کی جانب سے کوئی بیان نہیں آیا۔

انڈین حکومت عموماً انتخابات جیتنے والی پارٹی کو مبارکباد کا پیغام دیتی آئی ہے لیکن اس بار وہ ابھی تک خاموش ہے اور کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔

اس تحریر میں بی بی سی نے انڈین میڈیا میں ان انتخابات کے نتائج پر شائع ہونے والے مضامین اور اداریوں کا جائزہ لیاگیا ہے۔

پاکستان الیکشنز 2024

’ملک میں سیاسی عدم استحکام کا دور جاری رہے گا‘

اسلام آباد میں انڈیا کے سابق ہائی کمشنر ٹی سی اے راگھون نے اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘ میں ایک مضمون میں لکھا کہ پاکستان کے انتخابی نتائج انتجزیہ کاروں کے لیے بھی بہت چونکا دینے والے ہوں گے جنھوں نے اس عمومی اصولپر اپنا نتیجہ اخذ کیا تھا کہ پاکستان کی فوجکا ہر چیز پر کنٹرول ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ ’انتخابات سے قبل عمران خان اور ان کی پارٹی پر ہر طرح کے دباؤ، جیل، سیاست پر پابندی اور کئی حلقوں میں انتخابی دھاندلی کے واقعات کے باوجود جو نتائج سامنے آئے ہیں وہ مجموعی طورپر عوام کے رحجان کی عکاسی کرتے ہیں۔‘

ٹی سی اے راگھون کے مطابق پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد میں فتح اور کسی پارٹی کو اکثریت نہ ملنے کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں موجودہ سیاسی عدم استحکام کا دور ابھی جاری رہے گا اور اس ماحول میں سول اور ملٹری ٹکراؤ اور شدت اختیار کرے گا۔‘

پاکستان الیکشن
Getty Images

’آزاد ارکان عمران خان کے وفادار رہیں گے‘

روزنامہ ’انڈین ایکسپریس‘ کے تجزیہ کار شببھ جیت رائے نے لکھا ہے کہ ’کسی کو اکثریت نہ ملنے کے سبب اب پاکستان کی فوج کی گرفت ہر پارٹی پر بہت مضبوط ہو گی۔ فوج کو نواز شریف نے سنہ 2017-18 میں چیلنج کیا تھا اور عمران خان گذشتہ برس سے فوج سے ٹکراؤ کے راستے پر ہیں۔ ماضی کے ان تجربوں سے فوج اب پہلے سے زیادہ چالاک ہو چکی ہے اور اب وہ کسی بھی سیاسی رہنما کو ایک حد سے زیادہ طاقتور نہیں ہونے دینا چاہتی۔‘

انڈیا کے سابق خارجہ سکریٹری وویک کاٹجو نے ’انڈین ایکسپریس‘ میں ’ایسا انتخاب جس میں کوئی فاتح نہیں‘ کے عنوان سے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ عمران خان کی جماعت نے انتہائی مخالف حالات میں انتخاب لڑا اور غیر معمولی کارکردگی دکھائی۔

’اس کا ملک کی اعلیٰ عدالتوں پر اثر پڑ سکتا ہے اور وہ عمران خان کی سزا پر نظر ثانی کر سکتی ہیں۔‘

وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’قومی اسمبلی میں عمران خان کی پارٹی کے ارکان کی بڑی تعداد میں موجودگی سے عدلیہ اور دوسرے اداروں پر دباؤ پڑے گا۔ فوج اور نئی مخلوط حکومت کچھ آزاد ارکان کو اپنی طرف ملانے کی کوشش کرے گی لیکن بیشتر ارکان ممکنہ مخالف عوامی ردعمل کے خوف سے عمران خان کے وفادار رہیں گے۔‘

’اس بات کے امکان کم ہیں کہ خان کو مستقبل قریب میں عدالت سے کوئی ریلیف مل سکے گی لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ ملک کی عدالتیں کسی نہ کسی مرحلے پر انھیں جیل سے رہا کریں گی۔ اگر وہ رہا ہوئے تو وہ ملک میں ہی رہیں گے۔ وہ اس طرح کے رہنما نہیں جو ملک بدر ہونے پر اتفاق کریں گے۔‘

انھوں نے مزید لکھا کہ پاکستان کا وہ طبقہ جو چاہتا ہے فوج سیاست سے الگ رہے وہ ان انتخابی نتائج سے امید کر رہا ہو گا کہ اس سے فوج میں اس کے قومی کردار کے بارے میں کچھ غور و خوض شروع ہو گا لیکن اس کا امکان بہت کم ہے۔‘

پاکستان الیکشن
Getty Images

’یہ پارلیمانی انتخاب پاکستان کرکٹ ٹیم کے میچز جیسا ہے‘

انڈین ایکسپریس نے ’انتخابات کے بعد‘ کے عنوان سے اپنے اداریے میں لکھا کہ ’آئندہ حکومت ایسی ہو گی جس کا کوئی بھی رہنما سیاست اور فیصلہ سازی کے عمل میں فوج کے غلبے کو چیلنج نہیں کر سکے گا۔‘

روزنامہ ’ٹائمز آف انڈیا‘ نے ’نوجوانوں کی سنیے‘ کے ‏عنوان سے اپنے اداریے میں لکھا کہ ’پاکستان کا پارلیمانی انتخاب پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے میچز کی طرح ہے۔ یعنی آپ کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس سے کیا توقع کریں۔ یہ ایک ایسا انتخاب تھا جسے بیشتر دنیا فکسڈ میچ کہہ رہی تھی۔ وہ اپنے طے شدہ راستے سے ہٹ گیا۔‘

اس اداریے میں مزید لکھا گیا ہے کہ ’اس کے لیے پاکستان کے نوجوانوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ پرانی نسلوں کو نوجوانوں کے بارے میں اپنی سوچ پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور انھيں بے پروا اور بے مقصد جھنڈ کی طرح نہیں دیکھنا چاہیے۔ سطح کے نیچے ہمیشہ لہریں ہوتی ہیں جنھیں جاننا ضروری ہوتا ہے کیونکہ اکثر یہی خواب دیکھنے والے چھوٹے لوگ بڑی بڑی تبدیلیاں لاتے ہیں۔‘

اسی اخبار میں پاکستان میں انڈیا کے سابق ہائی کمشنر اجے بیساریا نے اپنے مضمون میں لکھا کہ پاکستان کے عوام نے ملٹری کی پسندیدہ جماعتوں کے خلاف ووٹ دیا لیکن اس کے باوجود آئندہ مخلوط حکومت کی تشکیل میں فوج اہم کردار ادا کرے گی۔

بیساریا مزید لکھتے ہیں کہ ’نواز شریف کو تین بار وزارت عظمیٰ کی نامکمل مدت کا تجربہ ہے۔ انھیں دوسری جماعتوں کے ساتھ 2007 کے طرز پر ’چارٹر آف ڈیموکریسی ‘ وضع کرنا چاہیے جو انھوں نے پی پی پی کے ساتھ جنرل مشرف کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے بنایا تھا۔ انھیں اس میں پی پی پی اور پی ٹی آئی دونوں کو شامل کرنا چاہیے اور فوج سے مذاکرات کرنا چاہیں کہ وہ سویلین رہنماؤں کو حکومت چلانے دے۔‘

انھوں نے یہ بھی لکھا کہ ’ایک دوسرے سے لڑنے کی بجائے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ فوج پر زور دیں کہ وہ ملک کے سکیورٹی چیلنچز پر اپنی توجہ مرکوز کرے۔ یہ پاکستان میں حالات معمول پرلانے کی جانب ایک اہم قدم ہو گا۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.